لاہور کے بڑے میڈیا ہاؤس کا سربراہ پنجاب کی خاتون وزیر کو بچانے کے لئے سرگرم

لاہور کے بڑے میڈیا ہاؤس کا سربراہ پنجاب کی خاتون وزیر کو بچانے کے لئے سرگرم
بتایا جاتا ہے کہ موجودہ پنجاب کابینہ میں ایک خاتون وزیر کا معاملہ سب سے زیادہ خراب ہے اور ان کی وزارت سب سے زیادہ خطرے میں ہے۔ البتہ لاہور کے ایک قدیم مگر مشہور سینما کے قریب اپنا ہیڈکوارٹررکھنے والے ایک بڑے میڈیا ہاؤس کا مالک ان کی وزارت بچانے کے لئے متحرک ہو گیا ہے جو اپنا اثر و رسوخ استعمال میں لاتے ہوئے پرائم منسٹر ہاؤس اور وفاقی کابینہ میں ان کے حق میں لابنگ کر رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی میں بھی ان کے بارے رائے عامہ غیر موافق ہے۔ کیوں کہ موصوفہ مسلسل 3 بار اپنے آبائی حلقے میں الیکشن ہار چکی تھیں اس لئے خواتین کے لئے مختص نشستوں میں سے ایک پر نامزد کر کے انہیں صوبائی اسمبلی میں لا کر وزیر بنایا گیا مگر 20 ماہ میں بھی وہ کارکردگی کی بنیاد پر اپنے قدم جمانے میں بھی ناکام رہی ہیں۔ 

پارٹی کے اہم حلقوں میں یہ تاثر تقویت پکڑ چکا ہے کہ عام انتخابات میں انہیں الیکشن جتوانے کے لئے پارٹی نے بھر پور کردار ادا کرتے ہوئے اپنا پورا زور لگا دیا ، گورنر چوہدری سرور اور علیم خان سمیت پارٹی کے تمام stalwarts ( قد آور رہنماء اور شخصیات ) ان کی الیکشن مہم میں " حاضر " ہوئے۔ اس کے علاوہ خاطر خواہ فنڈز مہیا کرتے ہوئے دس 11 کروڑ روپے ان کی انتخابی مہم میں جھونک دیئے۔ نہ کسی بھی دوسرے پارٹی رہنما کے لئے پی ٹی آئی نے اتنا زور لگایا ، اپنی پوری توانائیاں وقف کیں اور نہ کسی اور امیدوار کی کمپین میں اتنی فنڈنگ کی گئی مگر الیکشن وہ پھر بھی نہ. جیت سکیں جبکہ ان کے گھمنڈ کا یہ عالم ہے کہ وہ پارٹی گیٹ ٹو گیدرز میں ھمیشہ یہ" جتلا " کر اپنی دھاک بٹھانے کی کوشش کرتی چلی آئی ہیں ' مجھے ایک عورت نہ سمجھیں ، میں اکیلی آپ دس مردوں سے بھی بڑی مرد ہوں۔

دوسری طرف ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود بالخصوص کرونا وائرس سے پیدا شدہ بحرانی صورتحال میں مایوس کن کارکردگی کے ساتھ ساتھ اپنی مبینہ بد مزاجی اور بدکلامی سے پارٹی صفوں سمیت ہر شعبے میں اپنے خلاف رائے ہموار کی ، ہر ایک سے وہ الجھتی ہیں اور اپنے شعبے میں بھی ان کے حوالے سے کوئی قابل رشک رائے پیدا نہیں ہو پائی۔ ایک سینیئر ڈاکٹر سے جب یہ پوچھا گیا کہ انہیں اگروزارت سے ہٹا دیا جاتا ہے تو آپ کے شعبے کو کوئی فرق پڑے گا؟ تو ان کا جواب تھا " ھمارے لئے تو ایسے ہی ہوگا جیسے کسی ہسپتال کا ایک ایم ایس چلا گیا اور کوئی دوسرا آگیا۔

پھر ینگ ڈاکٹرز موجودہ " کرونا بحران " میں جن کے کردار اور اپمیت سے انکار ممکن نہیں ، ان سمیت اس پوری صورتحال سے نمٹنے میں وہ کوئی نتیجہ خیز کردار ادا کرنے میں بھی ناکام بتائی جاتی ہیں ، ینگ ڈاکٹرز سے ان کی نفرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ، یہاں تک کہ ذرائع کے مطابق پنجاب میں ینگ ڈاکٹرز نے جب آخری ہڑتال کی تھی تو صورتحال سنبھالنے کے لئے نان سول قوتوں کو آگے آنا پڑا تھا۔

بتایا جاتا ہے کہ جب آخری بار صوبے میں ینگ ڈاکٹروں نے اعلان کیا کہ اپنے مطالبات منظور ہو جانے تک وہ کام نہیں کریں گے اور جب خبر آئی تھی کہ صورتحال سے نمٹنے کے لئے فوج نے ڈاکٹرز اور نرسیں بھیج دی ہیں تو لاہور میں تعینات اعلیٰ ترین عسکری شخصیت نے ینگ ڈاکٹرز کی قیادت کو فون کر کے دو ٹوک انداز میں تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا " آپ کی جینوئن ڈیمانڈز حکام کو فارورڈ کر دی گئی ہیں لیکن اگر آپ لوگوں نے مریضوں کا علاج کرنا فوری شروع نہیں کیا تو پھر ھم آپ کا علاج کر دیں گے " جس کے بعد ینگ ڈاکٹرز نے ہڑتال کی کال فوری واپس لی تھی۔