مولانا صاحب! سیاست نہیں ریاست بچاؤ

مولانا صاحب! سیاست نہیں ریاست بچاؤ
2014 میں جب عمران خان اور طاہرالقادری نے دھرنا دیا تھا تو اس وقت بھی آزاد رائے رکھنے والے تمام صاحب علم اور دور اندیش لوگوں نے اس دھرنے کی مخالفت کی تھی مخالفت کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ اگر وہ دھرنا کامیاب ہوجاتا اور اس کے نتیجے میں حکومت ختم کر دی جاتی یا وزیراعظم نواز شریف استعفی دے دیتے تو ایک غلط روایت قائم ہو جاتی، اسی خدشے کو پیش نظر رکھتے ہوئے تمام دانشوروں اور سمجھ دار حلقوں کا یہی کہنا تھا کہ دھرنے کے ذریعے حکومتوں کو گھر بھیجنا درست نہیں اور پھر اللہ کا بڑا کرم ہوا کہ وہ دھرنا ناکامی سے دوچار ہوا۔

لیکن، 126 دن کی مسلسل لائیو کوریج میں جس طرح عمران خان نے تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور رہنماؤں کی تضحیک کی شاید وہ لوگوں کے ذہنوں میں آج تک نقش ہے۔ جہاں اس منفی پروپیگینڈے سے ایک طبقہ عمران خان کا حمایتی بن گیا وہیں ایک بہت بڑے طبقے میں ان کی لئے اتنی ہی نفرت بھی پیدا ہوئی۔ عمران خان کی زہریلی زبان سے متاثرہ لوگ اس وقت اسلام آباد میں مولانا کے مارچ میں موجود ہیں۔ اسی لئے سیانے کہتے ہیں کہ زبان کا زہر سانپ کے زہر سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ لیکن، حد تو یہ ہے کہ اگر بات صرف دھرنے تک اور الیکشن کیمپین تک محدود رہتی تو شاید قابل برداشت ہوتی یا پھر اگر بات بڑھ کر احتساب تک بھی چلی جاتی اور انصاف ہوتا نظر بھی آتا تو بھی مخالفین پر ایک اخلاقی برتری قائم رہتی۔ لیکن، خان صاحب نے وزیراعظم بننے کے بعد بھی نہ تو اپنا لہجہ اور زبان بدلی اور نہ ہی اپنی کابینہ کے اراکین کو کنٹرول کیا۔ پھر احتساب بھی اس طرح ہو رہا ہے کہ انصاف اگر ہو بھی رہا ہو تو انصاف ہوتا نظر نہیں آ رہا۔



شاید عمران خان اس بات کا ٹھیک طور سے ادراک نہیں رکھتے کہ تاثر کی اہمیت حقیقت سے زیادہ ہوتی یا پھر وہ ادراک تو رکھتے ہیں لیکن نظام کا کنٹرول ان کے پاس نہیں ہے۔ وہ محض ایک کٹھ پتلی ہیں اور پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ گذشتہ ایک سال کے دوران معیشت بھی خراب سے خراب تر ہو رہی ہے۔ بلفرض ہم مان بھی لیتے ہیں معیشت کے چند اعشاریوں مثلا غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی کاروبار میں آسانی کے لحاظ سے رینکنگ میں بہتری آئی ہے، لیکن جی ڈی پی میں کمی سے لاکھوں لوگ بے روزگار ہوئے ہیں اور مہنگائی میں اضافے نے مزید کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ایسے میں تاجر اور ڈاکٹرز بھی اپنے اپنے مطالبات لے کر سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

اگر معیشت کے تمام اعشاریے بہتر بھی ہوجائیں لیکن مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوتا رہے تو عام آدمی کو آپ کے اعشاریوں کی بہتری میں کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔ ایک عام آدمی کی معیشت کا تعلق جی ڈی پی گروتھ مہنگائی کے تناسب سے ہوتا ہے۔ اگر آپ جی ڈی پی کم کر کے باقی اعشاریوں میں بہتری لے بھی آئیں تو یہ کوئی کمال نہیں ہے۔ اس طرح بہتر کیے گئے اعشاریوں سے عام عوام کو کوئی ریلیف ملنا تو دور کی بات ہے ان کی حالت پہلے سے بھی ابتر ہوجاتی ہے اور ادارے تنخواہوں میں اضافہ روک کر اپنے ملازمین کو فارغ کرنے لگتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے اور یہی کچھ اس وقت پاکستان کی معیشت کی صورت حال ہے۔

اب ایسی صورت حال میں جہاں الیکشن پر بھی سوالیہ نشان ہوں، احتساب ہو لیکن انصاف ہوتا نظر نہ آرہا ہو، جی ڈی پی کم کر کے معیشت کے کچھ اعشاریے بہتر کر کے عام لوگوں کو بے روزگاری اور مہنگائی کی دلدل میں دھنسایا جارہا ہو۔ ایسے میں اگر وزیراعظم اپنی زبان کو بھی لگام نہ دیں اور پھنکاریں مارتے پھریں تو پھر اپوزیشن کوئی آپ کی چچازاد رشتے دار نہیں کہ خاموش بیٹھی رہے گی۔ خدا کا واسطہ ہے آپ اپنی زبان کو لگام دیں اقتدار تک پہچنے کے لئے سیاست کی جائے تو ٹھیک ہے لیکن اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے جب سیاست کی جاتی ہے تو اس سے انتشار جنم لیتا ہے۔

اپوزیشن کے تعاون کے بغیر آپ حکومت نہیں چلا سکیں گے صرف اداروں کی حمایت سے سول حکومتیں نہیں چلا کرتی۔ اداروں کو جب حد سے زیادہ کسی کی مدد کرنی پڑتی ہے تو وہ بجائے مدد کرنے کے خود اقتدار سنبھالنا ہی بہتر سمجھتے ہیں۔ اس لیے حکومتی رویے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ملک میں سیاسی عدم استحکام سے معیشت کو بہت نقصان ہوگا۔



اب مولانا کی خدمت میں عرض ہے کہ فرض کر لیں آپ کا دھرنا کا میاب ہوجاتا ہے اور وزیراعظم استعفی دے دیتے ہیں تو پھر اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اگلے الیکشن شفاف ہوں گے اور اگر شفاف ہو بھی گئے تو کیا گارنٹی ہے اس بات کی کہ معیشت ٹھیک ہوجائے گی۔ لوگوں کی حالت بہتر ہوجائے گی۔ مہنگائی کم ہو جائے گی۔ بے روزگاری کم ہو جائے گی۔ دودھ اور شہد کی نہریں بہیں گی۔ یقینا ایسا نہیں ہو گا، ہر ذی شعور انسان یہ جانتا ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔

اس وقت پاکستان کی معیشت کی جو حالت ہے اس کو بہتر کرنے کے لئے کم از کم 25 سالہ منصوبہ بندی درکار ہے۔ کوئی بھی ایک جماعت ملک کو اس دلدل سے نہیں نکال سکتی کیونکہ پہلے سیاست اقتدار حاصل کرنے کے لئے کی جاتی ہے اور پھر جب کسی جماعت کو اقتدار مل جاتا ہے تو وہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے بجائے لانگ ٹرم منصوبہ بندی کے کاسمیٹک سرجری کرتی ہے اور پھر کچھ عرصے بعد اس کاسمیٹک سرجری کے سائیڈ ایفیکٹس نظر آنا شروع ہوتے ہیں، پھر اس پر سیاست شروع ہو جاتی ہے۔

اس طرح ملک نہیں چلتے اس طرح ملک نہیں چل سکتے، لاکھوں نوجوانوں کا مستقبل تباہ ہو رہا ہے۔ نوجوانوں کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں اور پاکستانی قوم کے باہم تعصب کی وجہ سے اس ملک میں کبھی انقلاب بھی نہیں آ سکتا۔ اس لیے میں کہوں گا کہ یہ ملک خونی انقلاب نہیں بلکہ خونی انتشار کی جانب بڑھ رہا ہے۔

مولانا صاحب جس طرح آپ عمران خان کے دھرنے کا بدلہ چکا رہے ہیں۔ اسی طرح کل کوئی اور آپ کے دھرنے کا بدلہ چکانے کھڑا ہو جائے گا۔ اس لیے آپ قومی حکومت کی تشکیل کا مطالبہ کریں۔ ایسی قومی حکومت جس کی ترجیح سب سے پہلے معیشت کی بحالی کا طویل مدتی منصوبہ اور خارجہ پالیسی کی سمت کا درست کرنا شامل ہو، جس کے ذریعے عالمی تنہائی اور کشمیر کی آزادی کے لئے بامعنی جدوجہد کی جاسکے۔

قومی حکومت کی تشکیل کی صورت میں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوگا کہ اپوزیشن کا کردار کون ادا کرے گا تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ قومی حکومت کے قیام کے بعد میڈیا کو مکمل آزادی حاصل ہونی چاہیے تاکہ وہ معلومات کو عوام کے سامنے لا سکے اور میڈیا ہی قومی حکومت کی اپوزیشن کا کردار بھی ادا کرے، جس کے لئے ضروری ہے کہ میڈیا کے لئے ایسا نظام متعارف کروایا جائے، جس سے میڈیا مالی طور پر حکومت کی امداد کا محتاج نہ ہو۔ تاکہ آزادانہ طور پر معلومات عوام تک پہنچائی جائے۔



میری ناقص رائے میں چہرے بدل دینے سے نظام نہیں بدلے گا نہ ہی حقیقی جمہوریت بحال ہوگی۔ ایک جماعت کی حکومت گرا کر دوسری جماعت کی حکومت لانے سے یا سب کو جیلوں میں بھر کر مارشل لا لگانے سے  کچھ بہتر نہیں ہوگا۔ یہ سب کچھ ہم پچھلے بہتر سال میں کر کے دیکھ چکے ہیں۔ مولانا صاحب اب پرانی غلطیوں کو دہرانے کا وقت نہیں ہے، اب کچھ نیا کرنا ہوگا۔ اب کچھ نیا سوچنا ہوگا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ملک و قوم کو دائرے کے اس سفر سے باہر نکالا جائے، جس کی وجہ سے ہم ہر کچھ سال بعد وہیں کھڑے ہو جاتے ہیں جہاں سے چلے تھے۔ مولانا صاحب بظاہر آپ نے جن قوتوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہے وہ قابل تعریف ضرور ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آپ کچھ بھی کر لیں اس نظام کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ اگر نظام جھوٹ پر مبنی ہو تو آپ اس کا مقابلہ کر لیتے لیکن یہ نظام جھوٹ پر نہیں منافقت پر مبنی ہے، اور منافقت وہ زہر قاتل ہے جس کا مقابلہ کرتے کرتے تین خلفائے راشدین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید ہوئے۔ ورنہ کسی کافر کی کیا مجال تھی کہ وہ ان شخصیات پر تلوار اٹھانے کی ہمت کرتا۔ وہ منافقت ہی تھی جس نے مسلمانوں کو باہم لڑوا دیا۔ منافقت کا مقابلہ بہت بڑی بڑی شخصیات نہ کرسکی آپ بھی نہیں کر پائیں گے۔ آپ کو اتنا بھی اندازہ نہیں ہوگا کہ آپ کی صفوں میں کتنے منافق موجود ہیں۔ اس لئے کسی ایسے حل کی جانب قدم بڑھائیں جس کے بعد دھرنوں اور ہر قسم کی مداخلت کا باب ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے اور یہ ملک ترقی کی راہ پر چل پڑے اور آپ یہ کام کر سکتے ہیں۔ جس طرح آپ نے تمام جماعتوں کو آزادی مارچ پر متفق کیا ہے اسی طرح محدود مدت کے لئے قومی حکومت کی تشکیل پر بھی سب کو متحد کرنے کوشش کریں۔ اگر آپ یہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور اس سے پاکستان ترقی اور استحکام کی راہ پر چل پڑتا ہے تو یہ قوم تا قیامت آپ کی احسان مند رہے گی۔

آج پاکستان اس نہج پر آ گیا ہے کہ طاہرالقادری کا نعرہ ہی جچتا ہے کہ

"سیاست نہیں ریاست بچاؤ"

مصنف کیمسٹری میں ماسٹرز ہیں، اور کراچی یونیورسٹی میں ابلاغیات کی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔