جنرل باجوہ کا نواز شریف پر بیان؟ وہ بات جس کا سارے فسانے میں ذکر نہ تھا

جنرل باجوہ کا نواز شریف پر بیان؟ وہ بات جس کا سارے فسانے میں ذکر نہ تھا
اللہ بھلا کرے ایکسپریس نیوز والوں کا۔ پتہ نہیں بیچاری پوری نون لیگ کے سینے پر کیوں مونگ دلنے کا انہوں نے فیصلہ کیا کہ جنرل باجوہ کی کہی ایک بات کا بتنگڑ ہی بن گیا۔ جمعرات کو شروع ہونے والی پارلیمنٹری بریفنگ جس میں فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل فیض حمید نے پارلیمانی نمائندوں کو خطے میں امن و امان کی صورتحال پر ایک تفصیلی بریفنگ دی۔ اب ظاہر ہے کہ اس میٹنگ کی چونکہ باہر تفصیلات لانے پر پابندی تھی، اس لئے جس کو جو کچھ بھی ملا وہ ذرائع کے حوالے سے ہی ملا۔

اجلاس کے اختتام پر مسلم لیگی رہنماؤں پر یکایک سوشل میڈیا پر اپنے قائد نواز شریف سے دھوکہ دہی کے الزامات کی بوچھاڑ شروع ہو گئی۔ لوگوں کا کہنا تھا یہ کیسی قیادت ہے کہ اپنے لیڈر کے بارے میں کھلی دھمکی سن کر ہنسی خوشی باہر آ گئی۔ ٹوئٹر پر شہباز شریف سے لے کر شاہد خاقان عباسی تک سب کو وہ طعنے دیے گئے کہ کیا یاد کریں گے؟

عقدہ یہ کھلا کہ ایکسپریس اخبار کی ویب سائٹ پر ذرائع کے حوالے سے ایک خبر چھاپی گئی تھی جس کا کیپشن یہ رکھا گیا کہ 'مجھ پر نواز شریف نے تنقید کی برداشت کیا لیکن فوج پر برداشت نہیں کریں گے، آرمی چیف'۔ اب دیکھنے میں تو واقعی ہیڈلائن بڑی تیکھی ہے۔ لیکن حقیقت اس سے بہت مختلف تھی جو یہ سادہ لوح لوگ سمجھ رہے تھے۔



مصدقہ اطلاعات کے مطابق واقعہ دراصل یہ تھا کہ آرمی چیف سے ن لیگ ہی کے سینیئر رہنما شاہد خاقان عباسی نے تقریر کے دوران پشتون تحفظ تحریک سے تعلق رکھنے والے آزاد ایم این اے علی وزیر کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ جنرل باجوہ نے جواباً کہا کہ علی وزیر نے فوج کے خلاف بہت اشتعال انگیز تقاریر کی ہیں۔ نواز شریف نے بھی تقاریر کی تھیں لیکن انہوں نے میری ذات پر تنقید کی تھی، اسے میں نے برداشت کیا لیکن فوج کے ادارے پر تنقید برداشت نہیں۔ یہاں بلاول بھٹو زرداری نے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ علی وزیر کے خاندان میں کئی شہدا کی لاشیں اٹھائی گئی ہیں، وہ جذبات میں آ کر اگر کچھ غلط کہہ گئے ہیں تو آپ درگزر کریں، جس پر آرمی چیف نے کہا کہ وہ معافی مانگ لیں تو غور کیا جا سکتا ہے۔

اب بات بڑی واضح ہے کہ نواز شریف کا ذکر ایسے ہی راہ جاتے آ گیا۔ آرمی چیف نے بلکہ ایک وضاحت سی جاری کر دی کہ ذاتی تنقید کی حد تک بات اور ہے، لیکن یہاں ایک فرق ہے۔ تاکہ دوسری طرف سے یہ بات نہ آ سکے کہ نواز شریف نے بھی تو تنقید کی ہے، اس کے ساتھ تو ایسا سلوک روا نہیں رکھا گیا۔ اس پر ہیڈلائن میں بھی خیر کوئی ایسی معیوب بات نہیں تھی۔ بلکہ میں تو شاباش دوں گا کہ سب ایڈیٹر نے ایسے جملوں کو اٹھایا جنہیں دیکھ کر لوگ فوراً خبر پڑھنے کے لئے کلک کریں اور اس نے الفاظ کو توڑا یا مروڑا بھی نہیں۔

مگر جذباتی لیگی حضرات ایک طرف تو جنرل باجوہ سے ناراض ہونے لگے اور اوپر سے اپنی لیڈرشپ کو بھی برا بھلا کہتے رہے کہ اس بات سے آپ کے لیڈر کی توہین ہوئی۔ الٹا نواز شریف کا ایک پرانا کلپ بھی سوشل میڈیا پر گھومنے لگا جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ میں فوج کے جوانوں کو سلام پیش کرتا ہوں، مسئلہ صرف چند لوگوں کا ہے۔ نواز شریف نے ایسا کوئی کلپ جاری ہی نہیں کیا تھا کیونکہ ان کو تو کسی نے بتا ہی دیا ہوگا کہ اندر کیا بات ہوئی۔ مگر سوشل میڈیائی جنگجو ہیں کہ کسی صورت رام نہیں ہو رہے۔ یہ بریفنگ ایک خوش آئند اقدام تھا۔ بے شک اسے بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ شاید کئی سال پہلے۔ لیکن اب بھی اس کے مندرجات، اس میں اٹھائے جانے والے اور نمائندوں کے علم میں لائے جانے والے نقاط پر تو ضرور تنقید کی جا سکتی ہے لیکن ایک بات جس کا سارے فسانے میں ذکر ہی نہیں، وہ اتنی ناگوار نہیں گزرنی چاہیے۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.