ریپ کو ثابت کرنے کے لیئے متنازعہ دو انگلی ٹیسٹ پر پابندی کے فیصلہ میں عدالت نے کیا نکات اٹھائے؟

ریپ کو ثابت کرنے کے لیئے متنازعہ دو انگلی ٹیسٹ پر پابندی کے فیصلہ میں عدالت نے کیا نکات اٹھائے؟

اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں عورت ہونا ہی کسی معرکے کو سر کرنے سے کم نہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ جسے عمومی طور پر  عورتوں کی نارمل زندگی  کہا جاتا ہے وہ زندگی دراصل ابنارمل کے زمرے میں آتی ہے ۔ تاہم  کوئی عورت کسی جرم کا شکار ہوجائے تو پھر تو اس پر ایسی بیتتی ہے کہ عذاب اور مصیبتیں بھی کانوں کو ہاتھ لگا لیں۔


انہی جرائم میں سر فہرست ریپ کا جرم ہے۔  عمومی طور پر کسی کے ساتھ جرم ہو تو معاشرے کی ہمدردیاں اور مدد اس متاثرہ فریق کے ساتھ ہوتی ہے لیکن ریپ کے جرم میں متاثرہ خاتون یا تو شریک مجرم سمجھی جاتی ہے یا پھر اپنے کرتوتوں کا نعم پانے والی۔


اور اگر اسے کسی اور اذیت سے نا گزارا جائے اور سیدھا سیدھا انصاف کے حصول کے لیئے مروجہ اور قانونی راستے سے ہی گزارا جائےتو وہ بھی اس کے لیئے کئی شرمناک مقام اپنے میں رکھتا ہے کہ جس سے گزرے بغیر انصاف کے عمل کے آخر تک پہنچنا ہی مشکل ہے انصاف کی یقین دہانی تو شاید کسی پاکستانی کو نہ ہے۔


انہی میں سے ایک ریپ سے متاثرہ خواتین کا ٹو فنگر ٹیسٹ یعنی دو انگلی ٹیسٹ ہے۔








یہ ٹیسٹ ہے کیا؟




ریپ کے جرم کا شکار  ہر وہ خاتون جو نظام اںصاف کے سامنے اپنا مدعا رکھتی ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ طبی معائنہ کروائے۔ عمومی طور پر رائج میڈیکو لیگل معائنے کے صنفی  اصولوں کے مطابق وہ خاتون سرپرست کے ساتھ کسی خاتون میڈیکو لیگل سے معائنہ کروائے گی۔





 بی بی سی نے لکھا کہ اس معائنے کے مختلف طریقے ہوں گے جن کے ذریعے بنیادی طور پر یہ جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ کیا عورت کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا یا نہیں۔ طبی اور دیگر سائنسی طریقوں کے علاوہ ٹو فنگر ٹیسٹ اور ہائمن ٹیسٹ کے طریقے بھی معائنے کا حصہ تھے۔





اس ٹیسٹ میں ایک کمرے میں یا پردے کے پیچھے لیڈی ڈاکٹر متاثرہ خاتون کی وجائنہ میں دو انگلیاں داخل کرتی تھیں۔ اس کے بعد اپنے ذاتی مشاہدے کی بنا پر اسے رپورٹ میں تاثرات درج کرنے ہوتے تھے جن کی بنیاد اس بات پر ہوتی تھی کہ کیا لڑکی کی اندام نہانی میں دو انگلیوں کا دخول باآسانی ہوا یا نہیں۔




عدالتی فیصلے میں کیا کہا گیا؟


لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ٹو فنگر ٹیسٹ اور ہائمن ٹیسٹ جیسے طریقوں کی کوئی طبی یا سائنسی بنیاد نہیں، اس لیے جنسی تشدد کے واقعات میں ان کی کوئی فورینزک اہمیت نہیں ہے۔





عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ ’ان ٹیسٹس کا واحد مقصد یہ پتا لگانا ہوتا تھا کہ متاثرہ خاتون سیکس کرچکی تھی یا نہیں تاکہ اس کی طرف سے لگائے گئے ریپ اور جنسی تشدد کے الزامات یا بیان کی تصدیق کی جا سکے۔‘





تاہم عدالت کے مطابق ایسے واقعات کی تحقیقات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ سوال کہ وہ سیکس کر چکی تھی یا نہیں، کبھی بھی اس بات کا فیصلہ نہیں کرسکتا کہ کوئی خاتون ریپ ہوئی یا نہیں۔  عدالت نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا ملزم بتائے گئے وقت اور حالات میں متاثرہ خاتون کے ساتھ ریپ کا مرتکب ٹھہرا؟




لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ اگر متاثرہ خاتون کنواری ثابت نہیں ہوتی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے ساتھ جنسی زیادتی  نہیں ہوئی یا اس کے ساتھ جنسی تشدد نہیں ہوا۔





عدالت کے مطابق اس سے ہوتا یہ ہے کہ ملزم کے بجائے متاثرہ خاتون کا ٹرائل شروع ہو جاتا ہے اور تمام تر توجہ اس کے کنوارے ہونے یا نہ ہونے کی طرف چلی جاتی ہے۔





فیصلے میں مزید لکھا گیا کہ متاثرہ خاتون کی جنسی سرگرمی  ریپ کو ثابت کرنے کے معاملے میں قطعی طور غیر متعلقہ ہے اور نہ ہی جنسی تشدد کے کسی واقعے کا فیصلہ کنوار پن کے ٹیسٹ پر ہونا چاہیے۔