خوف اور امید کے بیچ: عمران خان سے شہباز شریف تک کچھ نہیں بدلا

خوف اور امید کے بیچ: عمران خان سے شہباز شریف تک کچھ نہیں بدلا
پاکستان کی سیاست ایک بار پھر سے ایک عجیب کشمکش اور غیر یقینی صورتحال کی منظر کشی کر رہی ہے۔ پچھلے سال سے عمران خان کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کی کوشش جس کیفیت میں شروع ہوئی تھی وہ حکومت جانے کے بعد بھی شاید جوں کی توں ہے۔

نومبر 2021ء سے تقریباً سیاسی منظر نامہ ایک واضح تصویر پیش کر رہا تھا کہ اب عمران خان کو دی ہوئی بیساکھیاں ان سے واپس کھینچی جا رہی ہیں اور ان کا جانا اب صرف وقت اور تیاریاں مکمل ہونے کی بات ہے۔ لیکن یہ عمل خوف اور امید کی کیفیت میں شروع ہوا جو اب تک اسی میں اٹکا ہوا لگ رہا ہے۔ تینوں فریقین اسٹیبلشمنٹ، پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کا اپنا اپنا خوف اور اس سے نکلنے کی امید تھی۔

اسٹیبلیشمنٹ، خصوصاً فوج اور عدلیہ کا امیج پہلی دفعہ عوامی سطح پر بری طرح متاثر ہوا کیونکہ اس دفعہ سیاسی انجنئیرنگ کرتے ہوئے ان دونوں اداروں نے مناسب احتیاط اور پردہ یا محفوظ فاصلہ رکھنے کی پرواہ کئے بغیر مسلم لیگ ن اور اس کی قیادت خصوصاً نواز شریف اور مریم نواز کو سیاست سے ہمیشہ کیلئے اٹھا کر باہر پھینکنے اور تحریک انصاف کو حکومت میں لانے کیلئے ہر حد پار کر دی۔ اس سیاسی انجیئنرنگ کے عمل میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے تو بالکل اعلیٰ عدلیہ کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا۔ جس طریقے سے پانامہ بنچ کو تشکیل دیا گیا اور بعد میں جس مستعدی سے اس کے کام کی نگرانی کرتا رہا۔ اس نے پورے نظام انصاف کے دامن پر انمٹ داغ چھوڑ دئیے۔

سونے پر سہاگہ والی بات یہ کہ اس سیاسی انجیئنرنگ کے نتیجہ میں بنایا ہوا سیاسی بندوبست اور اس کی کارکردگی خصوصاً معاشی بدحالی، خارجہ تعلقات بازیچہ اطفال سمجھنا اور اس کے نتیجے میں ملک کو مزید سفارتی تنہائی کے طرف دھکیلنے نے اسٹیبلشمنٹ کے خوف کو اور بڑھا دیا ہے۔

دوسری طرف میاں نواز شریف کے 2019ء کے آخر میں لندن جانے کے بعد اپوزیشن نے جارحانہ سیاسی انداز اپنایا۔ یہ وہ وقت تھا جب اسٹیبلشمنٹ نواز شریف اور مریم نواز شریف کو مزید جیل میں رکھنے کا سیاسی دباؤ برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ نیتجتاً نواز شریف کو ملک سے باہر بھیجنا پڑا لیکن ان پر دباؤ قائم رکھنے کیلئے مریم نواز کو باہر جانے کا اجازت نہیں دی گئی۔

باوجود اس کے ستمبر 2020ء تک اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل ایک سیاسی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ (پی ڈی ایم) کی تشکیل ممکن ہوئی۔ پی ڈی ایم کے پہلے اجلاس اور بعد میں گوجرانوالہ کے عوامی جلسہ میں نواز شریف نے جارحانہ انداز اپناتے ہوئے اس سیاسی انجیئنرنگ کے ذمہ داران کے واضح طور پر نام لئے، ان کی نشاندہی کی اور ساتھ ساتھ احتساب کا سامنا کرنے کی تنبیہ بھی دی۔

لینے کے دینے پڑنے کے مصادق، اسٹیبلشمنٹ کو اب اپنا پیدا کی ہوئی سیاسی دلدل سے نکلنے کا محفوظ راستہ چاہیے تھا، اور اس کے لئے ایک بار پھر اس نے ایک اعصابی کھیل کھیلا، جو فی الحال، کسی حد تک وہ اس میں کامیاب نظر آ رہی ہے۔

شاید، پی ڈی ایم اُس منظر سے خوف زدہ ہو کہ اگر عمران نومبر 2022ء تک وزیراعظم رہا تو وہ اپنا من پسند بندہ، جس نے 2018ء کے الیکشن اور بعد میں پارلیمان میں ان کے وزیراعظم بنے کیلئے اور قانون سازی کیلئے ضروری تعداد پوری کرنے کیلئے مسلسل ان کے اپنی جماعت اور اتحادیوں کے سر پر ڈنڈا رکھا ہوا تھا، کو سب سے طاقتور عہدہ پر تعینات کریگا اور نتیجتاً 2023 الیکشن کے نتائج بھی شفاف نہیں ہونگے۔ اور، اپوزیشن کے خیال میں، اگر عمران خان اس دفعہ اس قسم کے الیکشن کے نتیجہ میں اکثریت کے ساتھ واپس آیا تو وہ کھلم کھلا ایک سویلین ڈیکٹیٹر کا روپ دھار سکتا ہے۔

درست، کہ یہ ایک ممکنہ منظر تو ہو سکتا تھا لیکن پوری حقیقت نہیں، کیونکہ ذہن میں یہ سوال اب بھی اٹھتا ہے کہ اگر عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے اندر اور باہر ہر قسم کے اعانت اور معاونت کے باوجود کوئی کارکردگی نہیں دکھا سکا اور اپنے لانے والوں کیلئے دو سالوں میں ایک بھاری بوجھ بن گیا تو اگلی دفعہ کونسا تیر مار دیتا۔

لیکن ممکنہ طور پر، اپوزیشن کے اندر وہ عناصر جو کہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی مداخلت سے باز رکھنے کے لئے مشکل اور سخت سیاسی جدوجہد کے بجائے سہل راستہ اختیار کرنا چاہتے تھے کی رائے غالب ہوئی۔

اب تک صورتحال یہ معلوم ہوتی ہے کہ بار گراں پی ڈی ایم کے کندھوں پر لادا گیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ایک بار پھر سے اونچی جگہ پر کھڑی ہے۔ عمران نے جارحانہ انداز اپنایا ہے۔ اب وہ احتساب سے بچنے کیلئے پیشگی اقدامات کر رہے ہیں لیکن دفاعی نہیں، جارحانہ طور پر۔ مضحکہ خیز صورتحال یہ ہے کہ اب تک پی ٹی آئی کے بجائے حکومت کو جواب دینا پڑ رہا ہے۔

پی ڈی ایم کو تنے ہوئے رسے پر سے گزرنا پڑ رہا ہے، کیونکہ ایک طرف تو ان کو گرتی ہوئی معشیت کو سنبھالنا ہے اور دوسری طرف پارلیمان میں اپنی اکثریت کو بھی نظر میں رکھنا پڑ رہی ہے کیونکہ موجودہ حکومت کو صرف دو ووٹوں کے برتری حاصل ہے۔ مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ بعض اتحادی جیسا ایم کیو ایم اور بی اے پی کا ادھر سے اُدھر کرنا کسی طاقتور حلقے کے لئے ایک ٹیلیفون کال کی مار ہے۔

تاہم، اس کا یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ پی ڈی ایم آؤٹ آف انیشیٹیو ہو گی یا ان کے پاس اب کھیلنے کیلئے پتے باقی نہیں رہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ پی ڈی ایم کیسا کھیلتی ہے۔

سردست تو پی ڈی ایم کو عمران خان کی بچھائی ہوی بساط پر اسے ہرانا چاہیے۔ جیسا کہ وہ حکومت میں بھی تھا اور اپوزیشن میں بھی۔ اور اب اپنے ساری نااہلی اور بداعمالیوں کے جارحانہ انداز میں معصوم بھی بننے کی کوشش کر رہا ہے۔

اس کے جواب میں پی ڈی ایم کے پاس بہت اچھا آپشن ہے۔ شہباز شریف اچھا منتظم ہیں۔ وہ حکومت اور معشیت پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔ بلاول دفتر خارجہ اور سفارتکاری کو ایک نیا اعتماد اور کھویا ہوئی وقعت واپس دلا سکتے ہیں۔

سیاسی محاذ پر پی ڈی ایم کے پاس مریم نواز اور آصفہ بھٹو کی شکل میں توانا سیاسی رہنما ہیں جو اپنی اپنی پارٹی کے کارکنان اور عوام کو متحریک اور پی ٹی آئی کے غبارے سے ہوا نکال سکتے ہیں کیونکہ عمران جو ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے اس کا مقابلہ صرف حکمرانی، معاشی کارکردگی اور سچ بولنے سے نہیں ہو سکتا۔ اس کھیل میں سچ سے زیادہ جھوٹ بولنے والے کے جھوٹ کو باہر نکالنا اور آئینہ دکھانے کے ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ حکومت کو معاشی محاذ سے ہٹ کر کچھ ضروری اور اہم انتظامی اقدامات کرنا چاہیں، جو ناصرف اس کی جمہوری اور آئینی ساکھ کو ثابت اور مضبوط کریگی بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی لیول پر غیر جانبداری کے دعوئوں کو بھی جانچ سکے گی۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر جبری طور پر لاپتا کئے گئے افراد خصوصاً سیاسی اور انسانی حقوق کیلئے آواز اٹھانے والے کارکنان وصحافیوں کو بازیاب کرانے کیلئے اقدامات کرے۔ مزید براں، جو افراد اپنے سیاسی نظریات یا نقطہ نظر کی وجہ سے ملک چھوڑنے پر مجبور کئے گئے ہیں، ان کا تحفظ یقینی بنا کر واپس ملک آنے دیا جائے، اور اس سلسلے میں تمام مقدمات ختم کیا جائے جو جلا وطن اور ملک میں موجود سیاسی رہنماؤں، کارکنان اور صحافیوں کے خلاف درج کئے گئے ہیں۔

بلوچستان اور پختون بیلٹ، بمعہ خیبر پختونخوا، میں سیاسی نارملائیزشین کیلئے فوری اقدامات کرے جس میں سردست فوجی ونیم فوجی اداروں کے پولیس اور دوسرے سویلین نوعیت کے اختیارات کو ختم کرکے اعتماد سازی کیلئے راہ ہموار کرے۔ اس سلسلے میں حکومت فوری طور پر ایکشن ان ایڈ آف سیول پاور ریگولیشن کے خلاف پشاور ہائیکورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ سے اپنی اپیل واپس لے۔

اس کے علاوہ وہ ان تمام صحافیوں، میڈیا سے متعلق، جمہوریت اور آئین کی بالادستی کیلئے آواز اٹھانے والے افراد جو نوکریوں سے نکالے گئے تھے کو بحال کروائے۔ مزید یہ کہ تمام سٹیک ہولڈرز پر مشتمل ایک خود مختار میڈیا کمیشن بنایا جائے جو ناصرف صحافت کے نام پر پھیلا ہوا گند صاف کرے بلکہ آئندہ ایسے اقدامات کرے جس کی رو سے پیسے والے میڈیا کو کاروبار اور سیاسی طاقت حاصل کرنے کا ذریعہ نہ بنا سکیں۔ میڈیا ہاؤسز قائم کرنا اور اس میں کام کرنا سیاسی وابستگی کے بجائے خالصتاً پیشہ وارانہ مہارت اور صلاحیتوں پر مبنی بنایا جائے۔

پی ڈی ایم کی حکومت خوف، امید کی کشمکش اور دفاعی طرز عمل سے نکل کر بااعتماد ہو کر آئین، پارلیمان اور عوامی کی بالادستی کیلئے کھیلے جس میں ہار بھی جیت ہوتی ہے۔

طالعمند خان فری لانس صحافی ہیں اور نیا دور کے لئے لکھتے ہیں۔