'اسد قیصر، فواد چوہدری اور بشریٰ بی بی کی عمران مخالف پریس کانفرنسز متوقع ہیں'

چوہدری پرویز الہیٰ اور شاہ محمود قریشی کی جانب سے بھی اب کسی بھی دن سیاست سے تائب ہو کر گھر بیٹھنے کا اعلان یا پھر کسی دوسری پارٹی میں شمولیت کا اعلان کر دیا جائے گا۔ تاہم بشریٰ بی بی اور خاور مانیکا کی پریس کانفرنس عمران خان کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گی۔

07:05 PM, 6 Nov, 2023

نیا دور
Read more!

فواد چوہدری اور اسد قیصر کی گرفتاری سے ملک میں خاص صورت حال پیدا کی جا رہی ہے جس کا 8 فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات سے گہرا تعلق ہے۔ انتخابات سے قبل عمران خان کو 3 کیسز میں سزا ہو جائے گی۔ فواد چوہدری اور اسد قیصر بھی فرخ حبیب کی طرح چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے خلاف کلیئر اور خطرناک قسم کی پریس کانفرنس کریں گے جس سے عمران خان کے خلاف کیسز مزید مضبوط ہو جائیں گے۔ تاہم بشریٰ بی بی اور خاور مانیکا کی پریس کانفرنس عمران خان کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گی۔ یہ کہنا ہے سینیئر صحافی جاوید چوہدری کا۔

یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں سینیئر صحافی جاوید چوہدری نے بتایا کہ میری اطلاعات کے مطابق صرف اسد قیصر اور فواد چوہدری ہی نہیں بلکہ 7 اور لوگ ایسے ہیں جن کی جانب سے دھماکے دار پریس کانفرنس یا پھر کسی پروگرام میں انٹرویو آئندہ چند روز میں متوقع ہے۔ اس وقت جیل میں قید چوہدری پرویز الہیٰ اور شاہ محمود قریشی کی جانب سے بھی اب کسی بھی دن سیاست سے تائب ہو کر گھر بیٹھنے کا اعلان یا پھر کسی دوسری پارٹی میں شمولیت کا اعلان کر دیا جائے گا۔ تاہم بشریٰ بی بی اور خاور مانیکا کی پریس کانفرنس عمران خان کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گی۔ ملک بھر میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل عمران خان کو 3 کیسز میں یقینی طور پر سزا ہو جائے گی جن میں سائفر گمشدگی کیس، غیر شرعی نکاح کیس اور 190 ملین پاؤنڈ کیس شامل ہیں۔ علاوہ ازیں بشریٰ بی بی کو بھی سزا ہو جائے گی۔ جن لوگوں کو یہ لگتا تھا کہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے لیے فیورایبل حالات بن رہے ہیں ان کو اپنی غلط فہمی دور کر لینی چاہئیے۔

صحافی کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری اور اسد قیصر کی گرفتاری کے لیے چھوٹے چھوٹے کیسز بنائے گئے جبکہ ان پر 9 مئی کا کیس بنا کر بھی انہیں گرفتار کیا جا سکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا کیونکہ 9 مئی کے توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ جیسے بڑے کیس میں کسی شخص کی گرفتاری کے بعد ریاست کے لیے اس کی رہائی اور اس کو معاف کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اسی لیے فواد چوہدری کے خلاف نوکری دلوانے کے بدلے رشوت لینے اور پھر نوکری نہ دلوانے اور اسد قیصر کے خلاف ایک میڈیکل یونیورسٹی میں آلات کی خریداری میں کرپشن کا کیس بنایا گیا۔ ایسے چھوٹے کیسز میں تو کسی بھی وقت درخواست گزار اپنی درخواست واپس لے سکتا ہے جس کے بعد کیس ختم ہو جائے گا لیکن 9 مئی جیسے کیس میں ذمہ دار قرار دیے جانے کے بعد معافی مشکل ہو جاتی ہے۔

صحافی نے کہا کہ فواد چوہدری تو پہلے ہی پی ٹی آئی کو الوداع کہہ چکے لیکن استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت کے باوجود ان کا جھکاؤ پی ٹی آئی کی جانب ہی لگتا ہے۔ عمران خان فواد چوہدری کو کچھ خاص پسند نہیں کرتے تھے اور ان کے بارے میں یہی تاثر تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے آدمی ہیں۔ اس کے باوجود فواد چوہدری نے انتہائی مشکل وقت میں بھی عمران خان کا ساتھ دیا۔ ایک وقت آیا جب وہ عمران خان کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ بھی لے کر چلے۔ انہیں لگا کہ فوج کے اندر کوئی بہت بڑی تبدیلی آ رہی ہے لیکن ان کا حساب کتاب غلط ہو گیا جس کی وجہ سے وہ مار کھا گئے اور تاحال وہ اسی مار کی زد میں ہیں۔ فواد چوہدری کو گرفتار کیا گیا، پھر وہ رہا ہوئے۔ انہوں نے رہائی کے بعد سیاست سے تائب ہونے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت تو اختیار کر لی لیکن آئی پی پی کے کچھ ابتدائی اجلاسوں کے علاوہ وہ کسی اجلاس میں بھی شریک نہیں ہوئے اور جب جہانگیر ترین نے ان سے کہا کہ آپ جہلم میں پارٹی کا جلسہ کروائیں اور اس کے انتظامات کریں تو انہوں نے اس سے بھی انکار کر دیا۔

دوسری جانب اسد قیصر کا پہلے انتہائی غریب طبقے سے تعلق تھا لیکن پی ٹی آئی میں ان کی شمولیت کے بعد سے انہوں نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی اوراب وہ ارب پتی ہیں۔ اسد قیصر نے مولانا فضل الرحمان کے ساتھ رابطے شروع کر دیے اور وہ چاہتے تھے کہ جماعت اسلامی کے ساتھ کوئی مفاہمتی گروپ بن جائے لیکن عمران خان کی جانب سے ناراضگی کا اظہار کیا گیا جس کے بعد انہوں نے جماعت اسلامی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطے شروع کر دیے۔

صحافی نے مزید کہا کہ جب دونوں رہنماؤں کی وفاداریاں کلیئر نہیں ہوئیں اور یہ تاثر پایا گیا کہ جب بھی عمران خان اور پی ٹی آئی کے حالات بہتر ہوئے تو فواد چوہدری بھی واپس پی ٹی آئی سے جا ملیں گے تو فیصلہ کیا گیا کہ اب فواد چوہدری اور اسد قیصر بھی فرخ حبیب کی طرح چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے خلاف کلیئر اور خطرناک قسم کی پریس کانفرنس کریں گے تو ہی ان کو رہا کیا جائے گا ورنہ وہ بھی اپنے لیڈر کی طرح جیل میں قید رہیں گے اور ان کی رہائی عمران خان کے ساتھ ہی ہو گی۔ لیکن قوی امکان ہے کہ ان کی جانب سے بھی عمران خان کے خلاف بہت خطرناک بیانات سامنے آئیں گے جس کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی کے لیے مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔

مزیدخبریں