جنرل پرویز مشرف کا اقتدار پر قبضہ
پاکستان میں اس فوجی ڈکٹیٹر کو اس وقت 'چیف ایگزیکٹیو' کا نام دیا گیا۔ پاکستان کے عوام کو اب اس نئے قسم کے فوجی حکمران سے پالا پڑا تھا۔ کتے بغل میں دابے، سکاچ وہسکی پینے والے اور سگریٹ ہونٹوں کے ایک کونے میں دانت تلے دبائے ہوئے فوجی جنرل کی وردی میں تصاویر ان کی سگنیچر تصاویر تھیں۔ بقول شخصے بس کمر پہ ایک پستول باندھنے کی کسر باقی رہ گئی تھی۔ ملک تب اپنی 52 سالہ تاریخ کا ایک بڑا حصہ فوجی یا نیم فوجی حکومتوں کے زیر سایہ گزارنے کے بعد اب اکیسویں صدی میں بھی فوجی ڈکٹیٹرشپ کے تلے نئے دور میں داخل ہو چکا تھا۔
جنرل پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضے کے چوبیس گھنٹوں سے بھی کم عرصے میں سب سے پہلا ہدف اس وقت کے چیف جسٹس اجمل میاں تھے جب مشرف دور کی پہلی صبح کو ایک کرنل ان کی رہائش گاہ پر پہنچا اور ان کو بزور پستول عدالت پہنچنے سے منع کر دیا۔
کارگل کی ناکام مہم جوئی اور نواز شریف کے ساتھ مخاصمت
ظاہر ہے کہ پاکستان میں یہ نیا جرنیلی ٹولہ پرویز مشرف کی سربراہی میں کوئی فضا میں اغوا شدہ طیارے سے ایک دن میں اچانک نہیں پہنچا تھا اور نہ ہی کراچی کے اس وقت کے کور کمانڈر جنرل مظفر عثمانی 12 اکتوبر 1999 کی اس شام ٹینس کھیل رہے تھے کہ ان کو اچانک پتہ چلا کہ ان کا باس ہوا میں معلق ہے جیسے کہ یہ سنسنی خیز ڈرامہ گھڑا گیا تھا۔ اور پھر نہ ہی نواز شریف کو کسی نجومی نے بتایا تھا کہ 12 اکتوبر 1999 کو ان کی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا جب خاتمہ اس تاریخ کو نہیں ہوا تو نواز شریف نے اپنے اس آرمی چیف کو برطرف کر دیا۔ بلکہ پاکستان میں اس فوجی بغاوت کی تیاری کئی ماہ پہلے شروع ہو گئی تھی۔ غالباً کارگل کی ناکام مہم جوئی کے بعد یہ ایک نئی لیکن 'کامیاب مہم جوئی' ثابت ہوئی۔
جیسا کہ ہر ڈکٹیٹر کی یہ ظاہری لیپا پوتی ہوتی ہے کہ 'ٹرینیں وقت پر'، 'احتساب' اور 'بجلی اور گیس کے بلوں کی ادائیگی' وغیرہ تو جنرل مشرف کے فوجی راج کے بھی اولین ڈرامائی دن اسی طرح شروع ہوئے تھے۔ لیکن جنرل مشرف کی کابینہ میں عمر اصغر خان اور زبیدہ جلال جیسی شخصیات کی ڈرامائی انٹری پر ان کے کئی بہی خواہوں کو حیرت ضرور ہوئی تھی۔ دانیال عزیز اور جاوید جبار پر تو کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ جنرل امجد کو انہوں نے 'قومی احتساب کمیشن' کا سربراہ بنایا تھا۔
رانا ثناء اللہ پر تشدد
نواز شریف کے بعد اس کے نشانے پہ رانا ثناء اللہ تھے جو اب خود جنرل مشرف کے نقش قدم پر چل نکلے ہیں۔ ان کو جنرل مشرف یا فوج کے اقتدار پر قبضہ کرنے کی سخت لفظوں میں مذمت کرنے پر سخت تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس میں ان کو 20 کوڑے بھی مارے گئے تھے۔
'میری آنکھوں پر پٹی بندھی تھی۔ ڈاکٹر نے نبض دیکھی اور پھر کسی اہلکار نے حکم دیا؛ پانچ پانچ کے چار راؤنڈ میں۔ شاید یہ لاہور کینٹ کا علاقہ تھا'۔ رانا ثناء اللہ نے یہ سب کچھ تب مجھے بذریعہ ٹیلی فون بتایا تھا جب میں پرویز مشرف کی فوجی بغاوت کا ایک سال مکمل ہونے پر پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال پر نیویارک میں ہیومن رائٹس واچ کے لئے تحقیق کر رہا تھا۔
ہوا یہ تھا کہ پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے فوری بعد نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ کے پارلیمانی بورڈ کا اجلاس تب ان کی پارٹی کے سپیکر چودھری پرویز الہیٰ کی رہائش گاہ پر ہوا تھا جس میں رانا ثناء اللہ نے تقریر کی تھی اور کہا تھا کہ 'کیا فوج نے اس ملک کو سائیکل سمجھ رکھا ہے کہ جب چاہا اس پر سواری کر لی اور جب چاہا نیچے اتر گئے'۔ رانا ثناء اللہ کے خلاف اس کے بعد ایف آئی آر کاٹی گئی تھی اور ان کا بیان اسی طرح ہی درج ہے۔ باقی سب تاریخ کا حصہ ہے۔ تھانہ قلعہ گجر سنگھ سے 'نامعلوم مقام' پر کوڑے لگنے تک کا سفر۔ اس وقت بعض مسلم لیگیوں نے مجھے یہ بھی غیر مصدقہ طور پر بتایا تھا کہ رانا ثناء اللہ پر جنسی تشدد بھی کیا گیا تھا۔
جبری گمشدگیوں کے سرخیل
جنرل مشرف جو ملک میں اپنے ہی شہریوں اور سیاسی منحرفین کی جبری گمشدگیوں کا موجد یا سرغنہ تھا اس کا پہلا نشانہ نواز شریف کی کابینہ کے ہی اراکین اور پارٹی کے ساتھی تھے جن میں مشاہد حسین، چودھری نثار، صدیق الفاروق اور ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے اس وقت کے سربراہ حسین حقانی شامل تھے۔ مسلم لیگ نواز شریف کے علاوہ جو لوگ ان کی حکومت کے جبر کا شکار ہوئے ان میں ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار، پاکستان پیپلز پارٹی کے ایم این اے بھگوان داس، ڈہرکی ہندو پنچایت کے مکھی ناموں مل، جیے سندھ قومی محاذ کے آکاش ملاح اور منصور مری ان لاتعداد لوگوں میں سے فقط چند ایک نام ہیں۔
جنرل مشرف کے اقتدار کے شروعاتی دنوں میں ان کی 'شہرت اور مقبولیت' کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جب وہ ان دنوں نیویارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے گئے تو جنرل اسمبلی میں شرکت کرنے والے ملکی سربراہان کے گروپ فوٹو میں وہ تیسری قطار سے بھی بہت پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں۔
فروری 2000 میں امریکی صدر بل کلنٹن برصغیر پاک و ہند کے دورے پر آئے لیکن انہوں نے اسلام آباد میں فقط چند ہی گھنٹے گزارے۔ اس میں بھی انہوں نے فوجی صدر پرویز مشرف سے ملاقات سے اجتناب برتا۔ انہوں نے صرف اس صورت میں پاکستان کا دورہ کیا جب ان سے پہلے ان کی ایڈوائس ٹیم پاکستان پہنچی اور نواز شریف کابینہ کے اراکین مشاہد حسین، چودھری نثار اور ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار کو رہا کیا گیا۔
دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ
میں سوچ رہا ہوں کہ امریکی صدر جارج بش اور پرویز مشرف کیا بیچ رہے ہوتے اگر 2001 میں بدقسمتی سے نیویارک اور واشنگٹن پر دہشت گردانہ حملے نہ ہوتے۔ 'ان کے ساتھ ہو یا ہمارے ساتھ؟' کی دھمکی پر بہرحال پرویز مشرف کی جانب سے امریکہ کا ساتھ دینے کی حامی بھرنے کے بعد ان کے ناجائز اقتدار کو گویا لیز آن لائف یا طوالت مل گئی۔ اب مشرف مغرب اور امریکہ کی ڈارلنگ بن چکا تھا اور ڈبل رول کھیل رہا تھا۔ یعنی اندرون خانہ ایک تھانیدار اور مغرب اور امریکہ کے سامنے ایک لبرل اور زبردست اتحادی۔ اور یہ بھی کیسے ہو سکتا ہے کہ اسامہ بن لادن ان کی ناک کے نیچے ایبٹ آباد میں چھپا ہوا تھا اور ان کو پتہ نہیں تھا۔
جرمن محقق و مصنف ہئین کوئیسلنگ نے آئی ایس آئی پر اپنی کتاب 'فیتھ، یونیٹی اینڈ ڈسپلن' میں لکھا ہے کہ اسامہ بن لادن کی میزبانی کے لئے جنرل مشرف کی سربراہی میں ایک تین رکنی کمیٹی قائم کی گئی تھی۔ بس ان تینوں کو ہی پتہ تھا کہ اسامہ بن لادن کہاں چھپا ہے۔ کئی لوگ کہتے ہیں کہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ اس معاملے کے انچارج تھے۔ انٹرنیشنل لیکچر سرکٹ اور کتاب 'ان دی لائن آف فائر' والے جنرل پرویز مشرف کے اس ڈبل رول کا امریکہ اور مغرب کو پتہ بڑی دیر سے لگا۔
In the Line of Fire
پرویز مشرف سے منسوب کتاب 'ان دی لائن آف فائر' جو کہتے ہیں کہ اس کے گھوسٹ رائٹر ہمایوں گوہر تھے۔ اس کتاب میں جنرل مشرف لکھتے ہیں کہ انہوں نے جوانی کے دنوں میں ناظم آباد میں دادا گیروں کی ایک گینگ بنا رکھی تھی۔ یہ بھی کہ ایک مرتبہ وہ فوج سے بغیر درخواست کے چھٹی پر چلے گئے اور اس پر ان کا کورٹ مارشل ہونا تھا کہ 1965 کی پاک بھارت جنگ چھڑ گئی اور ان کو محاذ پر بھیج دیا گیا۔ پینسٹھ کی جنگ میں ان کی کارگردگی پر ان کا کورٹ مارشل معاف کر دیا گیا۔ میں سوچ رہا ہوں کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر پینسٹھ کی جنگ نہ لگتی اور پاکستان کے عوام ایک اور فوجی ڈکٹیٹر کے عتاب سے محفوظ رہ جاتے۔ نیز انہوں نے اپنی اس کتاب میں یہ بھی کہا ہے کہ ان کی ایک محبوبہ مشرقی پاکستان میں تھی جس سے ان کا افیئر ناکام ہو گیا تھا۔ مشرقی پاکستان میں جنگ کو وہ اپنی بنگالی محبوبہ سے انتقام سمجھتے تھے۔
امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے ساتھ یارانہ
صدر جارج ڈبلیو بش بھی مشرف سے منسوب اس کتاب کے ایک طرح سے پروموٹر تھے۔ پرویز مشرف کے امریکی دورے کے دوران انہوں نے وائیٹ ہاؤس میں مشترکہ پریس کانفرنس میں جنرل پرویز مشرف کی کتاب خریدنے کو کہا تھا۔
صدر بش نے ان کو گرمیوں میں 'کیمپ ڈیوڈ' میں بھی مدعو کیا تھا۔ یہ شاید پہلے پاکستانی سربراہ تھے جن کو امریکی صدر نے کیمپ ڈیوڈ میں مدعو کیا تھا۔ اسرائیل کے وزیر اعظم ایریل شیرون نے بھی ان کی درازی عمر کیلئے دعا کی تھی۔ مشاہد حسین نے 'القاعدہ' کو پرویز مشرف کیلئے 'الفائدہ' ثابت ہونے سے تعبیر کیا تھا۔ پھر وہی مشاہد حسین ان کی کابینہ کا حصہ بھی بن گئے۔
مشرف لیگ اور مُلّا ملٹری الائنس
مشرف نے 2001 میں ملک میں نام نہاد عام انتخابات منعقد کروائے جن میں بینظیر بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ دونوں شامل نہیں تھیں۔ یہ انتخابات جنرل احتشام ضمیر کی سرکردگی میں انجینیئرڈ انتخابات تھے جن کی بنیاد پر پرویز مشرف نے بعد میں اس وقت کی سپریم کورٹ (اسی چودھری افتخار کی سربراہی میں) اور اسمبلیوں کے اندر دائیں بازو کے اتحاد ایم ایم اے کی حمایت سے خود کو پانچ سال کیلئے باوردی صدر چنوا لیا تھا۔ ایم ایم اے کو ناقدین ازراہ تفنّن 'مُلّا ملٹری الائنس' بھی کہا کرتے تھے۔
اس سے قبل نواز شریف کے خاندان کے تقریباً تمام مردوں کو جیل میں جبکہ نواز شریف کو اٹک قلعے میں قید کر دیا گیا۔ پھر ان کے خلاف ہائی جیکنگ کا مقدمہ اور سزا اور اس کے بعد بل کلنٹن اور سعودی عرب کی مداخلت پر راتوں رات اہلخانہ اور ملازمین کے ساتھ ان کی سعودی عرب 'جلا وطنی'۔ یہ تو نواز شریف کے بھاگ بھلے تھے کہ ان کا مقدمہ لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے انتہائی منصف مزاج جج کے پاس گیا جنہوں نے اسے سزائے قید سنائی جبکہ پرویز مشرف نے تو ان کو سزائے موت دلوانے کی ٹھانی ہوئی تھی۔ شاید یہ فرق ہے لاہور اور لاڑکانہ کے جج میں۔
پاکستان آرمی کی آرمرڈ کور سے تعلق رکھنے والے یہ کمانڈو صدر ایک ایسے کمانڈو تھے جو اپنے ہی گھر کی گھات لگائے ہوئے تھے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں ان کے حکم پر جبری گمشدگیوں کا ایک ایسا کریہہ سلسلہ شروع ہوا جو آج تک نان سٹاپ جاری ہے۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں جبری گمشدگیوں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ تفتیش کار ان لوگوں سے معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں، پھر اس کیلئے وہ کون سی ڈرل مشین استعمال کرتے ہیں ان کا اس سے کوئی سروکار نہیں۔
کتے پالنا، رقص و موسیقی سے لگاؤ رکھنا، ٹھرک بازی اور شراب نوشی جیسی عادتوں سے قطع نظر انہیں تاریخ کوئی اچھا حکمران نہیں لکھے گی۔ کاکول ملٹری اکیڈمی جانے سے قبل انہوں نے ابتدائی تعلیم کراچی کے سینٹ پیٹرکس سکول سے حاصل کی اور پھر کچھ دیر گورنمنٹ کالج میں بھی زیرتعلیم رہے۔
بلوچوں کے 'صدام حسین'
وہ جنوبی ایشیا میں بلوچوں کیلئے صدام حسین تھے۔ جس طرح کا سلوک عراق میں اصلی صدام حسین نے کردوں کے ساتھ روا رکھا تھا وہی مشرف نے پاکستان میں بلوچوں کے ساتھ روا رکھا۔ جو ہتھیار دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اسامہ بن لادن اور ایمن الزواہری کی کھوج پر استعمال ہونے چاہئیں تھے، ان سے مشرف نے اکبر بگٹی جیسے بلوچ رہنما سمیت بے شمار بلوچ قتل کروائے۔ 'یہ 1970 نہیں۔ ان کو میں ایسے ہٹ کروں گا کہ ان کو پتہ بھی نہیں چلے گا'۔ اس نے بلوچ رہنماؤں کو دھمکی دی تھی۔ گویا وہ ایک پیشہ ور فوج کے سربراہ کی طرح نہیں، ایک وار لارڈ کی طرح ایکٹ کرتے تھے اور فوج کو قبیلہ اور خود کو اس کا سردار سمجھتے تھے۔
ڈاکٹر شازیہ خالد، مختاراں مائی ریپ کیسز اور جعلی روشن خیالی
انہوں نے سوئی گیس کالونی میں ڈاکٹر شازیہ خالد کے ریپ کیس میں مبینہ طور پر مشتبہ کیپٹن حماد کو کسی بھی طرح کی عدالتی تحقیقات شروع ہونے سے قبل ہی بے گناہ قرار دے دیا تھا۔ گویا خود ہی جج اور خود ہی جیوری تھے۔ مختاراں مائی کا نام ای سی ایل میں ڈال کر ان کے بیرون ملک سفر کرنے پر پابندی عائد کر دی اور خود امریکہ کے دورے کے دوران جنرل پرویز مشرف نے 'واشنگٹن پوسٹ' کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا؛ 'پاکستان میں عورتیں خود سے ریپ کرواتی ہیں تاکہ کینیڈا کا ویزہ حاصل کر سکیں'۔ ان کے اس بیان پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے سخت مذمت کی گئی اور شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔ نیویارک میں جنرل مشرف کے روزویلٹ ہوٹل میں ایک اجتماع کے دوران ڈاکٹر آمنہ بٹر کی سربراہی میں خواتین نے مشرف کے سامنے زبردست احتجاج کیا تھا اور ان خواتین اور مشرف کے مابین تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا تھا۔
چیف جسٹس افتخار چودھری کی برطرفی
اس ٹن پاٹ ڈکٹیٹر کے ستارے اس وقت گردش میں آ گئے جب انہوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چودھری کو ایوان صدر بلا کر ان سے استعفی مانگا اور انکار پر ان کو معطل کر دیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی ملک کے فوجی صدر اور اس کے جرنیلی ٹولے کے سامنے بڑی 'نا' پر ملک میں وکلا تحریک شروع ہو گئی۔ چیف جسٹس اور وکلا سڑکوں پر تھے اور ان کی حمایت میں یہ ایک ملک گیر پاپولر عوامی تحریک میں بدل گئی۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی اکثریت بھی چیف جسٹس کے حق میں وکلا تحریک میں شامل ہو گئی۔ اس تحریک نے اس جنرل مشرف کو دہلا کر رکھ۔ دیا جو کہتا تھا کہ میں کسی سے ڈرنے ورنے والا نہیں ہوں۔
اب یہ طاقتور کمانڈو صدر تنہا ہوتا چلا گیا اور بین الاقوامی رائے عامہ بھی تیزی سے اس کے خلاف ہموار ہوتی چلی گئی۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اس تحریک کے دوران جنرل مشرف کے خلاف درجن بھر سے زیادہ اداریے لکھے جبکہ اخبار 'لاس اینجلس ٹائمز' نے فوجی آمر پرویز مشرف کو 'پاکستان کا پنوشے' قرار دیا۔
کچھ باخبر حلقے بتاتے ہیں کہ وکلا تحریک کو اس وقت کے آئی ایس آئی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی پشت پناہی حاصل تھی۔
کراچی میں 12 مئی 2007 کو ایم کیو ایم کی طرف سے ہونے والی دہشت گردی کو اسلام باد کے جلسے میں اسی دن اس فوجی صدر پرویز مشرف نے 'عوامی طاقت کا مظاہرہ' قرار دیا تھا۔
بینظیر بھٹو کے ساتھ دبئی میں مذاکرات
بہرحال بقول شخصے صدر بش اور اس کے کتے 'بڈی' کے علاوہ امریکہ میں کوئی پرویز مشرف کے ساتھ نہیں رہا تھا۔ تو ایسے میں بش انتظامیہ اور برطانوی حکومت کی پس پردہ ثالثی میں پرویز مشرف اور بینظیر بھٹو کے درمیان مذاکرات ہوئے جس کے ضمانتی یہ دونوں ممالک تھے۔
پہلی مرتبہ بینظیر بھٹو اور پرویز مشرف ابوظہبی کے حکمران کے محل میں مل رہے تھے۔ اس ملاقات کا احوال بینظیر بھٹو نے اپنے دوست اور صحافی شیام بھاٹیا کو ایک طویل انٹرویو میں بتایا تھا جو بینظیر بھٹو کی 'گڈ بائے شہزادی' کے عنوان سے سوانح عمری میں کتابی صورت میں موجود ہے۔
بھٹو عظیم لیڈر تھے
اس ملاقات میں ایک مرحلے پر پرویز مشرف روہانسے ہو گئے تھے اور کہا تھا کہ بھٹو بہت عظیم لیڈر تھے۔ وہ پرویز مشرف جو کہتا تھا کہ اگر اسے کبھی موقع ملا تو وہ بھٹو خاندان کے ہر فرد کو ختم کرے گا۔ ہوا یہ تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دنوں میں جکارتہ (انڈونیشا) کے سفارت خانے میں ان دنوں پرویز مشرف کے والد سید مشرف الدین تعینات تھے اور وہ مرسیڈیز کاروں کی خریداری کے گھپلے میں برطرف کر دیے گئے تھے۔ جنرل مشرف اپنے والد کی برطرفی کی وجہ سے بھٹو خاندان کے سخت مخالف تھے۔
ملاقات میں بینظیر بھٹو اور پرویز مشرف کے ساتھ آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی موجود تھے اور تینوں کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں این آر او ہوا تھا۔ وہ پرویز مشرف جو کہتا تھا وردی ان کی کھال ہے اور وہ کھال نہیں اتاریں گے۔ اس پر نیویارک میں مقیم اردو شاعر، صحافی اور میرے دوست اشرف قریشی نے ایک نظم لکھی تھی:
جب خلق خدا کے ہاتھوں سے اک حشر بپا ہو جائے گا
جمہور کے رِستے زخموں سے اب فال نکالی جائے گی
تب تخت اچھالے جاتے تھے تب تاج گرائے جاتے تھے
اب لش پش وردی اترے گی اب کھال اتاری جائے گی
ہاں البتہ دانیال عزیز کی سربراہی میں عدم مرکزیت اور ناظمی نظام کا قیام، مخلوط طرز انتخابات اور اس وقت کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کے کشمیر کے معاملے پر منموہن سنگھ حکومت سے بیک ڈور ڈپلومیسی جسے ان دنوں 'ہوٹل ڈپلومیسی' بھی کہا گیا، اس دور حکومت کے احسن اقدامات تھے۔
پرویز مشرف پر دو بڑے قاتلانہ حملے بھی ہوئے جن میں وہ بال بال بچ گئے۔
عدالتی فیصلے میں سزائے موت سنائی گئی
ایمرجنسی کا نفاذ ان کا نہیں بلکہ ان کے تمام غیر سول اور سول ٹولے کا فیصلہ تھا مگر سزا صرف ان کو ملی۔ انہیں سزا ضرور ملنی چاہئیے تھی لیکن سزائے موت بہرحال میری نظر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی تھی۔ ڈکٹیٹر کے بھی انسانی حقوق ہوتے ہیں اور پھر یہ بھی کہ مرنے کے بعد بھی ان کی لاش کو پھانسی دی جائے یہ غیر ضروری فیصلہ تھا۔ لیکن قانون و انصاف کے ساتھ ان کا واسطہ بس ان کیلئے 'ریوالونگ ڈور' سے گزر کر آنے جتنا تھا۔ نہ گرفتاری، نہ نظربندی اور پھر 'جلاوطنی'۔
محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت
بینظیر بھٹو جیسی لیڈر کا قتل ان کی حکومت میں ہوا۔ بینظیر کہتی رہ گئی کہ خطوط لکھنے کے باوجود مشرف حکومت کی جانب سے انہیں سکیورٹی نہیں فراہم کی جا رہی اور پھر بینظیر بھٹو پر کراچی میں خود کش حملہ ہوا اور اس سے قبل سندھ کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ کے بیانات اور راولپنڈی میں ایک کوریوگرافک انداز میں ان کا قتل اور ان کے قتل کے بعد چند گھنٹوں میں قتل کی سرزمین واردات کو دھو ڈالنا جیسے اقدامات پرویز مشرف کی 'قتل سے لاتعلقی' پر کئی سوال اٹھاتے ہیں جن کے جوابات شاید کبھی نہ مل سکیں۔ اب جبکہ وہ اس دنیا میں نہیں رہے اس پر میں تو بس عظیم پنجابی صوفی شاعر میاں محمد بخش کا شعر ہی کہہ سکتا ہوں:
دشمن مرے تے خوشی نہ کریے سجناں وی مر جانا
ڈیگر تے دن ہویا محمد اوڑک نوں ڈُب جانا