وزیراعظم صاحب! منی ٹریل تو بنتی ہے

وزیراعظم صاحب! منی ٹریل تو بنتی ہے
پاکستانی سیاست میں تحریک انصاف کے سربراہ اور موجودہ وزیراعظم جناب عمران خان صاحب پچھلے کٸی برسوں سے پاکستانی سیاست دانوں کی کرپشن، منی لانڈرنگ، بے نامی جاٸیدادوں اور بیرون ملک جاٸیدادوں کے خلاف بیانیہ لیے میدان میں ہیں اور اسی بیانیے کو عوام تک پہنچا کر انہیں اپنے حق میں ووٹ ڈالنے پر مجبور کر کے اب وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہیں۔ یوں تو عمران خان پانامہ سکینڈل آنے سے پہلے ہی اپنے بیانیے کو عوام میں پذیراٸی دلوا چکے تھے لیکن پانامہ سکینڈل آنے سے عوام میں یہ تاثر گیا کہ جیسے کوٸی آسمانی صحیفہ عمران خان کی سچاٸی ثابت کرنے نازل ہوا ہو اور پھر اس کے بعد سپریم کورٹ نے جب اپنے فیصلے سے نواز شریف کو نااہل کیا تو عمران خان کسی فاتح کی طرح میدان میں اکیلے ہی الیکشن لڑتے دکھاٸی دیے۔ اخلاقی اعتبار سے کوٸی وجہ ہی نہیں تھی عوام کے سامنے کہ وہ عمران خان کو ووٹ نہ دیں۔



خبر پڑھیے: سپریم کورٹ کا علیمہ خان کو 2 کروڑ 94 لاکھ روپے جرمانہ جمع کروانے کا حکم







دوسری طرف ن لیگ نے اور کچھ دوسرے مخالفین نے عمران خان کو بھی بنی گالہ اور سیتا واٸٹ کیس میں پھنسانے کی کوشش کی لیکن عمران خان بال بال بچ نکلے اور عدالت سے صادق اور امین قرار پائے لیکن اب ایک اور سکینڈل سامنے آیا ہے جس میں الزام ہے کہ علیمہ خان نے دبٸی میں جاٸیدادیں بنا رکھی ہیں اور نیب میں علیمہ خان نے ان جاٸیدادوں کی ملکیت تسلیم کرتے ہوئے جرمانہ بھی ادا کیا ہے۔ مخالفین اس جرمانے کو این آر او سے تشبیہہ دے رہے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس معاملے پر بھی منی ٹریل معلوم کرنے کے لئے اسی طرح کی جی آٸی ٹی بننی چاہیے جس طرح نواز شریف کے کیس میں بنی۔ سابق وزیراعظم نواز شریف بھی یہی مطالبہ کر چکے ہیں کہ علیمہ خان کی جاٸیدادوں کی بھی اسی طرح تحقیقات ہونی چاہئیں جس طرح میرے خلاف کی گٸی تحریک انصاف اور عمران خان کے حامی کہتے ہیں کہ چونکہ عمران خان نے وزیراعظم بننے سے پہلے کوٸی عوامی عہدہ نہیں رکھا اور یہ علیمہ خان کی اپنی جاٸیدادیں ہیں جو کہ عمران خان کے وزیراعظم بننے سے پہلے کی ہیں لہٰذا پانامہ طرز کی جے آٸی ٹی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔



یاد رہے کہ نواز شریف بھی اسی قسم کے دلاٸل دیتے رہے ہیں کہ 80 کی دہاٸی سے قبل میں نے اور میری فیملی کے کسی فرد نے کبھی کوٸی عوامی عہدہ نہیں رکھا اور میری فیملی کے پاس سیاست میں آنے سے قبل ہی کاروبار اور جاٸیدادیں ملک میں اور بیرون ملک موجود تھی جن کی تقسیم بعد میں ہوٸی جو کہ دادا سے پوتوں کو منتقل ہوٸی لہٰذا ان جاٸیدادوں کی پوچھ گچھ مجھ سے نہیں کی جا سکتی لیکن عدالت نے پھر بھی جے آٸی ٹی بنواٸی اور مکمل تحقیقات کرواٸی گئی۔ اس معاملے میں غالباً عدالت کا استدلال یہ تھا کہ چونکہ نواز شریف کے پاس کٸی بار عوامی عہدہ رہا اور ان کے پاس کرپشن کے بے شمار مواقع تھے اس لئے انہیں اپنے خاندان کی تمام جاٸیدادوں کی منی ٹریل پیش کر کے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ جاٸیدادیں ان کے عوامی عہدہ رکھنے سے پہلے کی ہیں اور کرپشن سے نہیں بنائی گئیں۔ اس لئے اب ن لیگ کا یہ مطالبہ ہے کہ علیمہ خان کے معاملے میں بھی مکمل تحقیقات ہونی چاہئیں۔

29 نومبر کو احتساب عدالت میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ نیب ن لیگ کی جائیداد کی چھان بین کرتا رہتا ہے۔ علیمہ خان کی جائیداد کی بھی کرے یہ کس کے پیسے سے جائیداد بنائی گئی۔ علیمہ خان کے ذرائع آمدن نہیں، اربوں کی جائیداد کیسے خرید لی؟ علیمہ خان کی جائیداد کا منی ٹریل کیا ہے، قوم جاننا چاہتی ہے۔ یہ پیسہ کہاں سے آیا، کس نے دیا؟ سابق وزیراعظم نے سوال اٹھایا کہ وزیراعظم کی بہن علیمہ خان نے دبئی میں اربوں روپے کی جائیداد کیسے بنائی۔ کیا یہ این آر او نہیں ہے؟ سابق وزیراعظم نے سوال کیا کہ عمران خان کے اثاثے کہاں سے آئے؟ دبئی کے گھر کی کیا کہانی ہے؟ یہ بھی سب کے سامنے آنی چاہیے۔ نوازشریف نے کہا کہ میں نے گالی گلوچ اور الزامات کی سیاست کبھی نہیں کی لیکن مجبوراً پوچھ رہا ہوں کہ علیمہ خان کی دبئی پراپرٹی کیسے بنائی گئی؟ میں ایک کرب میں مبتلا ہوں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی آج ایک لمبے عرصے بعد سیاسی بیان دے رہا ہوں۔ اتفاق فاؤنڈری تو 50 کی دہائی میں زرعی آلات بنا رہی تھی اور 60 کی دہائی میں آلات برآمد کرتی تھی۔ ان سب باتوں کے کئی گواہ بھی موجود ہیں۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے والد کے کہنے پر 1967 میں عراق، ایران اور سعودی عرب کا دورہ کیا۔ 1962 میں لاہور کی پہلی امریکن شیورلے گاڑی ان کے والد نے خریدی تھی جبکہ لاہور کی پہلی سپورٹس کنورٹ ایبل مرسڈیز کار ان کے لئے منگوائی گئی تھی۔

اب اگر دیکھا جائے تو نواز شریف کی باتوں میں وزن ہے۔ ان کی فیملی سیاست میں آنے سے قبل ہی کاروبار کرتی تھی لیکن عمران خان کا یہ کہنا کہ مجھ سے علیمہ خان کی جاٸیدادوں کی تحقیقات اس لئے نہیں ہو سکتیں کیونکہ میں نے وزیراعظم بننے سے قبل کبھی کوٸی عوامی عہدہ نہیں رکھا۔ بظاہر ان کا یہ دعویٰ درست لگتا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو ان کا یہ دعویٰ بے وزن یوں ہے کیونکہ عمران خان ایک عرصہ پاکستان کرکٹ ٹیم کا حصہ رہے ہیں اور جو لوگ کرکٹ سے دلچسپی رکھتے ہیں انہیں میچ فکسنگ اور سپاٹ فکسنگ کا بھی علم ہوگا اور لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ میچ فکسنگ اور سپاٹ فکسنگ ملک کو بیچنےکے مترادف تصور ہوتی ہے۔ اس لئے یہ بھی اسی طرح کرپشن کہلائے گی جس طرح دوسرے محکموں میں ہوتی ہے۔

یوں کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان کہ پاس یہ مواقع تھے کہ وہ کرپشن سے دولت کما سکتے تھے۔ اب سوال یہ رہ گیا کہ کیا انہوں نے ناجاٸز دولت کماٸی یا نہیں؟ یہ تو جب وہ منی ٹریل دیں گے تو ہی پتہ چلے گا۔ اس کے علاوہ عمران خان نے کرکٹ سے ریٹاٸرمنٹ کے بعد شوکت خانم کے لئے چندہ اکھٹا کیا۔ یہ چندہ بھی اسی طرح قوم کی امانت ہوتی ہے جس طرح ٹیکس کا پیسہ ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ عمران خان کے پاس یہ مواقع تھے کہ وہ عوامی چندے میں ہیر پھیر کر کے کرپشن کر سکتے تھے۔ انہوں نے کی یا نہیں کی؟ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔ جس کا جواب عمران خان اور علیمہ خان کی منی ٹریل دے گی۔

کچھ لوگ عمران خان کی ایمانداری کے ثبوت کے طور پر 1992 کے ورلڈ کپ میں کامیابی اور شوکت خانم کے قیام کو پیش کرتے ہیں لیکن میں یہ کہوں گا کہ آپ کے لیڈر تو یہ کہتے ہیں کہ بڑے بڑے منصوبے نواز شریف اس لئے بناتا ہے تاکہ زیادہ پیسہ بنایا جا سکے تو پھر یہ کیوں نہیں کہا جا سکتا کہ عمران خان نے شوکت خانم جیسا بڑا منصوبہ زیادہ پیسہ بنانے کے لئے شروع کیا؟ اور جو لوگ سٹہ بازی سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ صرف ہار جیت پر ہی سٹہ نہیں کھیلا جاتا۔ ایک واٸڈ بال اور ایک نوبال سے بھی پسہ کمایا جاتا ہے۔ اگر بڑے منصوبوں کی کامیاب تکمیل کو ہی ایمانداری کا ثبوت ماننا ہے تو نواز شریف نے بہت بڑے بڑے منصوبوں کی تکمیل کی ہے جن میں موٹرویز، میٹرو اور بجلی و گیس کے منصوبے شامل ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ ایک کی کامیابی کو ہم پیسہ بنانے سے جوڑ دیں اور دوسرے کو ایماندار ٹھہراٸیں؟ پیمانہ ایک ہی جیسا ہونا چاہیے۔ لہٰذا وزیراعظم صاحب میں تو یہی کہوں گا کہ منی ٹریل تو بنتی ہے اور آپ کو دینی چاہیے۔

مصنف کیمسٹری میں ماسٹرز ہیں، اور کراچی یونیورسٹی میں ابلاغیات کی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔