‎ہشش! چپ کرو

‎ہشش! چپ کرو
‎یہ وہ چھوٹا سا جملہ ہے جو ہمارے ہاں ماں تب سے بولنے لگتی ہے جب ایک بیٹی کا جنم ہوتا ہے۔ دو بچوں میں لڑائی ہوئی، اب وہ بیٹا اور بیٹی ہوں یا کسی رشتے دار کا بچہ اور آپ کی بیٹی، اچھا چپ کرو۔ یہ آپ کی بیٹی کے ہی حصے میں آتا ہے۔ زیادہ بات ہوئی تو اچھا چپ بہادر بچے روتے نہیں۔ بہادری کا ایک جھوٹا سا کھلونا ہاتھ میں دے کر اس سے درد کے اظہار کا حق بھی چھین لیا۔ اسے پہلا سبق ہی یہ پڑھا دیا جاتا ہے کہ کسی بھی تکلیف پر اگر درد کا اظہار بھی کر دیا تو تم بزدل کہلاؤ گی۔ بہادری تو یہی ہے کہ اپنے پر ہونے والے ہر ستم کو خاموشی سے سہنا، بلکہ ہنس کہ سہنا کہ مذہب صبر کے اضافی نمبر بھی تو دیتا ہے نا۔

‎کبھی تو سوچنا تھا بہادری یہی ہے صبر یہی ہے کیا؟ اپنی غلط سیکھ ہی اُس ننھی سی جان کو سکھا دی۔

‎دوسرا ہشش چپ کرو! جب وہ بلوغت کی سیڑھی پر قدم رکھے تب اس کے ہاتھ میں تھما دیا جاتا ہے۔ ارے چپ کرو! کسی کو بتانا نا یہ سب، اور سنو یہ سب اپنا سامان چھپا کر رکھنا، کسی کی نظر نہ پڑے اس پر۔ کچھ عظیم خواتین تو اس قدر شرم کی پاسدار ہوتی ہیں کہ خود بھی بنیادی باتیں اپنی بیٹی کو سمجھانا شرم کے منافی سمجھتی ہیں۔ اور تو اور خارش کرنے سا بنیادی انسانی حق بھی شرم کھا جاتی ہے جبکہ اس وقت، ارے ہاتھ ہٹاؤ وہاں سے کہنے کے بجائے، فوری ضرورت اس خارش کے اسباب جان کر ان کو دور کرنے کی ہوتی ہے۔ مگر کیا کریں ہشش!

‎تیسرا خطرناک ہشش! یہ اس وقت اس کی زندگی میں داخل ہوتا ہے جب وہ پہلی بار کسی بھی طرح کی Harassment کا شکار ہو کر ماں کی طرف دیکھتی ہے۔ تب اس زیادتی کو پہلے ہی مرحلے پر روک کر، کسی جانور کا ہاتھ توڑنے اور بچی کو اس کے بارے میں مکمل آگاہی دینے کی بجائے دیا جاتا ہے.

ایک اور ہشش! چپ کرو، ابا کو پتہ چلا تو سکول سے اٹھا لیں گے، بھائی کو پتہ چلا تو لڑنے چلا جائے گا۔ بے وجہ کی دشمنی، لوگوں کو پتہ چلے گا تو جانے کیسی کیسی باتیں کریں گے۔ کسی کا آپ کے ساتھ برا کرنے کی کوشش بھی اپ ہی کے کردار پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ یہ سیکھ دے کر ایک اور ظلم کو چپ کر کے سہنا سکھا دیا جاتا ہے۔

‎اب آتا ہے ہماری ننھی پری کی زندگی کا چوتھا ہشش! اوئے نوکری کرنی ہے۔ اب کیا ہم بیٹی کی کمائی کھائیں گے(بیٹی کے سارے حق کھا لینا، وراثت کا حصہ تک کھانا جائز لیکن کمائی ناجائز)۔

‎اب تو تعلیم پوری ہوئی اب اگر کچھ ہو سکتا ہے تو وہ صرف شادی اور وہ بھی ہشش! کہاں جانا ہے کس کے پلّے باندھنا ہے وہ بھی ابا کا فیصلہ۔ اگر ہشش کے خلاف گئے تو عزت کہاں رہے گی۔

‎اس کے بعد ہشش کا ایک لامتناہی سلسلہ، ماں بننے سے انکار سے لیکر وقفہ تک ہشش!

ہڈیوں سے تمھاری بنے گی وہ نئی جان مگر تمہارا اور اس کا مالک تو وہی انسان ہے جس کے حوالے ماں باپ نے بے زبان جانوروں کی طرح کر دیا تو فیصلہ اسی کا، اس کی دی گئی گالی کے جواب میں اس کو چھوڑنے کی بات، ہشش! نبھا نہیں کرنا آتا۔ سسرال والوں کو ان کی کسی زیادتی کا احساس تک دلانے کی کوشش، ہشش! ماں باپ کی تربیت پر حرف۔

‎کبھی سوچا ہے اس کے لیے آپ کے پاس ہشش سانس لو اور ہمارے اشاروں پر ایک زندہ لاش بنے مردہ لاش تک کا سفر طے کر لو کہ سوا آپ اسے کیا دیتے ہیں۔ سچ بولیں تو کچھ نہیں۔

‎اگر اسے کچھ دینا چاہتے ہیں تو اسے زندگی کا احساس دیں، اسے چیخنے کی اجازت دیں، میں جانتی ہوں صدیوں کا سفر ہے لمحوں میں طے نہیں ہوتا، مگر تکلیف پر رونے کی اجازت، غلط کو غلط سمجھنے کا شعور اور اپنی دو ٹکے کی جھوٹی اور لوگوں کی Define کی ہوئی عزت کے بوجھ سے آزادی دیں۔

آپ اس کا ساتھ دینے کی ہمت نہیں رکھتے تو اسے اس دنیا میں لانے کے مجرم تو ہیں نا آپ۔ اس جرم کی کچھ تلافی تو کر سکتے ہیں،  کیسے؟ جب آپ اس کو وقت پر چلنا سکھا دیں۔

آپ کے ہاتھ کانپتے ہیں اس کو، اس کا حق دیتے۔ دلاتے ہیں تو کم از کم اسے، اس ہشش سے نجات دلا دیں کہ کوئی تو اس کی پکار پر روشنی کا دیا لیے آ جائے۔

آپ اگر نااہل ہیں تو کوئی تو اسے کھڑا ہونا سکھا دے اور اگر کوئی بھی ہاتھ نہ بڑھائے تو وہ اپنے راستے خود کھوج لے، اس کے پیروں سے ہشش لوگ کیا کہیں گے کی بیڑی ہی کھول دیں۔ اسے ہشش سے نجات دیں کہ اس کا سانس رک رہا ہے اور وہ اس ہشش کے بوجھ تلے ہوا کے لیے کوشش بھی نہیں کر پا رہی۔

ہمارے اس معاشرے میں جہاں خواتین ہشش کا بوجھ لے کر پیدا ہوتی ہیں اور ساری زندگی اسی بوجھ تلے دبی رہتی ہیں۔ آپ کا والدین ہونے کے ناطے فرض ہے کہ آپ ان کو اس بوجھ سے نجات دلا کر ان کو آزاد فضا میں جینے دیں ان کو ان کے آسمان میں اڑنے دیں ان کو ان کی حفاظت کے احساس سے روشناس ہونے دیں۔

ان کو ان کے راستے پر چلنے دیں کہ کسی بھی اجنبی کا جملہ یا معاشرے کی سوچ آپ کو ان پر اپنے ہشش کا بوجھ ڈال کر ان کو حفاظت کے نام پر قید نہ کرنے دے۔

آخر کو معاشرے کے عزت کے نام نہاد پیمانے آپ کی بچیوں کی خوشی اور زندگی سے زیدہ نہیں ہونے چاہیں۔ ان کو چپ نہیں بولنا اور جہاں ضرورت پڑے چیخنا سکھائیں کہ وہ چہکنے کو ہی آئی ہیں، خاموشی سے ہشش کے بوجھ تلے قطرہ قطرہ مرنے کو نہیں۔