عمران خان کا 'آدھا سچ مارکہ چُورن' ہاتھوں ہاتھ کیوں بکتا ہے؟

12:21 PM, 20 Jul, 2023

مرتضیٰ سولنگی
' سلیکٹڈ وزیر اعظم' کا خطاب حاصل کرنے والے عمران خان نے ایسے سخت سوالات سے بچنے کے لیے جو ممکنہ طور پر ان کی منافقت اور جھوٹ کو بے نقاب کر سکتے تھے، ہمیشہ مخصوص سامعین اور چنیدہ میڈیا کا استعمال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ان کا انٹرویو صرف ایسے مداحوں نے کیا جنہوں نے صحافیوں کا روپ دھار رکھا ہے۔ جہاں صحافی ان سے سخت سوالات پوچھ سکتے تھے، ایسے انٹرویوز سے وہ اٹھ جانے کی دھمکی دیتے رہے ہیں۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں جب ان سے انٹرویو لینے والوں کو اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونے پڑے یا پھر ان کے سائبر واریئرز کی بریگیڈ (ٹرولز) کے ذریعے سے جن پر وہ اکثر فخر کرتے ہیں، ایسے صحافیوں کو بری طرح سے ٹرول کیا گیا۔

تاہم بین الاقوامی میڈیا میں ابھی بھی مٹھی بھر ایسے صحافی موجود ہیں جنہوں نے اپنے سوالوں سے عمران خان کو خاصی مشکل صورت حال میں ڈالا ہے۔ اسی طرح کا ایک تازہ ترین انٹرویو جو اگرچہ واحد مثال نہیں ہے، تجربہ کار صحافی ٹم سیباسٹین نے لیا جو جرمن ٹیلی ویژن چینل ڈوئچے ویلے (DW) پر نشر ہونے والے پروگرام Conflict Zone کے میزبان ہیں۔

(مکمل ویڈیو انٹرویو مضمون کے آخر میں دیا گیا ہے)

ٹم سیباسٹین ایک ذمہ دار صحافی ہیں جنہوں نے اپنی ساری زندگی سنجیدہ صحافت کرتے گزاری ہے اور اپنے بیش تر انٹرویوز میں انہوں نے مہمانوں کے پسینے چھڑوائے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کے لیے اپنے تازہ ترین انٹرویو میں تجربہ کار صحافی نے بری شہرت کے حامل پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان سے چند سخت سوالات پوچھ کر انہیں شدید مشکل سے دوچار کر دیا۔

عمران خان نے اپنے سابقہ معمول کے مطابق سوالات کا رخ موڑنے اور صحافی کو بھٹکانے کی پوری کوشش کی تاہم سیباسٹین اپنے سوالوں سے ذرا برابر ادھر ادھر نہیں ہوئے اور اس کے نتیجے میں عمران خان خاصی پریشانی میں مبتلا ہو گئے اور انہوں نے سوالات کی بوچھاڑ کو روکنے کے لیے بڑبڑانا شروع کر دیا۔

انٹرویو کے آغاز میں عمران خان نے ایک سفید جھوٹ بولا کہ 70 سال کی عمر میں اب سے پہلے ان کے خلاف کبھی کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔ مجھے یقین ہے کہ سیباسٹین سمیت ہر ایک کو کیلیفورنیا عدالت کے اگست 1997 میں عمران خان کے خلاف سنائے گئے فیصلے کے بارے میں ضرور معلوم ہو گا۔ عمران خان کے خلاف یہ مقدمہ ان کی آنجہانی گرل فرینڈ سیتا وائٹ نے درج کروایا تھا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان ان کی اکلوتی بیٹی ٹیریان وائٹ کے والد ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ لڑکی اب عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ کے ساتھ لندن میں ان کے دیگر دو بچوں کے ہمراہ رہ رہی ہے۔

یہاں سے ہم 2014 میں چلتے ہیں جب عمران خان اور ان کے 'سیاسی کزن' اور شعلہ بیان مذہبی رہنما طاہر القادری نے پاکستان میں طاقت کے مرکز یعنی شاہراہ دستور پر قبضہ کرنے کے لئے قومی دارالحکومت اسلام آباد پر دھاوا بولا تھا تو اس کے بعد عمران خان کے خلاف متعدد مقدمات درج کیے گئے تھے۔ اس شاہراہ پر پاکستان میں طاقت اور اقتدار کی تمام علامات موجود ہیں جن میں سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن، پارلیمنٹ ہاؤس جس میں قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں شامل ہیں، صدر پاکستان اور وزیر اعظم کے دفاتر اور رہائش گاہیں، وفاقی سیکرٹریٹ، وفاقی وزرا کے دفاتر اور رہائش گاہیں اور قومی نشریاتی اداروں یعنی پاکستان ٹیلی وژن اور ریڈیو پاکستان کے ہیڈکوارٹرز کی عمارتیں موجود ہیں۔ مختصر یہ کہ اسلام آباد کی شاہراہ دستور وفاقی حکومت کا عصبی مرکز ہے۔

عمران خان نے انٹرویو میں یہ ذکر کرنا گوارا نہیں کیا کہ کس طرح ان کے حمایتی غنڈے پارلیمنٹ کی عمارت اور وزیر اعظم ہاؤس پر چڑھ دوڑے تھے اور کس طرح ان کے 'تربیت یافتہ دستوں' نے قومی ٹیلی ویژن سٹیشن پر 'قبضہ' کرنے کے بعد جشن منایا تھا اور اس میں توڑ پھوڑ کرنے کے علاوہ اس کی نشریات کو بھی معطل کر دیا تھا۔

سابق وزیر اعظم نے یہ بتانا بھی مناسب نہیں سمجھا کہ کس طرح اپنے ان گرفتار کارکنوں کو پولیس کی حراست سے چھڑانے کے لیے وہ خود اپنے مضبوط کنٹینر سے نیچے اتر آئے تھے اور کس طرح ان کے حامیوں نے ایس ایس پی عصمت اللہ جونیجو سمیت اعلیٰ پولیس افسران کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور اس ساری کارروائی کے دوران وہ خود کس طرح اپنی تقریروں میں مسلسل پولیس کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے رہے تھے۔

عمران خان یہ بتانے میں بھی ناکام رہے کہ کس طرح وزیر اعظم کے طور پر اپنے دور اقتدار میں انہوں نے اپنے اور اپنے ساتھیوں کے خلاف درج تمام مقدمات کو ختم کروانے کے لیے انتظامی اختیارات کا بے دریغ استعمال کیا۔ وہ نہایت آسانی کے ساتھ ان میں سے کسی بھی واقعے کا ذکر گول کر گئے جب وہ سیباسٹین کو یہ لیکچر سنا رہے تھے کہ طاقتور لوگوں کو قانون اور احتساب کے دائرے میں لانے پر وہ کس قدر پختہ یقین رکھتے ہیں۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے عمران خان نے سیباسٹین کو بتایا کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا اس کے لیے ان کی پارٹی کے 10 ہزار سے زیادہ کارکنان اور حامیوں کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ اس سے قبل عمران خان یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ 9 مئی کو جب ان کی جماعت پی ٹی آئی نے سول اور فوجی تنصیبات پر حملے کیے تو ان حملوں میں ان کے 25 کارکنان ہلاک ہو گئے تھے۔

جب صحافی نے ان سے مرنے والوں کی فہرست فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تو خاموشی ہی وہ واحد ردعمل تھا جو سیباسٹین کو عمران خان اور ان کی پارٹی کی جانب سے ملا۔ متعلقہ حلقوں سے جب عمران خان کے ان دعوؤں سے متعلق دریافت کیا گیا تو سبھی کے جواب سے یہ تاثر ملا کہ عمران خان نے صحافی سیباسٹین کے سامنے اپنے دعوؤں میں تعداد کو تقریباً دوگنا کر کے بتایا ہے۔ عمران خان ایسا ہی کرتے ہیں اور دل کھول کر مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں۔

اپنے انٹرویو میں عمران خان نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کی تاریخ کے بیش تر حصے میں یا تو ملک پر فوجی آمروں نے حکومت کی ہے یا پھر دو سیاسی خاندانوں کی حکومت رہی ہے جبکہ وہ تو آؤٹ سائیڈر ہیں۔

تاہم حقائق، جو ایک ایسا تصور ہیں جس سے عمران خان کو کوئی خاص سروکار نہیں، اس کے برخلاف بات کرتے ہیں۔

فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور میں اطلاعات و نشریات کے سیکرٹری جنرل مجیب الرحمان نے سیاست میں آنے کے لئے عمران خان کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ جنرل ضیاء الحق نے خود بھی عمران خان کو سیاست میں آنے کو کہا تھا۔

جب 1996 میں عمران خان نے اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا آغاز کیا تو اسے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق ڈی جی جنرل (ر) حمید گل کے ساتھ مل کر شروع کیا گیا تھا۔ حمید گل بعد میں عمران خان سے الگ ہو گئے تھے۔

جب فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں نواز شریف کا تختہ الٹا تھا تو عمران خان وہ پہلے سیاست دان تھے جو پرویز مشرف کے ساتھ جا کھڑے ہوئے تھے۔

بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے سابق سیاست دان مرحوم معراج محمد خان جنہوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی تھی، انہوں نے عمران خان کی جانب سے فومی آمر کی غیر مشروط حمایت پر اختلاف کرتے ہوئے بعد میں عمران خان سے دوری اختیار کر لی تھی۔ جنرل پرویز مشرف نے اپریل 2002 میں جب ملک میں دھوکہ دہی پر مبنی ریفرنڈم منعقد کیا جس میں 97.97 فیصد لوگوں نے ان کے حق میں ووٹ دیا تھا تو اس ریفرنڈم میں جنرل پرویز مشرف کے چیف پولنگ ایجنٹ عمران خان بنے تھے۔

چھ ماہ بعد جب اکتوبر 2002 میں شدید دھاندلی زدہ انتخابات منعقد ہوئے تو جنرل پرویز مشرف کے پہلے 'سلیکٹیڈ' وزیر اعظم بننے کی خواہش میں عمران خان نے ان سے قومی اسمبلی کی 100 نشستوں کا مطالبہ کر دیا۔ جنرل پرویز مشرف نے یہ مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا اور نتیجے کے طور پر ان عام انتخابات میں عمران خان میانوالی میں اپنے آبائی حلقے سے قومی اسمبلی کی محض ایک نشست ہی جیتنے میں کامیاب ہو سکے۔

یہی وقت تھا جب عمران خان نے جنرل پرویز مشرف سے راہیں جدا کر لیں۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف ان کا غصہ اسی وقت پیدا ہوا جب وہسکی برانڈ جنرل مشرف نے انہیں اپنا 'سلیکٹیڈ' وزیر اعظم بنانے سے انکار کر دیا تھا۔

اپنے بعد کے کئی انٹرویوز اور عوامی بیانات میں عمران خان نائن الیون حملے کے بعد دہشت گردی کے خلاف شروع ہونے والی جنگ کی مخالفت کا بار بار کریڈٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن انٹرنیٹ پر آسانی سے مل جانے والے ایک ویڈیو کلپ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نائن الیون کے فوری بعد جب پرویز مشرف نے امریکہ کی حمایت کا اعلان کیا تھا تو ایک مغربی صحافی سے بات کرتے ہوئے عمران خان جنرل پرویز مشرف کے امریکی اتحادی بننے والے فیصلے کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینا فوجی آمر کا بہترین انتخاب ہے۔


وار آن ٹیرر کی مخالفت میں عمران خان کی زبانی کلامی جنگ اس وقت شروع ہوئی جب اکتوبر 2002 کے عام انتخابات میں جنرل مشرف کی جانب سے انہیں نظر انداز کر دیا گیا تھا اور یہ مخالفت جنگ شروع ہونے کے پورے ایک سال بعد شروع ہوئی تھی۔ ایک اور سچ یہ ہے کہ عمران خان نے اس وقت وزیر اعظم کے عہدے کے لیے موزوں امیدوار کے طور پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی بھی حمایت کی تھی۔

میڈیا اور عوام کو بڑے پیمانے پر آنکھیں چندھیا دینے والی تیز روشنی میں رکھنے کے لیے عمران خان اکثر جولائی 2022 کے ضمنی انتخابات میں اپنی جیت پر ڈینگیں مارتے نظر آتے ہیں جب انہیں 20 میں سے 15 حلقوں میں کامیابی ملی اور اس کامیابی کو وہ اپنی مقبولیت کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ مگر جس بات کا ذکر عمران خان گول کر جاتے ہیں وہ اکتوبر 2022 کے ضمنی انتخابات ہیں جن کے دوران اکثر انتخابی حلقوں میں ووٹرز کا ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا تھا۔

کراچی کا ایک حلقہ کورنگی جہاں سے عمران خان کامیاب ہوئے تھے وہاں ٹرن آؤٹ محض 14 فیصد رہا تھا۔ کراچی ہی کے ایک اور حلقے ملیر میں ٹرن آؤٹ اچھا خاصا رہا اور یہاں سے عمران خان بھاری مارجن کے ساتھ شکست کھا گئے تھے۔

اسی طرح پشاور کے ایک حلقے میں جہاں عمران خان اور ان کی جماعت پی ٹی آئی نے کامیابی حاصل کی، وہاں ٹرن آؤٹ صرف 20 فیصد تھا، اس حقیقت کے باوجود کہ اس وقت صوبے کی تمام تر باگ ڈور ان کی اپنی پارٹی کے پاس تھی اور یہ ایسا صوبہ تھا جہاں ان کی پارٹی گذشتہ ایک دہائی سے اقتدار میں چلی آ رہی تھی۔

عمران خان ایک اور بات سے بھی کنّی کترا جاتے ہیں کہ ان کی پارٹی کے دوسرے نمبر پر موجود رہنما شاہ محمود قریشی نے ضمنی انتخابات کے دوران ملتان میں اپنی بیٹی کو قومی اسمبلی کی نشست پر کھڑا کر کے موروثی سیاست کے رجحان کا مظاہرہ کیا تھا لیکن انہیں پاکستان پیپلز پارٹی کے موسیٰ گیلانی کے ہاتھوں عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

کراچی کے علاقے ملیر میں عمران خان کے مقابلے میں الیکشن لڑنے والے ایک نوخیز سیاست دان حکیم بلوچ نے پی ٹی آئی چیئرمین کو بڑی برتری سے شکست دے دی تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستانی قوانین کے مطابق عمران خان پارلیمنٹ کے کسی بھی ایوان یعنی قومی یا صوبائی اسمبلی میں صرف ایک نشست برقرار رکھ سکتے ہیں لیکن انہوں نے ضمنی انتخابات کو دنیا کو یہ دکھانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی کہ وہ پاکستان کے مقبول ترین سیاست دان ہیں، اس حقیقت کو نظرانداز کرتے ہوئے کہ پارلیمانی جمہوریت میں ایسی فتوحات بالآخر غیر متعلق ثابت ہوتی ہیں۔

2002 کے جعلی انتخابات کے دوران بھی نواز شریف پاکستان میں اچھے خاصے مقبول تھے لیکن چونکہ ان کی پارٹی کو جنرل مشرف نے بے دردی سے توڑ پھوڑ دیا تھا، اس لیے ان کی جماعت یعنی پاکستان مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی کی کل 342 میں سے محض 19 نشستیں ہی حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکی تھی۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی اگلے عام انتخابات میں کس قسم کی کارکردگی دکھاتی ہے جبکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی اس حمایت سے محروم ہو چکی ہے جس نے 2018 میں اسے مسند اقتدار پر بٹھانے کا پورا پورا بندوبست کیا تھا۔

عمران خان جنہوں نے ماضی میں اپنی حکومت کے خاتمے کے لئے امریکہ پر 'رجیم چینج' آپریشن کا الزام لگایا تھا، سیباسٹین کے ساتھ اپنے انٹرویو میں انہوں نے یہ الزام محض سابق آرمی چیف جنرل باجوہ تک محدود رکھا اور کہا کہ موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف جو اس وقت اپوزیشن لیڈر تھے اور دیگر سینیئر اپوزیشن رہنماؤں کے ہمراہ 207 دن تک جیل میں رہے تھے، جنرل باجوہ نے ان کے ساتھ مل کر عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے لئے سازش تیار کی تھی۔

عمران خان نے سیباسٹین کو یہ بھی بتانے سے احتراز کیا کہ انہوں نے جنرل باجوہ کو مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کیوں دی تھی جبکہ آج کل وہ سیاست میں فوج کی مداخلت کی مذمت کرتے ہیں۔

اور نا ہی عمران خان نے سیباسٹین کو یہ بتانا مناسب سمجھا کہ انہوں نے جنرل باجوہ کو تیسری بار مدت ملازمت میں توسیع کی پیش کش کیوں تھی اور جیسا کہ بہت سارے لوگ بتا چکے ہیں جن میں آئی ایس آئی کے موجودہ ڈی جی جنرل ندیم انجم بھی شامل ہیں کہ اس مرتبہ عمران خان کی یہ پیش کش تاحیات ایکسٹینشن کے لیے تھی۔

پی ٹی آئی چیئرمین نے ان لیک آڈیو کالز پر بھی روشنی ڈالنے سے پرہیز کیا جن میں وہ سینیئر وزراء کے ساتھ عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنانے کے لئے اراکین اسمبلی کو خریدنے سے متعلق گفتگو کر رہے ہیں۔

عمران خان نے سیباسٹین کو اپنے اس منصوبے سے متعلق بھی بتانے سے گریز کیا جس کے تحت وہ ایک سابق آئی ایس آئی چیف کو اگلا آرمی چیف لگانا چاہتے تھے تاکہ مستقبل کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کر کے وہ خود کو پاکستان کا نیا امیر یا شہنشاہ بنا سکیں۔

انہوں نے سیباسٹین کو یہ بھی نہیں بتایا کہ مقبولیت کے عروج پر بھی ان کی حکومت کو قومی اسمبلی میں اکثریت کیوں حاصل نہ ہو سکی اور ان کا رنگ برنگا حکومتی اتحاد اس وقت ٹوٹ گیا جب اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اکٹھے کیے گئے سیاسی اتحادیوں نے انہیں اس لئے چھوڑ دیا کیونکہ ملکی اور خارجہ پالیسی کے معاملے میں ان کی بڑی بڑی غلطیوں سے اسٹیبلشمنٹ عاجز آ چکی تھی۔

سیباسٹین کے ساتھ انٹرویو میں عمران خان نے اپنے بار بار دہرائے جانے والے بیان کو ایک مرتبہ پھر دہرایا کہ ان کے دور میں حزب اختلاف کے رہنماؤں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ان کے خلاف دائر پرانے مقدمات کے نتیجے میں عمل میں لائی گئی تھیں۔ تاہم اس ضمن میں انٹرنیٹ پر کی جانے والی ایک سادہ تحقیق سے یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ کس طرح ان کے دور میں اپوزیشن رہنماؤں کو سلاخوں کے پیچھے رکھنے اور ان پر ظلم کرنے کے زیادہ تر مقدمات پی ٹی آئی حکومت کے دوران ہی درج کروائے گئے تھے۔

یہ بات بھی آن ریکارڈ آ چکی ہے کہ عمران خان سابق نیب چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کو بھی بلیک میل کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے معاون خصوصی کے زیر ملکیت ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کے ذریعے احتساب چیف کی ایک متاثرہ خاتون کے ساتھ بنائی گئی غیر اخلاقی ویڈیو لیک کی۔ اور گفتگو کی روانی کے دوران نا ہی عمران خان نے سیباسٹین کو یہ بتانا مناسب سمجھا کہ کس طرح انہوں نے اور ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے احتساب چیف کی زیادتی کی شکار ہونے والی ایک خاتون کو مہینوں تک وزیر اعظم ہاؤس میں نظر بند رکھا تاکہ انہیں نیب چیئرمین کو بلیک میل کرنے کے لئے استعمال کر سکیں۔

غالباً عمران خان نے محسوس کیا ہو گا کہ سیباسٹین کے سامنے اس بات پر بھی روشنی ڈالنا غیر ضروری ہو گا کہ کس طرح اپوزیشن کے اہم رہنماؤں جن میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز بھی شامل تھیں، کی گرفتاریوں کی انہوں نے خود نگرانی کی تھی۔ یہاں تک کہ مریم نواز کو ان کے قیدی باپ کے سامنے اس وقت گرفتار کر لیا گیا جب وہ اپنے باپ کو جیل میں ملنے گئی تھیں۔ انہیں اس لئے گرفتار کیا گیا تاکہ دونوں کی تذلیل کی جا سکے۔

عمران خان نے سیباسٹین کو یہ بھی نہیں بتایا کہ مریم نواز اور ان کے اہل خانہ کو شرمسار کرنے کے لیے کس طرح صبح سویرے ان کے ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑا گیا تھا۔ جیل کے حالات پر بات کرتے ہوئے عمران خان نے یہ بتانا ضروری نہیں سمجھا کہ ان کی ہدایت پر ان کی حکومت نے موجودہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی گاڑی میں 15 کلوگرام ہیروئن (جس میں عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے) کیسے رکھوائی تھی اور کس طرح رانا ثناء اللہ کو مہینوں تک بنیادی سہولیات سے عاری ڈیتھ سیل میں قید رکھا گیا تھا۔

عمران خان نے اس وقت کا بھی کوئی تذکرہ نہیں کیا جب عمران خان نے واشنگٹن ڈی سی میں سامعین کے سامنے دو سابق منتخب وزرائے اعظم نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کو بغیر کسی سہولت کے جیل میں ڈالنے کے ناقابل تسخیر کارنامے پر ڈینگیں ماری تھیں اور یہ ذکر بھی نہیں کیا کہ کس طرح اپنے سخت ناقدین کو اذیت پہنچا کر وہ راحت حاصل کرتے تھے۔

مذکورہ انٹرویو کے دوران عمران خان نے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے تئیں اپنے غصے کی غرض و غایت کی وجوہات میں جھانکنے کی پیش کش کی اور بتایا کہ کس طرح اقتدار کے زوال کے موقع پر انہوں نے میری حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ لیکن یہ کہتے ہوئے عمران خان یہ بتانا بھول گئے کہ کس طرح ان کے اقتدار میں آنے سے بھی پہلے جنرل باجوہ نے ان کے سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائی شروع کر دی تھی جو عمران خان کے دور اقتدار میں بھی جاری رہی۔ عمران خان نہایت چالاکی کے ساتھ اپنے ناقدین کے خلاف اس انتقامی کارروائی کو احتساب کا نام دیتے ہیں جیسے ان کے انتخابی منشور میں بس یہی ایک ہی ہدف رکھا گیا ہو۔ 50 لاکھ گھر تعمیر کرنے، ایک کروڑ نئی ملازمتیں دینے اور معیشت کو چاند پر لے جانے سے متعلق اپنے باقی وعدوں کا وہ کسی بھی جگہ ذکر نہیں کرتے۔

جب عمران خان کے سامنے انسانی حقوق اور آزادی صحافت سے متعلق ان کا ریکارڈ رکھا گیا تو انہوں نے سیباسٹین کو تفصیل سنانی شروع کر دی اور پھر عجلت میں محض 10 لوگوں کے بارے میں بات کی اور غلط بیانی کی کہ ان لوگوں کو درحقیقت اس لئے ہراساں کیا گیا، ان پر حملہ کیا گیا، انہیں نوکریوں سے نکالا گیا کیونکہ وہ دہشت گردی کی حمایت کر رہے تھے اور انہیں نشانہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بنایا گیا تھا۔

عمران خان یہ بات بڑی آسانی سے بھول جاتے ہیں کہ 2014 میں دہشت گردوں کو شکست دی جا چکی تھی اور مطیع اللہ جان، حامد میر، طلعت حسین، بلال غوری، شاہ زیب جیلانی، ابصار عالم، اسد طور، نصرت جاوید جیسے بہادر صحافی تحریک طالبان پاکستان کی اس دہشت گردی کے شدید مخالف تھے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انہوں نے مسلح افواج کی حمایت کی تھی۔ جبکہ یہی وہ وقت تھا جب عمران خان تحریک طالبان پاکستان، القاعدہ اور افغان طالبان کی حمایت کر رہے تھے اور 30 اگست 2021 کے بعد بطور وزیر اعظم انہوں نے کھلے الفاظ میں خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغان طالبان نے امریکہ کو بے دخل کر کے 'غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالی ہیں

یہ عمران خان ہی تھے جنہوں نے اکتوبر 2007 میں ڈیلی ٹیلی گراف کے لئے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے محترمہ بینظیر بھٹو پر ہونے والے حملے کی ذمہ دار خود بینظیر بھٹو تھیں۔

عمران خان کے ذہن سے یہ بات بھی نکل گئی کہ کیسے انہوں نے پاکستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر بے پناہ انسانوں کے قاتل اسامہ بن لادن کو 'شہید' قرار دیا تھا۔ جہادی تنظیموں کے ساتھ عمران خان کے روابط بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہیں۔ یہ انہی کی حکومت تھی جو پاکستانی اور افغان طالبان کی فیکٹری کے طور پر شہرت رکھنے والے مدرسہ اکوڑہ خٹک کو ہر سال قومی خزانے سے 3 کروڑ روپے کی گرانٹ جاری کرتی رہی۔ سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کرنے والے خودکش حملہ آوروں نے اسی مدرسے میں تربیت حاصل کی تھی۔

مزید براں فروری 2014 میں جب ٹی ٹی پی نے حکومت کے ساتھ بات چیت پر رضامندی ظاہر کی تو انہوں نے عمران خان کو ان لوگوں میں سے ایک کے طور پر نامزد کیا جنہوں نے طالبان کی نمائندگی کرنا تھی۔

پی ٹی آئی کے سربراہ کو 2014 میں اور اس کے بعد خاص طور پر اقتدار سے محروم ہونے کے بعد جب ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ انہیں آئینی طریقے سے وزارت عظمیٰ سے ہٹایا گیا، تشدد پر مبنی اپنے اقدامات کا دفاع کرنے میں شدید مشکل پیش آ رہی ہے۔

عمران خان نے 2013 کے انتخابات کے دوران نام نہاد دھاندلی پر احتجاج کے دوران اپنے پرتشدد اقدامات کا بھی دفاع کیا لیکن انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا جس میں کہا گیا تھا کہ ان انتخابات میں کسی منظم دھاندلی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

سپریم کورٹ کے تین رکنی انکوائری کمیشن نے جولائی 2015 میں شائع ہونے والی اپنی 237 صفحات پر مبنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے بعض خامیوں کے باوجود '2013 کے عام انتخابات بڑے پیمانے پر منظم انداز میں منعقد ہوئے۔ یہ انتخابات شفاف اور قانون کے عین مطابق تھے'۔

عمران خان جو اس بات کو بار بار دہراتے رہتے ہیں کہ ان کی پارٹی ہمیشہ پرامن رہی ہے، انہوں نے اس سازش کو بھی ظاہر نہ کرنے کا فیصلہ کیا جو انہوں نے اور مذہبی رہنما طاہر القادری نے 2013 کے انتخابات سے بمشکل ایک سال بعد جون 2014 میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملی بھگت کے ساتھ رچائی تھی۔ طاہر القادری اگست 2014 میں جمہوری حکومت کو ختم کرنے کے لیے ان کے اتحادی بن کر اسلام آباد پہنچے تھے۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ ان دونوں کی ملاقات کی تفصیلات بہت سارے ایسے لوگوں نے عام کی ہیں جو اس مذموم کھیل کا حصہ تھے۔

اس انٹرویو اور میڈیا کے ساتھ دیگر موقعوں پر کی گئی بات چیت میں عمران خان نے ہمیشہ کہا ہے کہ 9 مئی کو ان کی مختصر وقت کی گرفتاری کے دوران جو کچھ ہوا وہ اس سے مکمل طور پر بے خبر تھے اور ان کی پارٹی کی جانب سے اس روز جتنا بھی تشدد ہوا، توڑ پھوڑ ہوئی اس تمام تر ہنگامہ آرائی سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

حراست کے دوران پارٹی رہنماؤں کے ساتھ ہونے والی ان کی گفتگو جو بعد میں لیک ہوئی، عمران خان کے مذکورہ مؤقف سے مختلف کہانی سناتی ہے۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کے بہت سارے رہنماؤں نے اس ضمن میں بیان دیے ہیں کہ 9 مئی کے بعد کس طرح عمران خان نے اپنی گرفتاری پر ہونے والے تشدد پر جشن منایا تھا اور اپنے رہنماؤں کو سختی کے ساتھ ہدایت کی تھی کہ ان پرتشدد واقعات کی مذمت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

9 مئی کو جب ان کے پرتشدد کارکنوں نے جن کی رہنمائی ان کی پارٹی کے بعض اعلیٰ قائدین کر رہے تھے، فوجی تنصیبات پر حملہ کیا، یہ پاکستان کو انتشار کی حالت میں دھکیلنے کے لیے ایک سوچے سمجھے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا تھا اور انہیں توقع تھی کہ اس پرتشدد ماحول کی معراج پر ان کے پسندیدہ فوجی کمانڈرز انہیں پھر سے اقتدار میں واپس لے آئیں گے۔ بیرون ملک سے آپریٹ کرنے والی ان کی سائبر ٹیموں نے اس بغاوت کی منصوبہ بندی کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

عمران خان کو یہ یقین دلایا گیا کہ وہ پاک فوج کے نظم و ضبط کو توڑ سکتے ہیں اور اپنے انقلاب کا اعلان کر کے اس کے کلچر کو ختم کر سکتے ہیں۔ اب اپنی خونی بغاوت کی ناکامی کے بعد وہ مظلومی کا کارڈ کھیل رہے ہیں۔ وہ آرمی ایکٹ 1952 کے تحت چلنے والے مقدمات کے بارے میں شور مچا رہے ہیں جس ایکٹ میں بطور وزیر اعظم ان کی نگرانی میں ترمیم کی گئی تھی اور ان کے دور میں تقریباً دو درجن افراد کو اسی آرمی ایکٹ کے تحت سزا سنائی گئی تھی۔

مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جائیں یا سول عدالتوں میں، مگر کوئی بھی ملک کسی بھی صورت میں تباہی پھیلانے اور خونی تشدد برپا کرنے جیسے اقدامات کو برداشت نہیں کرتا، بھلے وہ فرانس ہو، امریکہ، برطانیہ یا پھر ہندوستان۔ آتش زنی کرنے والوں اور پرتشدد انتہا پسندوں سے نمٹنے کے لیے ہمیشہ خصوصی قوانین اور مخصوص عدالتیں بنائی جاتی رہی ہیں۔ پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ مقبول رہنما مجرم ٹھہرائے گئے ہیں اور انہیں جیلوں میں ڈالا جاتا رہا ہے حتی کہ پھانسی کی سزا بھی دی جا چکی ہے۔ عمران خان کو استثنیٰ نہیں دیا جا سکتا۔






مرتضیٰ سولنگی کا یہ تجزیہ The Friday Times میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کر کے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔
مزیدخبریں