عمران خان اور عزازیل

عمران خان اور عزازیل
میری عمران خان سے ذاتی دشمنی نہیں ہے۔ وہ ایک اچھے انسان ہیں۔ نیک نیت ہیں۔ ان میں سادگی ہے۔ پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں اور شکل وصورت بھی خدا نے بہترین دی ہے۔

تو مختصر یہ کہ میرے نزدیک عمران خان ایک فرشتہ صفت انسان ہیں اور جب انسان فرشتہ صفت ہو تو اسے خدا کی قربت حاصل ہو ہی جاتی ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے ابلیس کو خدا کی قربت حاصل تھی!

ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ عزازیل خدا کے سب سے پسندیدہ اور عبادت گزار فرشتے تھے۔ لیکن جب ان میں تکبر آیا تو خدا نے انہیں جنت سے بے دخل کر دیا۔ ساتھ ہی اختیار دیا کہ وہ تا قیامت بنی نوع انسان کی زندگیوں سے کھلواڑ کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔ یہ تو آسمانی باتیں ہیں، زمین کی صورتحال مختلف ہے۔ زمین پر عزازیل میں تکبر تو آ گیا ہے لیکن اس تکبر کے پیچھے کوئی کارکردگی نہیں ہے اور زمینی خداؤں کو لگتا ہے کہ اس بے وجہ تکبر کو زیادہ دیر برداشت کیا تو زمینی عزازیل خود بے دخل ہو یا نہ ہو ہم ذلیل ضرور ہو جائیں گے۔ اس لئے بہتر ہے کہ فی الحال ہم کوئی دخل نہ دیں!

اس پس منظر میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر زمینی عزازیل اس عدم مداخلت کی وجہ سے بے دخل ہو گئے تو وہ بنی نوع پاکستان کے ساتھ کس حد تک اور کب تک کھلواڑ کر پائیں گے؟ یہ قابل دید ہوگا۔

دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ آسمانی عزازیل مشکل صورتحال میں تنہا تھے لیکن پاکستان کے دو پارٹی سسٹم میں زمینی عزازیل کو اپنی تیسری پارٹی کو سیاسی نظام کا حصہ بنانے کے لئے ’’فیض‘‘ حاصل تھا۔ اس لئے لڑائی صرف زمینی خداؤں اور زمینی عزازیل کے درمیان نہیں بلکہ خدا کے ایک اور امیدوار بھی اس حوالے سے سرگرم ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ عمران خان کی بقا ان کی بقا سے جڑی ہوئی ہے۔ اس بقا کی پارٹنرشپ میں 2018 سے لے کر نومبر 2021 کی سرد شاموں تک ایک اہم اننگ جاری رہی۔ تین سال ایسے گزرے کہ پاکستانی قوم ہکا بکا رہ گئی۔

عمران خان اور ان کو حاصل فیض کے آگے کوئی دیوار اتنی مضبوط نہیں تھی جسے گرایا نہ جا سکتا ہو۔

میڈیا نے تنگ کرنے کوشش کی تو میڈیا خود تنگ ہو گیا۔ صحافیوں کی ذمہ داری ایف آئی اے نے اٹھائی، اور سیاستدانوں کی نیب نے۔ اپوزیشن نے سینیٹ میں اکثریت ہونے کے باوجود اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہا تو ان کے اپنے اراکین عمران خان کی صف میں غائبانہ آ کھڑے ہوئے۔ مولانا صاحب ہزاروں کارکنان کے ساتھ سڑکوں پر آئے۔ اور حکومت کے خاتمے کا اعلان کیا مگر اچانک سے سرگوشی ایسی ہوئی کہ مولانا صاحب بوریا بستر باندھ کر واپس چل دیے اور جب کچھ معاملات قابو سے باہر ہونے لگے تو عمران خان کے فیض میں اس قدر روحانیت موجود تھی کہ پاکستان کی بڑی بڑی عدالتیں بھی قانون کی کتابوں کو آگ لگا کر عمرانیات کا سبق دینے لگیں۔

ایک وقت ایسا بھی آیا جب عمرانیات کا سحر اس قدر سر چڑھ کر بولا کہ معزز ججز اپنے ساتھی ججز کے سروں پر چڑھنے لگے۔ نواز شریف غصے میں تھے اور یہ وہ وقت تھا جب ان کے انقلابی خون میں پلیٹلیٹس کی تعداد بھی بڑھ رہی تھی اور ان کی پیاری بیٹی مریم نواز پاکستان میں مہینے میں ایک آدھ دفعہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف چہل قدمی کرنے جاتی رہیں، بس کبھی کبھی جوش و ولولے میں تقاریر کی وجہ سے ان کا گلا خراب ہوتا رہا تو وہ وقتاً فوقتاً خاموشی بھی اختیار کرتی رہیں۔ شہباز شریف نے رہا ہونے کے بعد نواز شریف کو باور کرانے کی کوشش کی کہ ’’اگر آپ کو اپنی شمع پھر سے جلانی ہے تو تیل میرا استعمال کرنا ہوگا‘‘۔ اور یوں ن لیگ میں چچا بھتیجی کے اندرونی اختلافات نے پارٹی کو اتنا کمزور کر دیا کہ ن لیگ کے کئی سینیئر رہنما کھل کر مریم نواز کے اور کئی کھل کر شہباز شریف کے کیمپ میں آ بیٹھے۔

مگر جہاں اپوزیشن کی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں کشمکش میں مبتلا تھیں کہ موجودہ صورتحال میں اپنے لئے سیاسی جگہ کیسے پیدا کی جائے تو وہیں اس دوران آصف زرداری نصرت فتح علی خان کا گیت 'میرے رشکِ قمر' سن کر اپنا دل بہلانے میں مصروف تھے۔ اب نہ جانے اس گیت میں کیا جادو تھا کہ عمران خان رفتہ رفتہ اپنے فیض سے محروم ہوتے گئے اور ایک دوسرے کی بسم اللہ پر بھی بھروسہ نہ کرنے والے زرداری اور نواز شریف پھر سے ایک پیج پر آ گئے۔ عمران خان جس پیج کا حوالہ دے کر مثالی سول ملٹری تعلقات کا دعویٰ کرتے آ رہے تھے اس نے خود کو پلٹنا شروع کر دیا۔

اور پھر یوں ہوا کہ راستے یکجا نہیں رہے

وہ بھی انا پرست تھا میں بھی انا پرست

دیکھتے دیکھتے گذشتہ سال سردیوں کی ایک شام عمران خان مکمل طور پر اپنے فیض سے محروم ہو گئے۔ تب سے ہی اسلام آباد میں بہت مارا ماری ہے۔ عمران خان پر مر مٹنے والے اس وقت سندھ ہاؤس میں بھنڈی کھانے میں مصروف ہیں۔ اور راولپنڈی کے لوگ صلح صفائی کروانے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھا رہے اور اسی دوران رائیونڈ سے صدائیں اٹھ رہی ہیں کہ:

تمہاری انجمن سے اٹھ کے دیوانے کہاں جاتے

جو وابستہ ہوئے تم سے وہ افسانے کہاں جاتے

اس وقت سیاسی صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں نیم جمہوری حکومتوں کے سلسلے کو 14 سال ہو گئے ہیں، اور آخری سال پر سٹہ لگ رہا ہے کہ حکومت اپنی مدت پوری کر پائے گی یا نہیں۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا ماننا ہے کہ گذشتہ 4 سال میں عمران خان کی حکومت نے جمہوریت کی عمارت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور اس کی از سر نو تعمیر کے لئے شہباز شریف کو ٹاسک دے دیا گیا ہے کیونکہ سیاسی اور غیر سیاسی پنڈتوں کو لگتا ہے کہ موجودہ صورتحال میں عمارت کی از سر نو تعمیر کے لئے جو فوجی سیمنٹ درکار ہوگا، اس تک شہباز شریف کی سب سے زیادہ رسائی ہے۔ مگر مجھے امید ہے کہ ن لیگ کو اس بات کا احساس ہے کہ عمارت صرف سیمنٹ پر قائم نہیں رہتی۔ اس کے لئے سریا بھی درکار ہوگا جس تک رسائی آصف زرداری کی ہے اور جمہوری عمارت کی تعمیر سے پہلے اگر عمران خان پھر سے فیض یاب ہو گئے تو ان کی گردن میں جو سریا آئے گا اسے سیاسی جماعتیں شاید ہی برداشت کر پائیں۔