پول سرویز نے ڈیوی کی فتح کا اتنا یقین دلایا ہوا تھا کہ ملک کے ایک اہم روزنامے، دی شکاگو ٹربیون نے ایک قدم آگے بڑھ کر حتمی نتائج سے پہلے ہی ڈیوی کی فتح کی خبر شائع کر دی۔ اخبار کی اشاعت تک ابھی نتائج آ رہے تھے۔ لیکن حتمی نتائج نے تمام پول سرویز پر سکتہ طاری کر دیا۔ ٹرومین نے 49.6 فیصد، جبکہ ڈیوی نے 45.1 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ پول سرویز کے قدموں تلے اُس وقت زمین نکل گئی جب ڈیوی کے 189 الیکٹورل ووٹوں کے مقابلے میں ٹرومین نے شاندار 303 ووٹ حاصل کر لیے۔ نتائج والے دن مسکراتے ہوئے ٹرومین نے شکاگو ٹربیون کی ایک کاپی کے ساتھ تصویر بنوائی، جس پر ڈیوی کی جیت کی ہیڈلائن قبل از وقت شائع کی گئی تھی۔
پاکستان میں 1970 کے عام انتخابات میں بھی کچھ ایسا ہی دیکھنے میں آیا۔ اگرچہ اُس وقت کسی اہم پولنگ ایجنسی نے سروے نہیں کیا تھا لیکن کچھ اخبارات اور سرکاری ایجنسیوں نے انتخابات سے پہلے اپنے طور پر سرویز کروائے تھے۔ برطانیہ کے اہم ترین اخبارات میں سے ایک، دی گارڈین نے 9 دسمبر 1970 کو اپنی اشاعت میں رپورٹ شائع کی کہ پاکستانی حکومت (جس کی قیادت اُس وقت جنرل یحییٰ خان کے پاس تھی)، اور سیاسی پنڈت انتخابات میں عوامی لیگ کی جیت پر ششدر رہ گئے ہیں۔ اُن انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے مغربی پاکستان سے، اور مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان سے کامیابی حاصل کی تھی۔ سیاسیات کے ماہر، فلپ ای جونز اور گریگ بیکسٹر، جنہوں نے 1970 کے انتخابات کو قریب سے مانیٹر کیا تھا، کے مطابق سرکاری ایجنسیوں اور سیاسی پنڈتوں نے معلق پالیمنٹ کی پیش گوئی کی تھی۔
جماعتِ اسلامی کی طرف جھکاؤ رکھنے والے ایک اخبار، جسارت نے حتمی نتائج سے پہلے ہی ہیڈلائن شائع کر دی۔ ہیڈلائن میں انتخابات میں جماعتِ اسلامی کی شاندار کارکردگی کوسراہا گیا تھا۔ حقیقت میں وہ صرف چار نشستیں جیت پائی تھی۔ عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان سے انتخابات میں بھرپورکامیابی حاصل کی، جبکہ پی پی پی نے مغربی پاکستان کے دو بڑے صوبوں، پنجاب اور سندھ، میں میدان مار لیا۔ اسٹیبلشمنٹ، جو اپنے سرویز اور پیش گوئیوں کی بنا پر معلق پارلیمنٹ کی توقع کر رہی تھی، کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔
1970 میں برطانیہ کے ووٹروں نے اُس سال ہونے والے انتخابات میں تمام سرویز اور پیش گوئیوں کو الٹ کر رکھ دیا۔ برطانیہ کے بے حد مؤقر جریدے، "Public Opinion Quarterly" نے جون 1970 سے پہلے تمام انتخابی سرویز کے نتائج شائع کیے۔ اُن کے مطابق لیبر پارٹی کو کنزرویٹو پارٹی پر سات فیصد برتری حاصل تھی۔ ہونے والے چار اہم سرویز میں سے صرف ایک کا کہنا تھا کہ کنزرویٹو کو لیبر پر ایک فیصد لیڈ مل سکتی ہے۔ لگتا تھا کہ لیبر پارٹی واضح اکثریت حاصل کر لے گی۔ لیکن جب نتائج آنا شروع ہوئے تو سرویز کے بل بوتے پر پیش گوئی کرنے والے اپنے سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ کنزرویٹو پارٹی 330 نشستوں پر جیت گئی تھی۔ اس نے 1966 کے انتخابات کے مقابلے میں 80 نشستیں زیادہ حاصل کی تھیں۔
بھارت میں 2004 کے عام انتخابات میں کم وبیش ہر اہم الیکشن سروے پیش گوئی کر رہا تھا کہ بی جے پی اور اُس کی اتحادی جماعتیں بہت آرام سے جیت جائیں گی۔ کانگرس اوراس کی اتحادی جماعتیں کہیں بہت دور دوسرے نمبر پر آتی دکھائی دیتی تھیں۔ لیکن نتائج نے بے جی پی کو ہلا کررکھ دیا کیونکہ وہ اور اُس کی اتحادی جماعتیں پول سرویز پر تکیہ کرتے ہوئے اپنی جیت کے بارے میں بہت پر امید تھیں۔ لیکن جب نتائج آئے تو بی جے پی 138 نشستیں لے پائی تھی، جبکہ کانگرس 218 نشستوں کے ساتھ بہت آگے تھی۔ ایک اور غیر متوقع نتیجہ لیفٹ فرنٹ کا 54 نشستیں جیت جانا تھا۔ اُن سرویز پر شدید تنقید بھی کی گئی کیونکہ وہ شہروں میں بی جے پی کی زبردست انتخابی مہم سے بہت متاثر ہوتے ہوئے وسیع وعریض دیہی علاقوں میں کانگرس کی مقبولیت کو نظر انداز کر گئے تھے۔
اس وقت امریکہ پول سرویز کا سب سے جدید اور منظم نظام رکھتا ہے۔ الیکشن پر عوام کے رجحان پر نظر رکھنے، اور نتائج کی جانچ کرنے والی ہر اہم تنظیم امریکی صدراتی انتخابات کے موقعہ پرپیش گوئیاں کرتی ہے۔ درجنوں میڈیا ہاؤسز بھی رجحانات کا اندازہ لگاتے اور پیش گوئی کرتے ہیں۔ لیکن 2016 کے صدارتی انتخابات کے موقعہ پر 95 فیصد سے زائد پول سرویز ڈیموکریٹک امیدوار، ہلیری کلنٹن کی کامیابی کی پیش گوئی کر رہے تھے۔ اُنہیں ٹرمپ جیسے متنازع امیدوار کے مقابلے میں واضح برتری ملتی دکھائی دیتی تھی۔ اگرچہ مس کلنٹن کو ٹرمپ کے 46.1 فیصد کے مقابلے میں 48.2 فیصد مقبول ووٹ حاصل ہوئے، لیکن تمام پول سروے کرنے والے یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ ٹرمپ نے اُن ریاستوں میں بھی کامیابی حاصل کی تھی جو جائزوں کے مطابق ڈیموکریٹس کی طرف جھکاؤ رکھتی تھیں۔
چنانچہ پاکستانی انتخابات میں پول سرویز اور جائزوں پر تکیہ کرنے والوں کو چاہیے کہ خود کو کسی بھی حیران کن نتیجے کے لئے ذہنی طور پر تیار رکھیں۔