عمران خان کا روس سے پٹرولیم مصنوعات 30 فیصد سستی لینے کا بیانیہ غلط ثابت ہوگیا

08:03 AM, 24 May, 2022

نیا دور
عمران خان کا روس سے پٹرولیم مصنوعات 30 فیصد سستی لینے کا بیانیہ غلط ثابت ہوگیا ہے۔

وزارت خارجہ کا کہناہے کہ ماسکو سے رعایتی نرخ کا خط نہیں ملا تھا۔ ترجمان پٹرولیم ڈویژن کا کہنا ہے کہ روس کی جانب سے رعایتی قیمتوں پر پٹرولیم مصنوعات فراہم کرنے کا کوئی دستاویز ی ثبوت نہیں ہے۔

سابق وزیر اعظم کے دورہ روس کے موقع پر خام تیل، پٹرولیم مصنوعات اور ایل این جی ایجنڈے میں شامل نہیں تھی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ طویل مدتی معاہدوں سے متعلق سابق حکومت نے 30 مارچ کو روس کو خطوط لکھے ، جب کہ اپوزیشن نے 8 مارچ کو تحریک عدم اعتماد جمع کی تھی اور 11 اپریل کو حکومت فارغ ہوگئی تھی۔

ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ عالمی پابندیوں کے سبب اگر روس رعایتی قیمتوں پر پٹرول / گیس فراہم کرنے کی پیش کش بھی کرتا تو پاکستان کیلئے اس کا حصول ممکن نہ تھا۔

تفصیلات کے مطابق، دی نیوز میں شائع ہونے والی خالد مصطفیٰ کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کا روس کی جانب سے سستی ایل این جی، خام تیل اور پٹرولیم مصنوعات فراہم کرنے کا بیانیہ غلط ثابت ہوگیا ہے کیوں کہ پٹرولیم ڈویژن کے پاس اس کا کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ روس نے فیول اور گیس عالمی مارکیٹ کے مقابلے میں 30 فیصد کم قیمت پر فراہم کرنے میں آمادگی دکھائی ہو۔

پٹرولیم ڈویژن کے ترجمان اور جوائنٹ سیکرٹری ڈیولپمنٹ سید زکریا علی شاہ نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ ہمارے پاس اس بات کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے کہ روس نے پی ٹی آئی حکومت کو خام تیل، پٹرولیم مصنوعات یا ایل این جی 30 فیصد کم قیمتوں میں فراہم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہو۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے 24-25 فروری کو روس کا دورہ کیا تھا جس کے ایجنڈے میں پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن منصوبہ بھی شامل تھا۔ 25 فروری 2022 کو عمران خان نے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے 3 گھنٹے ملاقات کی تھی۔ تاہم، پٹرولیم ڈویژن کے اعلیٰ حکام کا کہنا تھا کہ دورہ روس کے موقع پر خام تیل، پٹرولیم مصنوعات اور ایل این جی ایجنڈے میں شامل نہیں تھی۔

تاہم،وزارت اور تکنیکی سطح پر پاکستان اور روس نے ایل این جی درآمدات پر بات کی تھی البتہ منٹس آف میٹنگز میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ روس نے ایل این جی اور فیول 30 فیصد کی رعایتی قیمتوں پر فراہم کرنے کی پیش کش کی ہو۔ تاہم، ترجمان کا کہنا تھا کہ سابق حکومت نے 30 مارچ کو روس کو وزارت خارجہ امور کے ذریعے خطوط لکھے تھے.

ایک خط پٹرولیم ڈویژن کی جانب سے لکھا گیا تھا اور دوسرا خط اس وقت کے وزیر توانائی حماد اظہر کی جانب سے لکھا گیا تھا جس میں فروری، 2022 میں پاکستانی وفد کے دورہ روس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان، روس کے ساتھ خام تیل، پٹرولیم مصنوعات اور ایل این جی رعایتی قیمتوں پر درآمد کرنے کے لیے طویل مدتی معاہدوں کے لیے آمادہ ہے۔ پٹرولیم ڈویژن نے وزارت خارجہ امور کو بھی لکھا کہ کیا اب تک روس نے ایل این جی یا پٹرولیم مصنوعات کے کسی رعایتی ٹیرف کی پیش کش کی ہے۔

اپریل 2022 کے پہلے ہفتے تک اس ضمن میں دو یاددہانی خطوط بھی ارسال کیے گئے، جس کے جواب میں وزارت خارجہ امور نے کہا کہ اسے روس کی جانب سے مذاکرات اور پٹرولیم مصنوعات اور ایل این جی 30 فیصد کی رعایتی قیمتوں پر فراہم کرنے سے متعلق کوئی خط موصول نہیں ہوا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سابق وزیراعظم نے روس سے واپس آنے کے بعد اپنے اعلامیے میں بھی اس بات کا ذکر نہیں کیا تھا کہ ماسکو نے پاکستان کو خام تیل، پٹرولیم مصنوعات اور ایل این جی 30 فیصد سستی فراہم کرنے کی کوئی پیش کش کی تھی۔

اہم بات یہ ہے کہ پٹرولیم ڈویژن اور وزیرتوانائی نے خطوط لکھنے میں ایک ماہ سے زائد کا وقت لیا۔ جب کہ اپوزیشن نے 8 مارچ، 2022 کو قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کی تھی۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ روس کے ساتھ 30 فیصد سستی پٹرولیم مصنوعات یا ایل این جی خریداری پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا۔

خط کے مطابق، اس وقت کے وزیر توانائی حماد اظہر نے 30 مارچ، 2022 کو اپنے روسی ہم منصب نکولائی شلگینوو کو خط لکھا اور ان کی توجہ بین الحکومتی معاہدے (آئی جی اے) کی جانب مبذول کروائی جو کہ دونوں دوست ممالک کے درمیان 2017 سے قابل عمل ہے۔

روسی وزیر توانائی کو آگاہ کیا گیا کہ پاکستان دو طرفہ تعلقات میں اضافے کا خواہاں ہے لہٰذا جی2جی بنیاد پر ایل این جی کی فراہمی کا معاہدہ جلد از جلد طے کیا جائے۔

ابتدائی طور پر وزیر توانائی نے روس کو تجویز دی کہ وہ ماہانہ دو سے تین ایل این جی کارگوز فراہم کرے جو کہ 140000 کیوبک میٹرز ایل این جی پر مشتمل ہو۔
مزیدخبریں