پاکستان کی ترقی کا نسخہ: 'عورت کو عملی طور پر مرد کے برابر سمجھا جائے'

پاکستان کی ترقی کا نسخہ: 'عورت کو عملی طور پر مرد کے برابر سمجھا جائے'
عورت معاشرے کا ایسا ستون ہے جس کے بغیر کوئی بھی معاشرہ ترقی یافتہ، تہذیب یافتہ نہیں ہو سکتا۔  معاشرہ ترقی یافتہ ہو یا ترقی پذیر، شہر ہو یا دیہات، گھر ہو یا کاروبار ہر جگہ عورت اک مضبوط ستون ہے۔ جب سے دنیا وجود میں آئی ہے عورت اور معاشرے میں اس کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم، زیادتی اور منفی برتاؤ کا موضوع زیر بحث رہا ہے۔ دنیا کی آدھی آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ پاکستان کی 52 فیصد آبادی بھی خواتین پر مشتمل ہے۔ آج کل کے مہذب، تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ دور میں بھی عورتوں کو کئی ممالک میں محدود مواقع میسر آتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بھرپور طریقے سے اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں ناکام ہوتی ہیں۔ نا جانے کیوں عورت کو معاشرتی طور پر کمتر سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی خواتین کو معاشرے میں ترقی کے برابر مواقع میسر نہیں ہیں۔ صنعتی اداروں میں محنت کش خواتین کا استحصال کیا جاتا ہے۔ بہت سے اداروں میں آج بھی خواتین کی تنخواہیں مرد ورکروں کے برابر نہیں ہیں۔ گھروں میں کام کرنے والی خواتین سے بھی سستی محنت لی جاتی ہے۔ فیکٹریوں اور دفاتر میں جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں بے شمار تعلیم یافتہ خواتین جو مختلف شعبوں میں اپنی خدمات سرانجام دے کر ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہیں وہ گھروں میں بیکار بیٹھی ہیں کیونکہ آج بھی ہمارے معاشرے میں خواتین کی ملازمت کو برا سمجھا جاتا ہے۔ بہت سے والدین صرف اس ڈر سے اپنی بیٹیوں کو نوکری کرنے کی اجازت نہیں دیتے کہ لوگ کیا کہیں گے کہ بیٹی کو کام پر بھیج رہے ہیں اور بیٹی کی کمائی کھا رہے ہیں۔ بہت سے والدین سمجھتے ہیں کہ دفاتر میں ان کی بچیوں کی عزت محفوظ نہیں کیونکہ نجی و سرکاری دفاتر میں خواتین کو جنسی طور پر حراساں کرنے کے بہت سے واقعات اکثر و بیشتر ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔ آئے روز اس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں، والدین تشویش کا اظہار تو کرتے ہیں مگر بے عزتی کے ڈر سے سامنے نہیں آتے، قانونی کارروائی کے بجائے خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں اور جب تک والدین کی جانب سے خاموشی اختیار کی جائے گی ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔ اس طرح کے واقعات میں کمی تب ممکن ہے جب متاثرہ خواتین یا والدین بلا خوف و خطر ایسے واقعات کے خلاف کھڑے ہوں تاکہ پھر کسی کی بیٹی کے ساتھ ایسا واقعہ پیش نا آئے۔

قیام پاکستان سے لے کر آج تک مختلف حکومتوں کی جانب سے عورتوں کے لئے بے شمار قوانین بنائے گئے۔ قوانین بنائے جاتے ہیں مگر ان پر عمل درآمد نہیں کرایا جاتا۔ سن 1976 میں انسداد جہیز کا قانون بنایا گیا تھا مگر آج تک یہ قانون عملی طور پر نافذ نہیں ہو سکا۔ صرف یہی نہیں بلکہ خواتین پر تیزاب پھینکنے کے خلاف بل منظور ہوا اور خواتین پر تیزاب پھینکنے اور جلانے والے کو 14 سال قید اور 10 لاکھ جرمانے کی سزا مقرر کی گئی اور پھر مختلف صوبائی اسمبلیوں نے بھی اسی طرح کے بل پاس کئے مگر واقعات میں کمی نا آ سکی کیونکہ بل منظور ہو کر قانون کا حصہ تو ضرور بن گئے مگر قانون پر عمل در آمد کوئی نا کروا سکا۔ کراچی کی ایک نوجوان بیٹی راحیلہ رحیم پر رشتے سے انکار پر تیزاب پھینکا گیا، سالوں گزر گئے مگر ملزمان کو سزائیں نا ہو سکیں، آج بھی راحیلہ اور اس جیسی بے شمار متاثرہ لڑکیاں اور خواتین انصاف کی طلبگار ہیں۔

پاکستان میں زچگی کے دوران عورتوں کی کثیر تعداد جان کی بازی ہار جاتی ہیں اور بچوں کی اموات ہو جاتی ہے کیونکہ سرکاری اسپتالوں میں سہولتیں نا ہونے کے برابر ہیں اور غریب خواتین کی پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج معالجے کی استطاعت نہیں ہوتی۔ حکومت کو چاہئے کہ عورتوں کو صحت کی بہترین سہولتیں فراہم کرے اور جھوٹے وعدوں کے بجائے عملی طور پر اقدامات کرے اور خواتین کے حقوق کا تحفظ کرے۔