ٹریفک کی بڑھتی ہوئی لاقانونیت اور ہمارے رویے

ٹریفک کی بڑھتی ہوئی لاقانونیت اور ہمارے رویے
"ڈرائیور طوفان بدتمیزی  کی بدترین مثال پیش کرتے ہوئے تمام ٹریفک قوانین  کو پاؤں تلے روندتے چلا آ رہا تھا، جیسے ہی موٹروے ٹول پلازہ آیا، اس نے آناً فاناً سیٹ بیلٹ باندھی  اور موٹروے کے باقی تمام اصولوں کا پاسدار نظر آنے کی بھرپور کوشش کرنے لگا.

جتنی دیر وہ موٹروے پہ رہا، اس نے سیٹ بیلٹ باندھے رکھی، اپنی لائن پہ رہا،  ہر اوور- ٹیک سے قبل انڈیکیٹر دیتا رہا، اور ایک ذمہ دار شہری ہونے کے تمام حقوق پورے کرنے لگا، جیسے ہی  موٹروے سے  اترا، گویا وہ اپنی سرشت پہ واپس اتر گیا ہو۔ سب سے پہلا کام اس نے سیٹ بیلٹ اتارنے کا کیا جو اسکی شخصی آزادی میں رکاوٹ تھی۔ اب وہ تھا اور اس کی گاڑی، پھر وہی داستان شروع ہو گئی جس سے ایک زمانہ متاثر ہوا تھا،  وہ بنا اشارہ دیے گاڑیاں کراس کر رہا تھا۔ ٹریفک سگنلز توڑ کر گزرتا جا رہا تھا۔ ساتھ یہ بھی کہتا جا رہا تھا کہ پتا نہیں! کیوں لوگ موٹروے پر تو ٹریفک قوانین کی پاسداری کرتے ہیں اور عام سڑکوں پہ انہیں یہ عمل کرنے میں اتنی تکلیف ہوتی ہے۔

میں گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا اسکے فعال کو بغور جائزہ لیتا رہا تھا۔ یہ صرف اس ڈرائیور کا عمل نہیں بلکہ ہماری  پوری قوم کا المیہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ جیسے لوگ موٹروے پہ ٹریفک قوانین پہ عمل کرتے ہیں، ویسے ہی عام سڑکوں پہ کریں، لیکن ہم خود اپنی اس بات پہ عمل کرنے کو تیار نہیں اور اس سے بری حرکت یہ کہ ہم خود کو قصور وار نہیں گردانتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ باقی سب لوگ قانون پہ عمل کریں اور ہم ہر قسم کے قانون سے مستثنیٰ ہوں! بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی۔

جب ہم کسی کو عام شاہراہ پہ ٹریفک قوانین پہ عمل کرتے دیکھتے ہیں تو ہم یہ کہہ کر دل کی بھراس نکالتے ہیں کہ "ٹریفک قوانین کی پاسداری تو ایسے کر رہا ہے جیسے یہ امریکا ہو"

لیکن اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو یہی لوگ موٹروے پہ قوانین کے عین مطابق گاڑی چلاتے ہیں۔ اس عمل کے پیچھے بنیادی وجہ ہے" موٹروے پولیس" ۔

جیسے ہی گاڑی موٹروے پہ چڑھتی ہے، ہم یہ جان لیتے ہیں کہ اگر ہم نے سیٹ بیلٹ نا باندھی، اوور سپیڈنگ کی، کوئی ٹریفک قانون توڑا تو بنا رنگ، نسل، زات پات کہ ہمارا چلان ہو گا۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ موٹروے پہ ڈرائیور اور طریقے سے گاڑی چلاتا ہے اور عام سڑک پر کسی اور طریقے سے، موٹروے پہ وہی ڈرائیور ہر قسم کے قانون پر عمل کرتا ہے اور باہر اسے اسی قانون پہ عمل کرتے ہوتے موت پڑتی ہے۔ ان دونوں عوامل کے پیچھے ایک ہی چیز غیر مشترک ہے وہ ہے "سزا کا خوف"

ہم جانتے ہیں کہ اگر موٹروے پہ غلطی کریں گے تو غلطی کی سزا ہر حال میں ملے گی، اگر وہی غلطی عام سڑک پہ کریں گے تو اپنا "ریفرنس "استعمال کر کے چھوٹ جائیں گے.

پاکستان میں روڈ ٹریفک ایکسیڈنٹس (RTA)  کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ زیادہ تر حادثات عام سڑکوں پہ ہوتے ہیں جبکہ موٹروے پہ انہی حادثات کی تعداد نہایت کم ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم موٹروے پولیس کی سختی کی وجہ سے قانون پہ عمل کرتے ہیں جبکہ عام شاہراہ پہ ہم قانون پہ عمل کرنے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ہم قوانین پہ عمل کرنا اتنا ہی پسند کرتے ہیں جتنا ہم کرنا چاہتے ہیں۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ ٹریفک قوانین تو موجود ہیں لیکن ہم ان قوانین پہ عمل ہی نہیں کرنا چاہتے۔ ٹریفک قوانین کی پابندی کو ہم اپنی توہین کیوں سمجھتے ہیں؟ جو چیز سب سے زیادہ افسوناک ہے وہ یہ ہے کہ ہم جب کسی قانون کو توڑتے ہیں تو ہم بجائے ندامت محسوس کرنے کہ بڑے فخریہ انداز سے بتاتے ہیں کہ میں نے فلاں دن فلاں قانون توڑا تھا، جب کوئی ہمیں ٹو کے تو ہم بڑی ڈھٹائی سے اپنی غلطی کو ڈیفینڈ کرتے ہیں۔

اگر کسی نے ہماری منافقت اور قانون کی پاسداری دیکھنی ہے تو وہ ہمیں موٹروے اور عام سڑک پہ گاڑی چلاتا دیکھ لے، موٹروے پہ ہم ہر قانون کی پاسداری کرتے دکھائی دیں گے اور عام سڑک پہ ہم ہر قانون سے بالاتر ہیں۔

اب سوال یہ ہے اس منافقت اور دوغلے پن کا، جس کا ہم سب شکار ہیں اس سے کیسے جان چڑھائی جائے؟ اس کے دو حل ہیں: ایک یہ کہ پورے ملک کی ٹریفک مینجمنٹ کا انتظام موٹروے پولیس کو دے دیا جائے، یہ حل تقریباً ناممکن ہے جبکہ دوسرا حل یہ ہے کہ سٹی ٹریفک پولیس کو موٹروے پولیس کی طرح مکمّل اختیار دیا جائے۔ انہیں اس بات کا پابند کیا جائے کہ جو بھی ٹریفک قوانین کی پاسداری نہیں کرے گا۔ اسے سزا ملے گی چاہے وہ کسی MPA  کا بھتیجا ہے یا کسی MNA کا بھانجا، کوئی بھی سزا سے مستثنی نہیں۔ دیکھا جائے تو یہ حل بھی تقریباً ناممکن ہے۔

اس سارے مسئلے کا ایک ہی حل ہے وہ ہے "will power"۔  ٹریفک قوانین کی پاسداری انسان قوت ارادی سے حاصل کر سکتا ہے جب انسان کے دل و دماغ میں کوئی ارادہ پنپ رہا ہو تو اسکو انجام دینے میں دیر نہیں لگتی۔

یہی قوت ارادی خود داری اور عزت نفس اجاگر کرنے میں بھی معاون کردار ادا کرتی ہے۔ خود سے عہد کریں کہ ہم ٹریفک قوانین کی پاسداری کریں گے،  پاسداری موٹروے پولیس کے خوف سے نہیں بلکہ ایک مہذب ملک کے شہری ہونے کے ناطے کریں گے۔

جب لوگوں کو” کچھ نہیں ہو گا، کیا کر لے گی پولیس “ کا مفہوم رٹا ہوا ہو تو، عوام کے محافظ اور رکھوالوں پہ بھی کڑی نظر رکھنی پڑتی ہے۔ حکومت کو چاہیے ہر پولیس آفیسر کے ریکارڈ اور پرفارمنس پہ نظر رکھے اور وقتاً فوقتا انکو طلب کرتی رہے۔

قانون کا نفاذ وہاں بہترین طریقے سے ہوا کرتا ہے جہاں قانون سے بالاتر کوئی نہیں ہوتا۔ صرف اور صرف قانون کی حاکمیت اور بالادستی ہوتی ہے. ۔ اس  ضمن میں  "چالان" ٹریفک قوانین کی پاسداری کی ایک بہترین صورت ہے۔ مگر چالان بھی خالصتاً میرٹ پر ہونے چاہیئے ناکہ اپنا ماہانہ کوٹا پورا کرنے کے لئے۔

دوسری بات مٹھی گرم کرنے والی اور بریانی کی پلیٹ پہ اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے والی اس قوم میں شعور بیدار کرنے کے اشد ضرورت ہے۔ ہر شہر میں سیمینارز منقعد ہوں، پمفلٹس بانٹیں جائیں اور ہر گاڑی والے کی ٹریفک رپورٹ تھانے میں جمع ہو تاکہ بوقت ضرورت اسکو جزا یا سزا کا مستحق ٹہرایا جائے تو میرے خیال میں ٹریفک کی صورتحال بہت بہتر ہو سکتی ہے۔

بہرحال دوسروں کو نصیحت اور خود میاں فصیحت  بننے کی کوشش ہر کوئی کرتا ہے مگر ذاتی تربیت پہلے آتی ہے اسکا مواخذہ پہلے ہوتا ہے۔ تو اب چاہے لوگ ہنستے ہیں تو ہنستے رہیں۔فقرے کستے ہیں تو کستے رہیں،ہمیں ان قوانین کی پاسداری کرنی ہو گی۔ اپنے رول ماڈل خود بنیے، دوسروں کو نصحیت کرنے سے پہلے خود عمل کریں، اگر آپ ٹریفک قوانین کی پاسداری کرتے ہیں تو لوگ بھی آپ کو دیکھ کر کریں گے۔اگر آپ خود ان قوانین پہ عمل نہیں کرتے تو آپ کو دوسروں کو نصحیت کرنے کا کوئی حق نہیں۔

"دیر سے پہچنا، نا پہنچنے سے بہتر ہے"اس سائن بورڈ کو حقیقت میں صرف آپ ڈھال سکتے ہیں۔ اب یہ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آپ اس کو حقیقت میں کیسے ڈھالتے ہیں۔ موٹروے پولیس کے ڈر کی وجہ سے۔ مہذب شہری ہونے کی وجہ سے، یا اپنے کسی پیارے کو کھونے کے ڈر کی وجہ سے۔ خود کو ایک اچھا شہری ثابت کر کے فخر کرنے کے لئے وجہ کوئی بھی ہو سکتی ہیں مگر ایسے کام  کرنے سے قطعاً باز رہیے جس سے کسی انسان کا نقصان ہو۔ اللہ آپکے لئے آسانیاں پیدا کرے اور آپ کو آسانیاں بانٹنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین

 

 

مضمون نگار ڈاکٹر ہیں اور سر گنگارام ہسپتال لاہور میں آرتھوپیڈک سرجری کی ٹریننگ کر رہے ہیں۔