کام میں رکاوٹ ڈالی گئی تو وزیر اعظم اسمبلیاں توڑ دیں گے: اسد عمر

کام میں رکاوٹ ڈالی گئی تو وزیر اعظم اسمبلیاں توڑ دیں گے: اسد عمر
وزیر پلاننگ اینڈ ڈیلویلپمنٹ  اسد عمر نے کہا ہے کہ اگر کام میں رکاوٹ  ڈالی گئی تو وزیر اعظم عمران خان اسمبلیاں توڑ دیں گے۔ انہوں نے آج نیوز کے پروگرام میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ  عمران خان اس طرح کے بندے ہیں ہی نہیں جو سمجھوتے کریں۔ انکے کام میں رکاوٹ ڈالی گئی یا انہیں بلیک میل کیا گیا تو وہ اسمبلیاں توڑ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ  وہ عوام سے رجوع کر سکتے ہیں اور نئے الیکشن کرا سکتے ہیں۔

معاملے کا تناظر کیا ہے:

تجزیہ کار سلیم بخاری نے  24نیوز پر بات کرتے ہوئے  کہا ہے کہ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا  عمران خان مسلسل  طاقتور حلقوں کو  یہ کہتے آئے  ہیں کہ  اگر میں نہیں تو پھر کوئی نہیں۔ میں اسمبلیاں توڑ دوں گا اور پھر  پنجاب میں اور دوسری جانب ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں سے کوئی بھی آجائے گا پھر سنبھالتے رہیئے گا۔انہوں نے کہا کہ یہ پیغام بھی اسٹیبلشمنٹ کے لیئے تھا۔

سینئر صحافی افتخار احمد نے محتاط گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ  یہ دیکھنا ہوگا کہ اسد عمر نے کس سیاق و سباق میں بات کی۔ انہوں نے کیا اور کیوں کہا سوال کیا تھا۔ اگر عمران خان کو  آئین اجازت دیتا ہے تو وہ توڑ دیں پھر اسمبلیاں۔ وہ توڑ سکتے ہیں۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار احمد ولید  نے کہا کہ اس وقت جب کہ پی ڈی ایم میں بھی کوئی دم خم نہیں ہے یہ بیان معنی خیز ہے۔ بشیر میمن کے وزیر اعظم کے خلاف ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے جج کے خلاف  کیس بنوانے میں ایف آئی اے کو ملوث کرنے کے الزامات

بشیر میمن نے کیا کہا؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف تحقیقات کی ذمہ داری دینے کی کوشش اور وزیر اعظم سے ملاقات

مجھے وزیر اعظم ہاؤس سے فون آیا کہ ہماری میٹنگ ہے۔ میں گیا تو شہزاد اکبر اور اعظم خان موجود تھے۔ مجھے وزیر اعظم کے پاس لے گئے۔ مختصر سی ملاقات ہوئی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ بشیر ہمت کرنا آپ اچھے افسر ہیں۔ آپ نے ہمت کرنی ہے۔ اس کیس میں بھی مجھے تناظر کا معلوم نہیں تھا کہ یہ کس کیس کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔

وزیر قانون اور مشیر احتساب شہزاد اکبر سے ملاقات

شہزاد اکبر نے مختصر ملاقات کے بعد اپنے گھر لے جا کر مجھے بتایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیس بنانا ہے جس کے لئے انکوائری کرنی ہے۔ میں نے کہا معاف کیجیے آپ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بات کر رہے ہیں؟ سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج؟ اور ان کی اہلیہ؟ شہزاد اکبر نے کہا کہ ہاں تو کیا؟ میں نے کہا کہ کیا کر رہے ہیں؟ ایف آئی اے؟ حکومتیں ایسا نہیں کیا کرتیں۔ انہوں نے کہا کہ نہیں نہیں یہ سب قانونی طور پر جائز ہے۔ ہم تینوں نکلے اور وزیر قانون کے دفتر میں آ گئے۔ وہاں کمشنر انکم ٹیکس ڈاکٹر اشفاق اور فروغ نسیم تھے۔ کہا گیا کہ میمن صاحب کو تحفظات ہیں۔ جس پر آگے سے کہا گیا کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے اس میں معاملہ ٹھیک ہے۔ میں نے کہا کہ تحفظات نہیں بھائی وزیر اعظم کو ہمیں سمجھانا چاہیے کہ ایسے نہیں ہوتا۔ ایف آئی اے نہیں کر سکتی یہ۔ یہ سپریم جوڈیشل کونسل کا کام ہے۔ مجھے بالکل درست آئینی شق تو نہیں معلوم تھی لیکن بطور تفتیش کار مجھے یہ پتہ تھا کہ یہ میرے اختیار میں نہیں۔

سب سنبھال لیا جائے گا، آئین کو چھوڑیں: فروغ نسیم کے دفتر میں مکالمہ

مجھے کہا گیا کہ ہمارے پاس کاغذات موجود ہیں۔ فروغ نسیم نے کہا کہ کیا ہو گیا ہے؟ آپ نے تو کراچی میں نوکری کی ہے۔ کیا کبھی میں کوئی کیس ہارا ہوں؟ میں نے کہا خدا کا نام ہے۔ یہ سپریم کورٹ کا جج ہے اور ہم اس کے خلاف بیٹھ کر کیس بنا رہے ہیں۔ خدا کا واسطہ ہے۔ میں نے جھگڑا نہیں کیا لیکن میں نے کہا کہ آپ پاکستان کے آئین و قانون کو بدلنا چاہتے ہیں کہ ایف آئی اے ججز کی انکوائری کرے گی؟ جس پر شہزاد اکبر اور اعظم خان کہنے لگے کہ آئین کو چھوڑیے آپ، فروغ نسیم زیادہ جانتے ہیں۔

قانون کی دھجیاں بکھیر دینے پر مائل بیوروکریٹ کو بشیر میمن کی نصیحت

میں نے پھر اشفاق کو سمجھایا کہ دیکھو میں اور اعظم خان گریڈ 22 میں ہیں اپنے کریئر کے عروج پر ہیں ہم ایک سال میں چلے جائیں گے۔ تم جونیئر ہو تمہاری 9، 10 سال کی نوکری ابھی باقی ہے۔ یہ نہ کرو۔ ان کو تو کوئی پوچھے گا نہیں کندھا ہمارا استعمال ہو رہا ہے۔ ماحول میں ایک تناؤ پیدا ہو چکا تھا۔ مجھے معلوم ہوگیا کہ معاملات اب غلط جانب جانے لگے ہیں۔ میں نے اشفاق کو کہا کہ میں بطور ایس پی بطور آئی جی مجسٹریٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک کے سامنے پیش ہوتا رہا ہوں۔ ایک جج یہ لکھ دے کہ میں اپنے دفتر نہیں جا سکتا تو ختم سب کچھ۔

تم کیا کر رہے ہو اس سے تمہیں کیا ملے گا؟ تو آگے سے کہنے لگے کہ سر دیکھیں نا کہ انہوں نے فلاں فیصلہ ٹھیک نہیں کیا۔ وہ فیصلہ یوں تھا وغیرہ۔ مجھے ان کے فیصلوں میں دلچسپی تھی نہ ہی وہ میرا کام تھا۔  میں نے کہا کہ میں وزیر اعظم کو بھی ملا تو انہیں یہی سمجھاؤں گا۔

 

صحافی  فہد حسین کا کالم: جہانگیر خان ترین  سے لے کر نواز شریف اور بشیر میمن تک

سینئر صحافی  فہد حسین نے اپنے ایک کالم میں اسٹیبلشمنٹ کا موڈ بدلنے کی جانب اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے پی ٹی آئی  کے اندر موجود اختلافات  کے بارے میں بھی نشاندہی کی ہے۔

ریڈ زون میں یہ باتیں گردش کرتی رہتی ہیں کہ وزیر اعظم آفس وزیر اعظم تک رسائی اس طرح سے سنبھالتا ہے جسے طاقت کے کھیل اور پسند نہ پسند کا ملاپ کہا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک وزیر جس کے پاس گزشتہ دور میں ایک طاقتور ترین عہدہ رہا ہے اور وہ وزیر اعظم کو عرصے سے جانتا ہے، آج کل وزیر اعظم آفس کی وعدہ خلافی پر  اپنے تحفظات کے لیے ہمدردی پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس وزیر کو وزیر اعظم آفس میں اہم ترین لوگوں نے یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ جلد ہی وفاقی وزیر برائے داخلہ بنا دیا جائے گا۔ حتی' کہ اب اس وزیر سے متعلق یہ بھی ابٹیلجنس  رپورٹس ہیں کہ وہ خاموشی سے پی ٹی آئی مین اپنا گروپ بنانے میں مگن تھا۔ تادم یوم وہ وزیر سیاسی دشت کی سیاحی میں مصروف ہے۔ جہانگیر ترین کو یہ سب معلوم ہے۔

2۔ جہانگیر ترین گروپ نے اپنے نمبر دکھا دہئے ہیں۔ اور وہ اتنے ہیں کہ تحریک انصاف کی مرکز اور پنجاب کی حکومت کو کسی بھی وقت گرا دے۔  اس گروپ نے خون چکھ لیا ہے۔ بجٹ آنے والا ہے۔ کیا  پی ایم آفس اس بات کو ہضم کر پائے گا کہ وہ ایک گروپ کے ہاتھوں دباو میں لایا گیا۔ ریڈ زون کے ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ کچھ بھی حل نہیں ہوا۔ اور واقعات کو مئی کے اواخر سے پہلے ہو جانا ہے ورنہ جہانگیر ترین گروپ حکومت پر بھاری پڑنے لگے گا۔

3۔   پنجاب پی ٹی آئی کے سیاسی سرمائے کے مسلسل  بہنے کی وجہ بن رہا ہے۔  تحریک انصاف اس تاثر سے بھی مسلسل نبرد آزما ہے کہ اسکی پرفارمنس اوسط سے بھی کم ہے۔ کابینہ میں رد و بدل کے باوجود طاقتور حلقے خوش نہیں وہ سمجھتے ہیں کہ خان صاحب ایک اچھی ٹیم نہیں چن سکتے۔ اس حوالے سے یہ اہم ہے کہ ایک انتہائی اہم شخصیت نے چھ وفاقی وزرا کے گروپ سے ملاقات میں کہا کہ قابل افراد کو اپنی ٹیم میں لاو۔  ابھی تک کی تبدیلیوں میں فرخ حبیب کے علاوہ کوئی نئی تبدیلی نہیں ہے۔

مشہور زمانہ کابینہ ردو بدل سے بہت سے لوگوں کو امیدیں ہیں اور شاید اس کا ایک اور راونڈ بھی سامنے آئے۔ بہت سے امیدواروں کو بتایا گیا ہے ان کے نام یا تو وزرا یا پھر مشیر وزیر اعظم کے ناموں کے طور پر فائنل کئے جا چکے ہیں بس وزیر اعظم کو اب درست وقت کا انتظارہے۔ اس بات کو ہوئے ہفتوں بیت چکے ہیں اور اب خاموشی کی وجہ سے غیر یقینی بڑھ رہی ہے۔ نئے چہروں کی کابینہ میں شمولیت اقتدار کے اگلے اور آخری سالوں میں ایک نئی قوت لائے گی۔ کم از کم پی ٹی آئی پی ٹی آئی کو یہی بتا رہی ہے۔

کابینہ کی حالیہ رد و بدل کے بعد کابینہ اراکین میں ایک تناو پیدا ہو چکا ہے۔ جو کہ اہم وزارتوں سے غیر اہم وزارتوں کی جانب گئے ہیں وہ اپنے سابقہ عہدوں پر   آنے والوں کے لیئے  خاموش عداوت پال رہے ہیں اور دعا گو نہیں کہ پھر انہیں ناکام وزرا کے طور پر پیش کیا جائے گا۔  کپتان اور اسکی بیٹنگ لائن کی تمثیلات بس اتنا ہی کر سکتی ہیں۔

6۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی واپسی کے بعد سیاسی شطرنج پر نئی پالیسی کے ساتھ نئی چالیں سامنے آسکتی ہیں۔ گو کہ پنجاب میں ان ہاوس تبدیلی کے معاملے سے متعلق بحث سے ن لیگ نے اپنا دامن بچا لیا ہے تاہم اب متروکہ پی ڈی ایم کو دوبارہ سے فعال کرنے سمیت کچھ اور چالیں نظر آسکتی ہیں۔  ذرائع اس پر خاص توجہ دے رہے ہیں کہ اقتدار کے اصل ایوان ن لیگ کے وزرا کو اچھے الفاظ میں یاد کر رہے ہیں۔ خاص طور پر شاہد خاقان عباسی، انجینئر خرم دستگیر، احسن اقبال کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ لوگ قابل اور بیرون ملک سے اعلی'  تعلیم  سے بہرہ مند تھے۔

7۔ تازہ ترین یاد دہانی کراتے ہوئے ان طاقتور حلقوں نے قطعی طور پر کہا ہے کہ نواز شریف کو باہر بھجوانے میں انکا کوئی کردار نہ تھا بلکہ یہ فیصلہ وزیر اعظم عمران خان کا تھا۔

8۔ ایک اور  یاد دہانی کے طور پر  متعلقہ ذرائع نے بتایا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کو ریاست مخالف نہیں سمجھتی۔

9۔ پاکستان میں صدارتی نظام کی بحث ریڈ زون میں سلگ رہی ہے۔  کل منطق اس حوالے سے یہ دی جارہی ہے کہ ویسٹ منسٹر سسٹم صرف چند ممالک میں ہی کامیاب ہے جیسا کہ آسٹریلیا اور انگلینڈ۔ صدارتی نظام میں آپ ایک وزیر کو اس کی قابلیت اور نااہلی کی بنا پر رکھتے اور نکالتے ہیں نہ کہ اسکے الیکشن جیتنے کی صلاحیت کی وجہ سے۔

ریڈ زون میں اس بحث پر توجہ دینے والے کم ہیں تاہم یہ معاملہ سلگ رہا ہے۔ وزیر اعظم کھل کر اس کی حمایت میں آچکے ہیں جبکہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے اس کی مخالفت کر دی ہے۔

بشیر میمن کے انکشافات جنہوں نے وزیر اعظم  وزیر قانون، انکے مشیر  پر منفی روشنی ڈالی ہے وہ  قضی فائز عیسی' کیس کے ساتھ ٹائمنگ رکھتا ہے تاہم اسکی کوئی اہمیت تب ہی بن سکے گی جب اسے آفیشل سطح پر اٹھا لیا جائے ورنہ یہ صرف سیاسی بیانیوں  کے  چارے کے طور پر استعمال  ہوگا۔