حکومت کی جانب سے یہ اعلان کر دیا گیا کہ کورونا وائرس کے باعث اس سال پاکستان میں بکرا عید پر روایتی مویشی منڈیاں بند رہیں گی۔ یہ خطرہ لاحق ہے کہ روایتی مویشی منڈیاں وائرس کے مزید پھیلاؤ کا سبب بنیں گیں۔ اس کے ساتھ ہی پھر بلاشبہ یہ بھی واضح ہے کہ اس سال قربانی بھی نہں ہوگی۔
روایتی مویشی منڈیوں پر پابندی ہونی چاہیے لیکن جانوروں کی قربانی کے کوئی دوسرے ذرائع ڈھونڈنا ہوں گے۔ قربانی کی اس رسم کے انعقاد کے متبادل طریقہ کار ڈھونڈنے کی ذمہ داری حکومت پر آتی ہے۔ دیہی علاقوں میں چھوٹے پیمانے پر جانور پالنے والے کئی کسانوں کی سال بھر کی کمائی اور روزگار بکرا عید کے انہی تین دنوں میں اپنے جانور بیچنے پر منحصر ہے۔ حکومت کی جانب سے قربانی کے جانوروں کی خرید و فروخت پر یکسر پابندی ان کسان خاندانوں میں بھوک، بیماری اور اموات کا باعث بن سکتی ہے۔ ان بھیانک حالات میں مسلمان خاندانوں کے لئے مذہب ہی ایک تسلی ہے۔ وہ خود بھی ایک ایسی رسم کو ترک کر کے مطمئن نہیں ہوں گے جو کہ ان کے خاندان کے الہامی تحفظ کی ضامن ہے، یعنی سنت ابراہیمی۔
کورونا وائرس نے پاکستان کو بہتر طریقے سے قربانی کی رسومات متعارف کروانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ عارضی منڈیوں میں جانوروں کی خرید و فروخت کے باعث صارفین کے لئے نرخ بہت بڑھ جاتے ہیں۔ گھر بار میں جانوروں کی قربانی کے باعث فضلہ کوڑے کے ڈھیر کی صورت میں شہر بھر میں پڑا رہتا ہے جو عید کی چھٹیوں کے باعث کئی دن تک اٹھایا نہیں جاتا۔ بالخصوص غریب علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ وہ پہلے ہی تنگ گلیوں کے جڑے ہوئے گھروں میں رہتے ہیں جہاں اس فضلے کی بدبو ناقابل برداشت ہو جاتی ہے۔
کسی نے بھی سنت ابراہیمی کی صحیح معنوں میں ادائیگی پر توجہ نہیں دی۔ لوگ عارضی طور پر خرابے میں رہتے ہیں اور معاملات چلتے رہتے ہیں۔
اس سال حکومت پاکستان کے پاس موقع ہے کہ بکرا عید پر نیا طریقہ کار متعارف کروایا جائے۔ اس ضمن میں کچھ سفارشات درجِ ذیل ہیں:
قربانی کے جانوروں کی آن لائن فروخت کے لئے لائسنس کا نظام متارف کروایا جائے۔ ہر تجارتی مرکز پر ایک مستند جانوروں کا طبیب موجود ہو جو جانوروں کی اسلامی اصولوں کے مطابق تندرستی کی توثیق کر سکے۔ آن لائن مارکٹس کی مجازی تفصیلات خریدار کے لئے کافی ہونی چاہئیں۔ ہر جانور کو ایک حوالگی نمبر مختص ہونا چاہیے تاکہ رقم کی ترسیل کے دوران استعمال ہو سکے۔ ہر جانور کی قیمت، فی کلو کے حساب سے، حکومت کی طرف سی طے ہونا چاہیے۔ اگر کوئی تاجر زیادہ قیمت لے تو ایسے قانون موجود ہونے چاہئیں جن سے ریاست اور صارف اس تاجر کا احتساب کر سکے۔ وہ مویشی جو آن لائن ذرائع سے خریدے جائیں انہیں گھر لانے کا انتظام بھی ہونا چاہیے یا پھر قربانی ہی کو خریداری کی جگہ پر کرنے کے لئے صارف کو دکھانے کے واسطے آن لائن انتظام کیا جانا چاہیے کہ خریدار جانور کی قربانی کے دوران اپنے مذہبی عقائد کے مطابق دعائیں ادا کر سکیں۔ ہر خریدے گئے جانور کی تصویر خریدار کے پاس موجود ہونی چاہیے تاکہ باآسانی شناخت ہو سکے۔ جانور کا حوالگی نمبر جو خریدار کے سرٹیفکیٹ پر لکھا ہو قربانی کے وقت وہی نمبر جانور سے جڑا ہونا چاییے تاکہ خریدار کو تسلی ہو۔
تمام فروخت، قربانی کے لئے بکنگ، آن لائن ہی ہونی چاہیے اور رسیدیں ترتیب سے دی جائیں۔ وہ صارف جو کریڈٹ کارڈ استعمال نہیں کرتے انہیں رقم کی ترسیل کے لئے متبادل ذرائع میسر ہونے چاہئیں جیسا کہ تاجر کے اکاؤنٹ میں بالواسطہ ترسیل، ایزی پیسہ، جاز کیش اور ایسے مروجہ طریقہ کار استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
ایک معیاری فارم تاجر اور خریدار دونوں ہی کو پورا کرنا لازم ہونا چاہیے۔ اور اس کے ساتھ اس بات کی بھی وضاحت موجود ہونی چاہیے کہ صارف گوشت کی ترسیل کس طرح چاہتا ہے۔ کچھ لوگ شاید پیکٹس میں ایک خاص مقدار تقسیم کے لئے پیک چاہتے ہوں۔ آن لائن تاجر اس مقصد کے لئے مناسب پیکجز بھی متعارف کروا سکتے ہیں۔ کیونکہ کچھ لوگ اپنے استعمال کے لئے بھی یہ حصے استعمال کر سکتے ہیں۔ ترسیل کی تاریخ اور وقت باقی تفصیلات کے ساتھ شفاف طریقے سے طے ہونی چاہئیں۔
فضلہ ٹھکانے لگانے کی جگہ اور معیاری طریقہ کار کی پیروی حکومت کی جانب سے یقینی بنائی جانی چاہیے۔ یہ جگہیں رہائشی علاقوں سے مناسب فاصلے پر واقع ہونی چاہئیں اور تاجروں کی سہولت کا بھی خیال رکھا جانا چاہیے۔ دیہی جنگلات جنگلی جانوروں کو پالنے کی اچھی جگہیں ہیں۔ تاجر اس فضلے کو ٹھکانے لگانے کے لئے ٹرک استعمال کریں۔ اس سے آبادی کے لئے صحت کے مسائل بھی پیدا نہیں ہوں گے۔
تاجر اور صارف دونوں ہی کے لئے معیاری طریقہ کار کی پیروی یقینی بنانے کے لئے ضابطہ بنایا جائے۔ یہ ایک صدارتی آرڈیننس کی صورت میں ملک بھر میں نافذ کیا جا سکتا ہے۔
اس پلان کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ سنت ابراہیمی کی ادائیگی کی رسم کو ایک باضابط طریقہ کار میں لے آئے گی اور اسے ہر سطح پر بہتر کرے گی۔ اس سے مویشی پالنے کے معیاری اور صحت بخش طریقہ کار یعنی انفرادی طور پر ایک ڈاکٹر کی طرف سے سند کہ ہارمونز یا کوئی بناوٹی طریقہ کار استعمال نہیں کیا گیا، قیمت جو ہر جانور کے وزن کے مطابق طے کی جائے گی، قربانی کی آن لائن پلیٹ فارمز پر ادئیگی یقینی بن سکے گی، صاف اور شفاف منڈی کا لین دین، صفائی کے تقاضوں کے مطابق گوشت کی ترسیل اور کام کرنے والوں کی تنخواہ کی ضامن اور شفاف ادائیگی جیسے کئی حاصلات ہو سکتے ہیں۔
شہریوں کو یہ بتانا کہ وہ اس سال یہ رسم ادا ہی نہیں کر سکتے ایک غیر ضروری فعل ہے۔ اور اس میں حکومت کی بھی واضح ناکامی ہے کہ جب معاشرے میں اس رسم کو پہلے ہی کی طرح بغیر حکومت کے احکامات پر غور کیے منایا جائے گا۔ حکام جب عوام کو اس فرض کی ادائیگی سے جو ان کے مذہب نے انہیں حکم دیا ہے اور کسانوں کو منڈی میں انتہائی ضرورت کے باوجود ان کے مویشیوں کی فروخت سے روکیں گے تو ایک طرح سے بغاوت کو جنم دیں گے۔ اور اگر ایسا ہوا تو یہ صورتحال گذشتہ عیدوں سے زیادہ خرابی کا باعث بنے گی۔ تاجروں کے سکیورٹی اداروں سے نمٹنے جیسی وجوہات کے باعث قیمتیں بھی بڑھیں گی اور فضلے کی صفائی بھی وقت پر نہیں ہو سکے گی کیونکہ اس بار یہ قربانی حکومتی احکامات کے برخلاف ہوگی۔ حکومت کو یہ سب روکنا ہوگا۔