مولانا کا پڑھا لکھا ورژن، اور سامعین کی ’آمین‘

مولانا کا پڑھا لکھا ورژن، اور سامعین کی ’آمین‘
یہ 2009 کی بات ہے۔ لارنس روڈ، لاہور پر واقع ایک دفتر میں انٹرن شپ کر رہا تھا۔ یہ میری زندگی کی واحد نوکری تھی جہاں جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے ڈھائی گھنٹے کا وقفہ ملتا تھا۔ لیکن مجھے اس بات کا پتہ نہیں تھا۔ جب سب لوگ اٹھ کے گئے تو میں بھی نماز کے لئے اٹھ کر دفتر کے بالکل ساتھ والی مسجد میں نماز پڑھنے چلا گیا، ورنہ معمول کے مطابق آرام سے خطبہ شروع ہونے سے دو منٹ پہلے ہی نکلتا۔

اس وقت وہاں زیادہ رش تو نہیں تھا، البتہ مولانا صاحب بہت اونچی آواز میں وعظ فرما رہے تھے۔ بے ہنگم آوازوں پر تھوڑا غور کرنا شروع کیا تو سمجھ میں یہ آئی کہ ٹی وی چینلوں پر تنقید ہو رہی ہے۔ مجھے لگا شاید مولانا صاحب بھارتی چینلوں پر ’فحش‘ مناظر دکھائے جانے پر آزردہ ہیں۔ لیکن ایسا نہیں تھا۔



دراصل مولانا صاحب ’مذہبی‘ چینلوں کے content پر نالاں تھے۔ اور انتہائی زور و شور سے گرج رہے تھے کہ آج کل ٹیلی وژن چینلوں پر دین کو خراب کیا جا رہا ہے۔ وہ غمگین تھے کہ من گھڑت کہانیاں نبیؐ اکرم اور صحابہؓ کرام کے نام سے جوڑ کر ٹی وی چینلوں کے ذریعے سے عوام میں پھیلائی جاتی ہیں۔ اور پھر اللّٰہ پاک کے حضور رقت آمیز انداز میں دعا فرمائی، کہ

’’اے میرے اللّٰہ، ضعیف حدیث کی بات کرنے کی آزادی ہے، دین کے نام پر کذب پھیلانے کی بھی آزادی ہے۔ تو اے میرے رب، ہم تیرے آگے سجدہ ریز ہیں، گڑگڑا کر دعا مانگتے ہیں، کہ صحیح حدیث پھیلانے کا بھی سامان کر دے، قرآن کی بات بھی ہو، صحیح حدیث کی بات بھی ہو، حقیقی اسلام کی بھی کوئی بات کرے۔ میرے مالک، اے زمین و آسمان اور ان کے درمیان جو کچھ ہے، اس سب کے بنانے والے، تو ہمیں بھی ایک ٹی وی چینل عطا فرما!‘‘

سامعین نے باآوازِ بلند ’آمین‘ کہا تو میں ہوش میں آیا۔ یہ تو سب کے سب ایک جیسے ہیں۔ مولانا کو کوئی کیا کہے۔۔

اب دس سال بعد جب انہی مولانا کے ایک upper class ورژن نے اقوامِ متحدہ جا کر کم و بیش یہی اعلان فرمایا، تو یہ واقعہ یاد نہیں آیا۔ لیکن عشّاق کی عش عش دیکھی تو وہ چھتاں پھاڑ ’آمین‘ کانوں میں ایسی گونجی کہ میں ایک بار پھر چونک گیا۔







ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.