عمران خان پارلیمان کے ساتھ کھڑے ہوں، اصولی سیاست کا تقاضا یہی ہے

عمران خان پارلیمان کے ساتھ کھڑے ہوں، اصولی سیاست کا تقاضا یہی ہے
2014 میں جب انہوں نے غیر فطری سیاست کا آغاز کرنا چاہا تو نواز شریف انہیں سمجھانے بنی گالہ میں ان کے گھر چلے گئے مگر ان کو شیروانی کے شوق نے امن سے نہ بیٹھنے دیا اور انہوں نے دھرنوں کا آغاز کر دیا۔ میں نے اس وقت اپنے مضمون 'کپتان کے نام' میں ان کو تجویز دی تھی کہ پارلیمان کے اندر اور باہر دونوں جگہ دباؤ ڈالیں لیکن غیر آئینی سہاروں سے بچنے کی کوشش کریں مگر انہوں نے پارلیمان سے استعفے دیے اور بعد میں ان کو رسوائی کا سامنا کرتے ہوئے اسی اسمبلی میں واپس جانا پڑا۔

جیسے تیسے انہوں نے شیروانی تو پہن لی مگر وہ شاید یہ بھول گئے کہ کس طرح سے 2018 میں ریاستی وسائل کے استعمال سے ان کی غیر آئینی سیاست کو سہارا دے کر انہیں اقتدار میں لایا گیا۔ انہوں نے اپنے محسنوں کو بے نقاب کر کے اپنے ہی خلاف گواہیوں کا سلسلہ شروع کر لیا اور اس کا سب سے بڑا نقصان ان کو یہ پہنچا کہ ان پر سیاسی جماعتوں اور بین الاقوامی برادری کا تو پہلے ہی اعتماد ختم ہو چکا تھا، ملکی اداروں کا بھی رہا سہا اعتماد اٹھ گیا اور شاید اسی لئے ان کے آئینی مطالبات میں بھی وہ وزن نہیں رہا جو ایک سیاست دان کے مطالبات میں ہونا چاہئیے۔

ایک سال قبل ان کی حکومت ناپسندیدگی کی پستیوں کو چھو رہی تھی مگر پھر ان پر قسمت مہربان ہوئی اور ان سے پارلیمان کی عمارت زبردستی خالی کروا کے ان کی مقبولیت کو چار چاند لگوا دیے گئے۔ اپنے بدلتے بیانیوں اور بے نقاب ہوتی من گھڑت کہانیوں کے باوجود وہ عوام میں اپنی مقبولیت کو قائم رکھنے میں کامیاب رہے جس میں بہت بڑا کردار ان کے محسنوں کا بھی تھا اور حکومت کی مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں ناکامی کا بھی۔ لیکن عمران خان نے محسنوں کے ساتھ ساتھ اپنے نصیبوں کو بھی نہ بخشا اور اپنی مقبولیت کی بنیادوں پر ایک دفعہ پھر اقتدار حاصل کرنے کے لئے اپنی اسمبلیوں میں سیٹیں، اقتدار اور طاقت سب داؤ پر لگا دیا۔ ان کی ضد اور ضائع ہوتا اعتماد ان کو اکیلا کرتا چلا گیا۔ میرے جیسے جمہوریت پر یقین رکھنے والے ان کو اپنی حکمت عملی بدلنے کی تجاویز دیتے رہے مگر ان پر مقبولیت اور اقتدار کے حصول کا بھوت سوار تھا اور انہوں نے کسی کی ایک نہ سنی۔

جب ان کو سپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے استعفوں کی تصدیق کے لئے نوٹس آیا تو بھی میں نے لکھا کہ ان کے پاس قبلہ درست کرنے کا آخری موقع ہے مگر انہوں نے اس پر بھی کان نہ دھرا۔ وہ نئے الیکشن کو ہی تمام مسائل کا حل سمجھتے رہے۔ ان کو سمجھانے کی کوشش کی جاتی رہی کہ حکمت عملی بدلیں اور حزب اختلاف کے طور پر اپنا مثبت کردار ادا کریں، یہی راست سیاست اور جمہوریت کی خدمت ہے مگر انہوں نے ایک نہ سنی۔

ان کو کہا جاتا رہا کہ اسمبلیوں کو نہ توڑیں مگر وہ اپنی انا اور ضد پر قائم رہے اور حکومت کے ہاتھوں ٹریپ ہو گئے۔ اب وہ اس کا الزام بھی اپنے محسنوں پر ہی لگانے لگے ہیں۔ میں نے اس وقت بھی لکھا تھا کہ سیاست کا مقام چوک چوراہے نہیں بلکہ پارلیمان ہے۔ ان کو انتباہ کرتے رہے کہ چوک چوراہوں کی سیاست میں پھنس کر رہ جائیں گے مگر انہوں نے اس پر بھی توجہ نہ دی اور اپنا ناقابل تلافی نقصان کر بیٹھے۔

ان کو سمجھایا جاتا رہا کہ اس مقبولیت کے گھوڑے پر بہت سارے سواروں نے اپنا زور بازو آزما چکے ہیں اور ان کو کچھ حاصل نہیں ہوا۔ یہ گھوڑا کسی اور کا سدھایا ہوا ہے اور یہ دوڑ جیتنے کے لئے قبولیت اور معقولیت بھی درکار ہوتی ہے۔ اب وہ اپنی حکمت عملیوں کی ناکامی کی وجہ سے مجبوراً ان کے بقول چوروں کے ساتھ ایک بے توجہی کے ماحول میں بیٹھے ہیں اور اپنی طاقت اور کھویا ہوا اقتدار اور اسمبلیوں میں واپسی کی صورتوں پر غور کر رہے ہیں۔ مگر اب دیر ہو چکی ہے اور کوئی بھی ان پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ان کے سیاسی حریفوں ہی نہیں بلکہ غیر جانبدار تجزیہ کاروں کا بھی خیال ہے کہ وہ اس ملک میں سیاسی عدم استحکام کی سب سے بڑی وجہ ہیں اور جب تک ان کی مقبولیت کی خوش فہمی کو شکست نہیں دے دی جاتی ان کو اسی طرح سے عدالتوں اور سیاسی چالوں میں الجھا کر رکھنا چاہئیے۔

عمران خان کے سہولت کار بھی اپنے آپ کو بے نقاب کر بیٹھے ہیں اور ان کو کچھ حاصل بھی نہیں ہوا۔ اس ملک کی غیر جانبدار سوچ یہ سمجھتی ہے کہ عمران خان کے پاس سادہ عوام میں مقبولیت تو ہو گی جس کی بنیاد یقیناً ان کی کارکردگی پر نہیں بلکہ ان کے ساتھ ہمدردیوں کی بنیاد پر ہے۔ اس کے علاوہ اس مقبولیت کی وجہ سیاسی مخالفیں کی پالیسیوں کی وجہ سے بڑھتی مہنگائی کا عوامی غیض و غضب اور ان کے خلاف تعصب ہے۔ اب بھی اگر تحریک انصاف کو حکومت مل جائے تو ان کے پاس اس ملک کے مسائل کا کوئی حل ہے نہ حکمت عملی۔

اب ان کی 'میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو' والی پالیسی نہیں چل سکتی کہ جب چاہا اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی تعریف شروع کر دی اور جب چاہا تنقید کرنے لگے۔ اب انہیں اصولی سیاست کے ذریعے سے پارلیمان میں اپنا اعتماد بحال کر کے اپنی جگہ بنانی ہو گی۔

کم و بیش تمام جماعتیں ماضی میں اسی طرح کی غیر آئینی سیاست میں ملوث رہی ہیں مگر وہ اب اپنی غلیطیوں کا ازالہ کرنے کے لئے اصولی سیاست پر جمع ہو چکی ہیں لہٰذا عمران خان کو بھی ان کے ساتھ پارلیمان کی بالا دستی کے لئے کھڑے ہو جانا چاہئیے اور ریلیوں کی سیاست کو ترک کر دینا چاہئیے۔ اس سے ان کی مقبولیت کو کوئی نقصان نہیں ہو گا بلکہ غیر جانبدار اور مثبت سوچ کے حامل عوام کی ہمدردیاں بھی ان کے ساتھ ہو جائیں گی۔ چند ہفتوں کی بات ہے، بجٹ میں اپنا کردار ادا کریں، الیکشن بارے اصلاحات لائیں اور اس کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

ملکی اسٹیبلشمنٹ نے تو ان کی انگلی چھوڑ دی ہے مگر بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ ان کو استعمال کرنے میں اپنے حربے ابھی استعمال کر رہی ہے جس سے تحریک انصاف کو چوکنا رہنا چاہئیے اور اگر وہ ملک و قوم کے لئے مخلص ہیں تو پھر اصولی سیاست کی طرف متوجہ ہونا ہوگا۔ سیاسی عدم استحکام پیدا کر کے اور ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر کے انہیں بدنامی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔

اب عمران خان کے پاس سیاست میں اپنا مقام بحال کرنے کے لئے ایک ہی راستہ بچا ہے کہ وہ سوچ و عمل اور رویے سے اپنا اعتماد بحال کریں اور پاکستان کی سیاست میں اپنی جگہ بنائیں۔ تب ہی ان کی ساری سہولت کاریاں اور مقبولیت کی خوش فہمیاں کام آ سکتی ہیں۔

عمران خان کو ملک و قوم کے مفاد میں اخلاص کے ساتھ سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت کے ساتھ بیٹھنا ہو گا اور اس ملک کے مسائل کے حل کے لئے اپنا مثبت اور مناسب کردار ادا کرتے ہوئے ملکی ترقی کے سفر کا حصہ بننا ہوگا۔ اس وقت کوئی بھی سیاسی جماعت ہو یا قیادت، تنہا موجودہ عدم استحکام کے شکار سیاسی ماحول میں اس ملک کی تقدیر کو بدلنے کا حل نہیں رکھتی۔ سب کو باہمی اختلافات بھلا کر ایک ساتھ بیٹھنا اور کوئی جامع حل تلاش کرنا ہوگا۔ اس ملک و قوم کے لئے وہی مخلص ہے جو اتفاق اور بردباری کے ساتھ ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلنے کی سوچ اور عمل کے ساتھ سیاست کرے، تعمیری اختلاف کو جگہ دے اور مذاکرات کو برابری اور مسائل کے حل کی نیت اور کوشش کے ساتھ آگے بڑھائے۔

حکومت کا بھی مذاکرات میں رویہ قابل اطمینان نہیں اور ان کو بھی دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک انصاف کے مذاکرات کی میز پر آنے کو کمزوری نہیں بلکہ ملک کی بہتری کی خاطر خوشگوار ماحول کی طرف بڑھتے ہوئے قدم کے طور پر لے کر اس کو مزید بہتر بنانے میں کردار ادا کرنا چاہئیے۔ ان کو اس سے ملکی سیاسی استحکام کی خاطر مثبت سوچ کے ساتھ کامیابی کی راہیں تلاش کرنی چاہیں، نا کہ نفرت کو ہوا دے کر اس موقع کو ضائع کر دیا جائے۔ سب کو انا اور ضد چھوڑ کر مفاہمت کی کوئی راہ تلاش کرنی چاہئیے۔