ادیب ہونے کا دعویٰ اور ساتویں آسمان سے اونچا تکبّر

ادیب ہونے کا دعویٰ اور ساتویں آسمان سے اونچا تکبّر
اختلاف کو برداشت کرنا، تنقید جیسے کٹھن مرحلے کو سہنا، دوسرے کی رائے کا احترام کرتے ہوئے خاموشی اختیار کرنا، عمومی طور پر ہمارے ہاں آپ کی شکست سمجھا جاتا ہے اس لئے بول کر اور بے جا بول کر دوسرے فریق پر اپنی فتح کی دھاک بٹھانا حاضر جوابی اور عقلمندی کی دلیل سمجھی جاتی ہے۔ اور دوسرے فریق کی خاموشی ہمیں اس کی کمزوری اور شکست کا احساس دلاتی ہے۔ بنیادی اخلاقی بانجھ پن کا شکار ہمارا معاشرہ ’سوری‘ اور ’معذرت‘ جیسے حسین الفاظ کے سحر سے نابلد ہو چکا ہے جس کی جگہ ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی نے لے لی ہے۔ اسی ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کی ایک مثال جناب خلیل الرحمٰن قمر صاحب کی ذات ہے کہ جنہوں نے اپنے طرز تکلم سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ کوئی ادیب یا لکھاری نہیں بلکہ الفاظ کی نوک پلک کے کاریگر ہیں وہ ایک مداری کی طرح تھوڑا رش لگا لیتے ہیں یا ہجوم کو اکھٹا کرنے پر کمال دسترس رکھتے ہیں کیونکہ اگر ادب، اور ڈرامہ نگاری جیسے مہذب شعبے سے وابستہ لوگ بھی اپنی گفتگو اور کلام میں پاکیزگی نہیں لا سکتے تو ان کو رائٹر یا ادیب کہنا بذات خود ادب کی توہین ہے۔

خلیل صاحب کے کلام سے ڈسی ماروی سرمد کوئی پہلی خاتون نہیں۔ اس سے پہلے بھی وہ ایک ٹی وی شو میں صبا حمید اور دیگر فنکاروں کی تذلیل کر چکے ہیں۔ ان کو اس وقت اگر شٹ اپ کال دی جاتی تو شاید وہ اتنے دلیر اور بے باک نہ ہوتے اور یقیناً اپنی بات اور کلام پر شرمندہ ہوتے اور معذرت پر آمادہ ہوتے۔ مگر اب تو موصوف انتہائی حد تک بضد ہیں کہ ان کے مؤقف کی تائید میں لوگ ان کا ساتھ دیں اور ان کے لئے دعا گو ہوں۔



یہ ان کا حق ہے کہ وہ اختلاف کریں مگر توہین، گالی اور تذلیل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ صرف دھونس اور جبر سے اپنی بات منوانے کے عادی ہیں۔ اختلاف رکھنا اور اس پر ڈٹے رہنا کسی کی چوائس ہو سکتی ہے مگر اپنے مؤقف کی تائید میں لوگوں کی نجی زندگی کو بنیاد بنا کر بے عزت کرنا ’کسی کی شخصیت اور اس کے جسم کے خدوخال کو موضوعِ گفتگو بنانا اور خود پسندی جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو کر دوسروں کی عزتیں اچھالنا جناب کا وطیرہ ہے اور اس پر انہیں بڑا ناز بھی ہے مگر میں اس سب کے باوجود خلیل الرحمٰن صاحب سےاور سوشل میڈیا پر ان کی تقلید میں نکلی ان ہستیوں سے یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کسی کے مؤقف کسی کے نعرے یا گفتگو کا جواب گالی کیونکر ہو سکتا ہے؟

ہم یہ فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں کہ جن الفاظ کا مفہوم اور مطلب ہماری دانست میں گندہ اور غیر اخلاقی ہے، سامنے والا بھی اسی سوچ کا حامل ہو؟ ہمیں کس نے حق دیا ہے کہ ہم آزادی اظہار کا مطلب اور اس کی تشریح اپنے انداز میں کر کے دوسروں کی سوچ کی عکاسی کریں؟

اور اگر فرط جذبات یا غصے میں جس کا اگرچہ کوئی جواز نہیں لیکن کوئی غلطی سرذد ہو ہی جاتی ہے توفقط ایک معذرت اور شرمندگی کا احساس مخالف کے درد کو کم کرنے کا سبب بن جاتا ہے اور بڑے سے بڑے جھگڑے کو ختم کرنے کا سامان میسر آ جاتا ہے مگر ہمارے معاشرے میں معافی مانگنا، شکریہ ادا کرنا، تعریف کرنا اور کسی کے ہنر کا اقرار کرنا درحقیقت اپنی ہی ذات کی نفی تصور کیا جاتا ہے۔



یہاں خلیل صاحب معافی مانگ کر اپنا قد کاٹھ بڑھا سکتے تھے مگر شومئی قسمت کہ خود پسندی کے خول میں گھرے لوگ بڑی آسانی سے اپنے غلط رویوں پر بھی ڈٹ جاتے ہیں اور ان کو مزید حوصلہ بڑھانے کے لئے مجاہدینِ سوشل میڈیا گالی کا جواب اور گندی گالی سن کر محظوظ ہوتے ہیں۔

اگر الفاظ کی بھیڑ چال کو ہی بنیاد بنا کر اچھے اور برے کا فیصلہ کرنا ہے تو پھر خواتین سے منسوب الفاظ اور سلوگن ہی کیوں بیہودہ اور غیر اخلاقی تصور کیے جائیں؟ مردوں سے وابستہ ان جملوں کو بھی معیوب تصور کیا جانا چاہیے۔ اگر میرا جسم میری مرضی کہنا ایک گالی ہے تو مردانہ کمزوری سے متعلق دیواروں پر لکھی عبارتیں بھی اتنی ہی گندی اور غیر شائستہ ہیں۔ لہٰذا کسی کے مؤقف کی تائید نہ کرنا یا کسی کے نظریے کے متبادل نظریہ رکھنا اگر ہمارا حق ہے تو ضرور اختلاف کریں مگر الفاظ کے چناؤ میں احتیاط تو کر ہی سکتے ہیں۔