17 اگست 1988: بد ترین آمریت کی زنجیریں ٹوٹ گئیں، سلطانی جمہور کا دور شروع ہوا

17 اگست 1988: بد ترین آمریت کی زنجیریں ٹوٹ گئیں، سلطانی جمہور کا دور شروع ہوا
مجھے آج بھی 17 اگست 1988 کا دن بہت اچھی طرح یاد ہے۔ سکول کی چھٹیوں کے دن تھے اور ہم لوگ گرمیوں کی چھٹیوں کا بیشتر وقت گاؤں میں گزار کر کچھ روز پہلے ہی لاہور پہنچے تھے۔ 17 اگست کی سہ پہر گزرنے والی تھی ہم لوگ شام کی چائے وغیرہ میں مصروف تھے جب یہ خبر ملی کہ بہاولپور کے نزدیک جنرل ضیاء کا طیارہ حادثے کا شکار ہو گیا ہے اور جنرل ضیا سمیت بہت سے افراد جن میں امریکی سفیر ، امریکی فوجی اتاشی اور پاک فوج کے بہت سے افسران حادثے کا شکار ہو چکے ہیں۔ شروع شروع میں تو کسی کواس خبر کا یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔ ٹی وی آن کیا تو یہ خبر کنفرم ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی ایسا محسوس ہونے لگا کہ فضا میں گھٹن ختم ہو گئی ہے اور فضا ایک دم بدلی بدلی سے محسوس ہونے لگی۔

جنرل ضیا کی موت پر محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی جانب سے سامنے آنے والا ردعمل بھی بی بی شہید کی عظیم شخصیت کے شایان شان ہی تھا جب بی بی شہید نے کہا کہ جنرل ضیا ایک بدترین آمر تھا جس نے ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر ناجائز قبضہ کیا، منتخب وزیراعظم کو پھانسی پر لٹکایا اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں اور دوسرے جمہوریت پسند افراد پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہیں لیکن ایک انسان کے مرنے پر میں خوشی کا اظہار نہیں کر سکتی۔

ہم جیسے لوگ جنہوں نے جنرل ضیا کے دور میں ہوش سنبھالا ان کے لئے جنرل ضیاء کے بغیر کسی حکومت کا تصور ایک بالکل نیا تجربہ تھا۔ اگرچہ ضیا کی موت کے بعد غلام اسحاق خان کا صدر کا عہدہ سنبھالنا اور جنرل مرزا اسلم بیگ کا چیف آرمی سٹاف بن جانا جنرل ضیا کی باقیات کا ہی تسلسل تھا۔ اس کے علاوہ جونیجو حکومت کی برطرفی کے بعد جنرل ضیا کی طرف سے بنائی جانے والی نگران کابینہ بھی وزیراعظم کے بغیر ایک سنئیر وزیر کی قیادت میں کام کر رہی تھی اس کو بھی برقرار رکھا گیا۔ لیکن پھر بھی جنرل ضیا کی چھتری کے بغیر یہ جنرل ضیا سے بہرحال ایک مختلف سیٹ اپ تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ 1988 کا الیکشن اناؤنس ہو جانے کیوجہ سے بھی کچھ کچھ سیاسی ہلچل شروع ہو چکی تھی۔

جونیجو حکومت کی مئی 1988 میں برطرفی کے بعد جنرل ضیا ایک بار پھر اسلام مائزیشن کے نعرے کا سہارا لے چکا تھا جس کا اثر ٹی وی پر سخت سنسرشپ کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ تمام اداکاراوں کے لئے ان کے کردار کی نوعیت سے قطع نظر دوپٹہ اوڑھنا لازمی قرار پا چکا تھا۔ اس کے علاوہ پی ٹی وی پر گانوں کے نشر ہونے پر بھی سنسرشپ نافذ تھی۔ ضیاء کے مرنے کے بعد ایک ماہ کےاندر ہی ٹی وی ڈرامہ جب نارمل انداز میں پیش ہونے لگا تو یہ بھی ایک بہت ہی خوشگوار تبدیلی محسوس ہوئی۔

الیکشن تو جونیجو حکومت کی برطرفی کے بعد جنرل ضیا اپنی زندگی میں ہی اناونس کر چکا تھا جو کہ غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والےتھے۔ ضیا کی موت کے بعد سپریم کورٹ نے پیپلزپارٹی کی رٹ پر فیصلہ سناتے ہوئے جب الیکشن جماعتی بنیادوں پر کروانے کافیصلہ دیا تو اس کے ساتھ ہی نومبر 1988 میں ہونے والے الیکشن کی گہما گہمی میں تیزی آ گئی۔

پیپلزپارٹی گیارہ سال کے بعد کسی الیکشن میں حصہ لے رہی تھی اور میرے لئے بھی ہوش سنبھالنے کے بعد کسی الیکشن کو فالوکرنے کا یہ پہلا موقع تھا۔ اگرچہ اپنی عمر کے مطابق اس وقت ہماری دلچسپی صرف پیپلزپارٹی کے جھنڈوں، بیجز اور اسٹکرز تک محدودتھی۔ نہ تو امیدواروں کا اتنا پتہ تھا اور نہ ہی الیکشن کے دوسرے لوازمات کا۔ چونکہ والد صاحب اور دوسرے بزرگوں کی ہمدردیاں اور سپورٹ ہمیشہ سے پیپلزپارٹی سے وابستہ رہی تھیں اس لئے ہم لوگ بھی قدرتی طور پر پیپلزپارٹی کے ہی سپورٹر تھے۔ ہمارے گھر ان دنوں پیپلزپارٹی کا اخبار مساوات بھی باقاعدگی سے آیا کرتا تھا جس سے پیپلزپارٹی کے بارے مزید آگاہی پیدا ہونی شروع ہوئی۔ ان دنوں بی بی شہید کی کتاب ڈاٹر آف ایسٹ نئی نئی شائع ہوئی تھی جس کا اردو ترجمہ مشرق کی بیٹی کے نام سے مساوات اخبار میں قسط وار شائع ہوتا تھا جس کو میں پڑھنے کے بعد سنبھال لیتا تھا۔ میرے پاس آج بھی ان تمام اقساط پر مشتمل اخبارات کا ریکارڈ مخفوظ ہے۔

نومبر 1988 میں ہونے والے الیکشن کا دن بھی مجھے اچھی طرح سے یاد ہے۔ الیکشن والے دن میں اور میرے کزنز اپنی چھت پرکھڑے ہو کر سامنے سڑک سے گزرنے والی پیپلزپارٹی کے جھنڈوں والی گاڑیوں کو دیکھ کر پیپلزپارٹی کے جھنڈے لہراتے اور وکٹری کا نشان بناتے تھے۔ الیکشن والی رات کو دیر تک الیکشن نشریات دیکھتے رہے جس میں ہماری دلچسپی الیکشن رزلٹ کے ساتھ ساتھ ٹی وی پر چلنے والے پروگرام بھی تھے۔

الیکشن سے اگلی صبح جب ہم لوگ سو کر اٹھے تو جمہوریت کی ایک نئی صبح طلوع ہو چکی تھی ہر طرف پیپلزپارٹی کی دھوم تھی کیونکہ پیپلزپارٹی محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی قیادت میں الیکشن جیت چکی تھی اور پیر پگاڑہ، جونیجو، جتوئی سمیت پیپلزپارٹی کے بڑے بڑے مخالف پیپلزپارٹی کے عام کارکنوں کے مقابلے میں شکست سے دوچار ہو چکے تھے۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا پاکستان کی وزیراعظم بننا نوشتہ دیوار بن چکا تھا۔ آمریت کی زنجیریں ٹوٹ چکی تھیں اور سلطانی جمہور کا دور شروع ہونے والا تھا۔

Twitter: @GorayaAftab aftabgoraya2016@gmail.com