قبائلی اضلاع کے بجٹ میں 43 ارب روپے کا ریکارڈ غائب ہونے کا انکشاف

قبائلی اضلاع کے بجٹ میں 43 ارب روپے کا ریکارڈ غائب ہونے کا انکشاف
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سیفران کے اجلاس میں انکشاف ہوا کہ مالیاتی سال 2018'19, مالیاتی سال 2019-20 اور مالیاتی سال 2020-21میں قبائلی اضلاع کے بجٹ میں 43ارب روپے کا ریکارڈ غائب ہے جس کی تحقیقات ہر حالت میں یقینی بنائی جائے گی۔

چئیرمین ہلال الرحمان کی زیر صدارت کمیٹی اجلاس نے کہا کہ آڈیٹر جنرل اور مخکمہ منصوبہ بندی و ترقی کے ترقیاتی فنڈز اور اے آئی پی پروگرام کے تحت سابقہ فاٹا کو جاری ہونے والے فنڈز کے تفصیلات میں تضاد ہے اور اس پر انکوائری ہونی چاہیے۔ کمیٹی ممبران نے موقف اپنایا کہ پہلے فاٹا دہشتگردی کے خلاف جنگ میں تباہ ہوا، پھر ضم ہونے کے بعد صوبے نے ان کے وسائل پر قبضہ کیا اور اب سابقہ فاٹا کے لئے جاری ہونے والے فنڈز صوبہ اپنے بندوبستی علاقوں پر خرچ کر رہا ہے جو نہ غیر قانونی ہے۔ کمیٹی ممبران نے کہا کہ قبائلی اضلاع کے ترقیاتی فنڈز سے صوبائی وزیروں کے لئے قیمتی گاڑیاں خریدی گئی ہیں۔

سابقہ فاٹا میں سالانہ ترقیاتی پروگرام اور اے آئی پی AIP کے تحت مالی سال 2018 سے 2021 تک کی ترقیاتی سکیمز کا جائزہ لیتے ہوئے کمیٹی نے کہا کہ بدستور تین مالیاتی سالوں میں بتدریج 8, 11 اور 26 ارب روپے غائب ہیں جس کی ہر حالت میں تحقیقات ہونی چاہیے۔

خیبر پختونخوا حکام نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ 2018 سے 21 کے دوران اے آئی پی اور اے ڈی پی کے تحت 225 سکیمز منظور کی گئیں جن میں 92 مکمل کی گئیں ہے۔

محکمہ منصوبہ بندی اور ترقی خیبر پختونخواہ نے بریفنگ میں مزید کہا کہ اسکمیز کے لئے اے آئی پی کے تحت 76 ارب ، اے ڈی پی کے تحت 67 ارب روپے جاری کیے گئے اور اس مد میں ٹوٹل 144 ارب روپے جاری ہوئے ہیں جبکہ اسکیمز پر 128 ارب روپے اخراجات آئے ہیں۔ حکام نے مزید کہا کہ سال 2018/19 میں 33 ارب ، 2019/20 میں 37 ارب اخراجات آئے جبکہ سال 2020/21میں 45 ارب ، 2021/22 میں .11.8 ارب روپے اخراجات آئے۔

کمیٹی چئیرمین سینیٹر ہلال الرحمان نے خیبر پختونخواہ حکام پر برہم ہوتے ہوئے کہا کہ اکاؤنٹنٹ جنرل خیبر پختوانخوا رپورٹ کے مطابق سال 2021 میں 3.5 ارب روپے اخراجات آئے ، باقی 8.22 ارب روپے کہاں گئے؟ انھوں نے مزید کہا کہ اکاونٹ جنرل خیبر پختوانخوا رپورٹ کے مطابق سال 2019 میں 38 ارب جاری ہوئے ، 25 ارب اخراجات آئے ، باقی 13 ارب روپے کہاں ہیں ؟ انھوں نے مزید کہا کہ اکاونٹنٹ جنرل خیبر پختوانخوا رپورٹ کے مطابق سال 2020 میں فنانس نے 46 ارب روپے جاری کیے، اخراجات 23 ارب روپے آئے ، باقی 23 ارب روپے کہاں ہیں ؟ کمیٹی چئیرمین نے کہا کہ قبائلی اضلاع کے فنڈز پر صوبے نے ڈاکہ ڈال دیا لیکن کمیٹی قبائلی علاقوں کے ایک ایک پیسے کا حساب لے گی اور جہاں جہاں غبن ہے تو تحقیقات کے احکامات جاری کئے جائینگے۔
کمیٹی نے اے جی پی آر ، منصوبہ بندی ڈوئژن ، فنانس ڈویزن سے بریفنگ لینے کا فیصلہ کیا۔

سابقہ فاٹا میں ٹی ڈی پیز کی بحالی کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے سرکاری حکام نے کہا کہ ٹی ڈی پیز بحالی کے لیے 95327 ملین روپے جاری ہوئے اور 91375 روپے خرچ ہوئے اور پاک فوج کے اہلکار نقصان کا جائزہ لیتے ہیں اور بحالی کے حوالے سے عملدرآمد فوج کراتی ہے۔ 2016 سے سابقہ فاٹا میں بحالی کا کام جاری ہے لیکن تاحال آڈٹ نہیں ہوا اور آڈٹ کے حوالے سے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔

چئیرمین کمیٹی ہلال الرحمن نے مزید کہا کہ فاٹا بحالی منصوبے کا 2016 سے لیکر اب تک آڈٹ نہیں ہوا جس پر آڈٹ حکام خاموش رہے۔ کمیٹی نے موقف اپنایا کہ فاٹا کے لئے جاری ہونے والے فنڈز کو نجی کمرشل بینکوں میں سود پر رکھا جاتا ہے مگر نہیں معلوم کہ وہ سود کا رقم کہاں اور کیسے خرچ ہوتا ہے اس حوالے سے بھی متعلقہ حکام سے بریفنگ لینگے. کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں خیبر پختونخواہ حکام سے تفصیلی بریفنگ لینے کا فیصلہ کیا۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔