'فوج کا کھڑاک' پاکستان کی سب سے بڑی بلاک بسٹر فلم بن گئی

'فوج کا کھڑاک' پاکستان کی سب سے بڑی بلاک بسٹر فلم بن گئی
معمول تو قلندر کے آستانے پر ہمیشہ سے یہ رہا کہ مرید سوالات کی بوچھاڑ کریں گے اور وہ دانش و حکمت سے بھرپور جواب دے گا۔ مگر آج قلندر نے مریدوں سے سوال کر دیا: 'بتاو پاکستان کی بلاک بسٹر فلم کون سی ہے؟'

'کوئی مشکل سوال کیجیے سرکار۔ یہ تو بچے بچے کو معلوم ہے۔' قلندر کا سیکرٹری اسحاقہ بولا۔
'ابے بکواس بند کر اور جواب بتا۔'
'سرکار دی لیجنڈ آف مولا جٹ TLOMJہے۔' قلندر کی ڈپٹی اور کتھک کی ملکہ ریشماں بولی۔
'غلط!'
'کیوں سرکار!' ایک ملین سے زیادہ لوگ دیکھ چکے۔ 100 کروڑ سے زیادہ کا کاروبار کر چکی۔ بھارتی فلموں کا بھی پتہ کاٹ گئی۔ پھر بھی آپ کہتے ہیں غلط!'
'درست کہتا ہوں۔ اس لئے کہ تم سب کے سب پاٹے خان کی طرح جاہل ہو۔ اکتوبر27 سے پہلے تک تھی TLOMJ بلاک بسٹر۔ اس کے بعد نہیں۔' قلندر وثوق سے بولا۔

'سرکار ہم آپ کے علم کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ آپ ہی بتائیں مگر پہیلیاں مت بجھوائیں۔' حاجی نورا بولا جو کبھی بھی جیون میں مکہ نہ گیا مگر فوٹو شاپ کی بدولت برسوں سے اپنے آپ کو حاجی منوا چکا ہے۔

'خوشامد بند کر پاجی! مارکیٹ میں27 کو ایک ایسی فلم آئی کہ اس نے دنیائے فلم و تھئیٹر کے تمام سرکاری و غیر سرکاری ریکارڈز توڑ ڈالے۔ اس کا ایک ہی شو ہوا اور وہ بھی لائیو۔ اسے 2 بلین افراد نے بھارت میں، 250 ملین نے پاکستان میں اور مزید 10 بلین نے دنیا کے دیگر ممالک میں ایک ساتھ لائیو دیکھا۔‘

'لائیو فلم؟ یہ کیسے ممکن ہے؟' مریدوں نے پوچھا۔

'بھئی TLOMJ کئی برسوں میں تیار ہوئی۔ پھر کاپی رائٹ کے چکر میں کئی برسوں مقدمہ بازی ہوئی۔ 50 کروڑ سے زیادہ پیسہ لگ گیا۔ درست؟' قلندر نے سوال داغا جانچنے کے لئے کہ کہیں سالے سو تو نہیں رہے۔ لیکن سب ہی جاگ رہے تھے۔ سب بولے جی جی۔

'تو اس ٹنٹے سے بچنے کے لیے یہ فلم سیٹ سے براہ راست دنیا بھر کے سنیما گھروں میں لائیو دکھائی گئی اور اس کے علاوہ یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی اسے پریمیئر کیا گیا۔ سیٹ پر دو ہیرو آئے۔ قریب 90 منٹ سے زیادہ انہوں نے اپنی لائنیں ڈلیور کیں اور فلم ختم۔ اور اس کے بعد وہ واہ واہ ہوئی کہ رہے نام اللہ کا۔ بس ایک ہی نعرہ مستانہ تھا ہر ایک کی زبان پر: ناممکن، ناقابل یقین۔'

'سرکار کیا یہ TLOMJ پارٹ 2 تھی؟' بونا بلند رانا نے پوچھا۔
'ابے بے وقوف تو سنتا نہیں ہے۔ TLOMJ تو تھی مولا جٹ کی بھونڈی نقل۔ مولا جٹ میں سلطان راہی ہیرو تھا اور مصطفیٰ قریشی ولن۔ یعنی ایک ہیرو اور ایک ولن۔ جبکہ میں نے پہلے ہی بتا دیا ہے کہ اس میں دو ہیرو تھے۔ یہ اپنی حیثیت میں بالکل منفرد فلم تھی۔ اس کے سکرپٹ کا مرکزی خیال ایسا کہ دنیا کے بہترین لکھاریوں کے دماغ سے بھی اوپر کی چیز۔ کوئی بھی اس کی گرد کو نہ پہنچ سکتا تھا۔'

'حضور اس میں ولن کا رول کس نے ادا کیا؟ اور آپ نے یہ نہیں بتایا کہ فلم کی کیٹیگری کیا ہے۔ ڈرامہ، میوزک، کامیڈی، ایکشن ایڈونچر، تاریخی، المیہ، تھرلر یا کچھ اور؟' یہ گلزاری بیگم تھی۔ اپنے وقت کی بہت بڑی نائکہ۔

'بھئی بنیادی طور پر تو یہ کامیڈی فلم تھی مگر ایکشن، سسپنس، تھرل سے بھرپور۔ فلم میں کافی جذباتی سین بھی ہیں جو لوگوں کو رلا دیتے ہیں۔ پر اس کے بعد کامیڈی بھی ایسی شروع ہوتی ہے کہ بندہ ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہو جائے۔ تب ہی تو انڈیا میں اس نے سب سے زیادہ بزنس کیا۔ سنا ہے انڈیا اس کا سیکوئل بنانے کے چکر میں ہے۔ مگر پھر کاپی رائٹ کا مسئلہ ہو جاوے گا۔ اس فلم کی اور بھی کئی خاص باتیں تھیں۔ ان میں سے ایک یہ کہ ولن تو تھا لیکن سیٹ پر آیا ہی نہیں۔ اس کا رول غائبانہ تھا۔ دونوں ہیروز نے مل کر اس کی خوب درگت بنائی۔ کھل کر اس کی منافقت کا پردہ چاک کیا۔ خوب پٹائی کی۔ دے دھنا دھن امیتابھ بچن کی طرح۔ یا یوں سمجھو جیسے فلم شعلے میں ٹھاکر نے اپنے جوتوں کے تلوے میں کیلیں لگوا کر گبر کی دھنائی کی تھی۔ ایسا کیا دونوں نے مل کر۔ دونوں نے مل کر جے اور ویرو کی یاد تازہ کر دی۔' قلندر بولا۔

'پھر تو سرکار اس میں کوئی بسنتی ٹائپ ہیروئن بھی ہو گی۔' ریشماں بولی۔

'نہیں ریشمے۔ میں بار بار بتلا رہا ہوں کہ یہ کوئی عام فلم نہ تھی۔ اس کے خاص خاص پہلو اتنے زیادہ ہیں کہ دنیا کی کوئی ہارڈ ڈسک اس کی خوبیاں اپنے اندر نہیں سما سکتی۔ بائیٹس ختم ہو جاویں گے پر اس کے کمالات ختم نہ ہوں گے۔ بس یہ سمجھو جتنی تعریف کرو کم ہے۔ اس میں ہیروئین تو تھی ہی نہیں۔ ہیروئین کی جگہ دو ہیرو جو کاسٹ کر لیے تھے ڈائریکٹر نے!'

'ناممکن، ناقابل یقین!' مریدوں کے منہ سے نکلا اور قلندر جھٹ سے بولا: 'دیکھا نہ یہ نعرہ مستانہ تم لوگوں کی زبان تک بھی آ گیا! ابھی تو سب سے بڑی خوبی کا ذکر ہی نہیں ہوا!' قلندر بولا۔

'وہ کیا مائی باپ!'

'بلال لاشاری نے تو خوب لوٹا پبلک کو مہنگے مہنگے ٹکٹ بیچ کر۔ ہزاروں روپوں میں تھا ایک ٹکٹ TLOMJ کا۔ لیکن یہ فلم سو فیصد مفت تھی اور اس کی پروڈکشن میں ایک دھیلا بھی نہ لگا۔ نہ ڈسٹری بیوشن والا رولا۔ ڈائریکٹ سیٹ پر بلایا ہیروز کو، ڈائریکٹ شوٹ اور لائیو جوں کی توں بنا ایڈیٹنگ ساری دنیا میں ایک ہی ٹیم پہ پریمیئر ہو گئی۔ تمہیں یوٹیوب پر TLOMJ نہ ملے گی پر یہ جگہ جگہ HD فارمیٹ میں دستیاب ہے اور کاپی رائیٹ والا بھی کوئی ٹنٹہ نہیں۔ تم سب ضرور دیکھنا۔'

'لیکن حضور نام تو آپ نے بتایا ہی نہیں اس فلم کا!'

'ابے احمقو تم تو پاٹے خان سے بھی گئے گزرے ہو گئے۔ اس مشہور زمانہ تاریخی فلم کا نام ہے ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کا مشترکہ کھڑاک۔'

'او!!!!! ناممکن، ناقابل یقین!'

'سرکار اس فلم کا لکھاری، پروڈیوسر اور ڈائریکڑ کون تھا!'

'بھئی بتا تو رہا ہوں کہ اس فلم میں ہر بات نئی اور خاص ہے۔ اس کا لکھاری، پروڈیوسر اور ڈائریکٹر ایک ہی شخص ہے جس کا نام ہے؛ نامعلوم۔ لیکن تم سب جاہلوں کو تو یہ اچھے سے معلوم ہے کہ کامیابی کے کئی اماں باوا ہوتے ہیں اور ناکامیاں یتیم ہوتی ہیں۔ تو بہت سے لوگ اب اس فلم کا سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن میری ذاتی رائے میں یہ فلم شوبز شریف نے بنائی ہے۔ مجھے یہ بات شوبز نے خود بتائی اور شوبز کو آئی ایس آئی کے چیف نے۔'

'شوبز زندہ باد! شوبز زندہ باد!' نعرہ بلند ہوا اور اس کے بعد وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے۔ بھنگ، چرس، طبلے اور کتھک کا لمبا دور اور دما دم مست قلندر۔

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔