جب مارچ 1955 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس محمد منیر نے سندھ چیفس کورٹ کے فیصلے جس میں سندھ چیفس کورٹ کے ججوں جسٹسز محمد بخش اور محمد بچل نے اس وقت کے گورنر جنرل غلام محمد کے ہاتھوں ملک کی قانون ساز اسمبلی توڑنے کے خلاف سپیکر مولوی تمیز الدین کی طرف سے داخل کئی گئی درخواست پر قانون ساز اسمبلی کی بحالی کے خلاف فیصلہ یعنی قانون ساز اسمبلی توڑے جانے کو جائز قرار دیا تھا تو اس کے خلاف سندھ اور ملک میں ایک رہنما ایسا بھی تھا جس نے انگریزی میں ایک پمفلٹ لکھا تھا؛ 'جسٹس آف دی چیف جسٹس'۔
جب جسٹس منیر نے اس پمفلٹ کے خالق کو اپنی عدالت میں طلب کیا تو انہوں نے کہا تھا؛ 'یہاں یہ بات میں ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں ایک جج ایسا بھی تھا جس نے لاقانونیت کا دفاع کیا تھا'۔ انگریزی میں لکھے گئے اس پمفلٹ 'جسٹس آف دی چیف جسٹس' یا 'چیف جسٹس کا انصاف' کے مصنف سندھ کے ہاری لیڈر حیدر بخش جتوئی تھے۔ سپریم کورٹ نے ان کو یہ پمفلٹ لکھنے اور چھاپنے پر سزائے قید سنا دی تھی۔ لیکن یہ ان کے لئے کوئی خلاف معمول یا نئی بات نہیں تھی۔
حیدر بخش جتوئی بالمعروف بابائے سندھ کامریڈ حیدر بخش جتوئی سندھ اور پاکستان میں ایک ایسے انسان گزرے ہیں جن کی تقریر و تحریر ہر لمحے اپنے سندھ اور ملک کے لتاڑے ہوئے لوگوں اور انسانوں کے لیے تھی اور وہ اس پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں تا عمر اٹھاتے رہے تھے۔ لیکن سندھ سے باہر یا سندھی زبان سے نابلد بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ حیدر بخش جتوئی سندھی زبان کے ایک بلند پایہ شاعر اور 'جیے سندھ' نعرے کے ماخذ بھی تھے جو ان کی ایک طویل نظم سے لیا گیا ہے۔
حیدر بخش جتوئی لاڑکانہ کی تحصیل ڈوکری جسے کبھی لب دریا بھی کہا جاتا تھا، کے ایک گاؤں بکھو دیرو میں ایک کسان کے گھر یکم اکتوبر 1901 میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم لاڑکانہ سے حاصل کی اور پھر کراچی کے ڈی جے کالج سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد وہ 1927 میں محکمہ ریونیو میں تحصیلدار کے عہدے پر مقرر ہوئے اور پھر ترقی کر کے ڈپٹی کلکٹر کے عہدے پر پہنچے۔ لیکن محکمہ ریونیو کی انگزیز دور میں ملازمت کے دوران سندھ کے ہاری (مزارعے) کے ساتھ زمینداری جاگیرداری نظام اور حکومت کی نا انصافیوں اور ظلم و زیادتیوں کا وہ قریب سے مشاہدات کر چکے تھے اور وہ ان کے لیے کچھ کر گزرنا چاہتے تھے۔ وہ زمانہ جب سندھ کے جاگیردار زمیندار اور دیسی افسران انگریز سرکار کی خوشنودی، عہدے، القابات، جاگیریں اور ملکیتیں اکٹھی کرنا چاہتے تھے، اس زمانے میں حیدر بخش جتوئی نے ڈپٹی کلکٹر کے عہدے سے 1945 میں استعفی دے کر سندھ ہاری کمیٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔
یہ بھی دلچسپ امر ہے کہ سندھ میں ہاری حقوق کیلئے سندھ ہاری کمیٹی 1920 کی دہائی میں قائم ہو چکی تھی اور اس کے قائم کرنے والے زعما میں زیادہ تر غیر ہاری لیکن ہاری دوست عوام دوست لیڈر تھے۔ جی ایم سید، کراچی کے بعد میں بننے والے پہلے میئر جمشید نسروانجی، حاتم اے علوی اور جیٹھ مل پرسرام جیسے لوگ سندھ ہاری کمیٹی کے بانیوں میں سے تھے۔ سندھ ہاری کمیٹی کی بنیاد رکھنے کیلئے پہلا اجلاس ٹنڈوجام میں ہوا تھا۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ جی ایم سید کی انڈین نیشنل کانگریس چھوڑ کر مسلم لیگ میں شمولیت کی ایک بڑی وجہ سندھ اسمبلی میں ہاریوں کی فلاح و بہبود کیلئے پیش کیے گئے ہاری بل جس میں ہاریوں کے قرضے معاف کرنا بھی شامل تھا، سے کانگریس ممبران جن کی سندھ اسمبلی میں تب اکثریت تھی کی طرف سے روگردانی تھی۔
حیدر بخش جتوئی نے دوران ملازمت قرآن کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا تھا اور انہوں نے طالب علمی کے زمانے سے شاعری کرنا شروع کی تھی۔ لیکن وہ اپنی سندھی شاعری کے عروج پر تھے جب انہوں نے بھی ایک طویل نظم شکوہ لکھی جو علامہ اقبال کے شکوہ کے برعکس ان کا شکوہ انسان کا خدا سے تھا۔ اگرچہ ان پر بھی فتوے لگے لیکن انہوں نے کوئی جواب شکوہ نہیں لکھا۔ حیدر جتوئی کا یہ شکوہ سندھی شاعری کا شاہکار ہے۔ ان کا شعری مجموعہ 'تحفہ سندھ' کے عنوان سے 1931 میں شائع ہوا۔
حیدر بخش جتوئی نے اپنی زندگی ہاریوں اور سندھ کے حقوق کی جدوجہد کیلئے وقف کی اور وہ جلد ہی سندھ ہاری کمیٹی کے صدر بھی منتخب ہو گئے۔ انہوں نے چھوٹے صوبوں پر مسلط ون یونٹ نظام اور اس کے خلاف کئی پمفلٹ اور مضامین لکھے اور اخبار 'ہاری حقدار' کے نام سے جاری کیا۔ وہ کئی بار مچھ، ساہیوال، میانوالی، کراچی اور حیدرآباد کی جیلوں میں قید رہے۔ یہ تاریخ کے ساتھ ایک عجب مضحکہ ہے کہ جب لوگ کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے سندھ کے ہاری کو زبان دی۔ نہیں، یہ حیدربخش جتوئی تھے کہ جنہوں نے اپنی تقریروں اور تحریروں چاہے عملی جدوجہد بشمول قید و بند کی طویل مدتوں کے ساتھ سندھ کے ہاری اور پڑھے لکھے نوجوانوں اور طالب علموں میں سیاسی بیداری پیدا کی۔ بھٹو نے بعد میں سیاست میں داخل ہو کر حیدر بخش جتوئی کی سندھ میں کی ہوئی جدوجہد کو کیش کروایا۔
ایوب خان کی حکومت سے علیحدہ ہونے کے بعد سندھ کی جن دو سیاسی شخصیات سے آ کر ذوالفقار علی بھٹو ملا تھا وہ حیدر بخش جتوئی اور جی ایم سید ہی تھے۔ ان دونوں سندھی سیاسی رہنماؤں نے بھٹو کو ون یونٹ کی مخالفت کرنے اور ون یونٹ کے خلاف جدوجہد میں شمولیت کا مشورہ بھی دیا تھا۔ بھٹو نے ان دنوں ڈھاکہ کے اخبار 'اتفاق' میں ون یونٹ کے خلاف ایک مضمون بھی لکھا تھا لیکن پھر جلد ہی وہ وفاقی سیاست یا سندھ گریز سیاست کرنے لگے۔ انہوں نے بعد میں سندھ میں ان کا خیرمقدم کرنے والے نوجوانوں کو بتایا تھا کہ وہ 'پنجاب کے مفادات پر کوئی سمجھوتہ' نہیں کر سکتے۔
حیدر بخش جتوئی نے قیام پاکستان کے فوراً بعد سندھ کے ہاریوں کے حق میں الاٹ تحریک شروع کی جس کا مقصد تھا کہ سندھ سے بھارت نقل وطنی کرنے والے ہندوؤں کی زمینیں سندھ کے ہاریوں کو ہی الاٹ کی جائیں۔ اس مقصد کیلئے ایک بہت بڑی ریلی کراچی میں نکلی تھی جس میں سندھ کے ہزاروں ہاریوں نے شرکت کر کے سندھ اسمبلی کے سامنے فقید المثال مظاہرہ کیا تھا۔
انہوں نے ہاریوں کے حق میں 'سندھ ٹیننسی ایکٹ' قانون لکھا جو گورنر دین محمد نے منظور کیا تھا۔ یہ اور بات ہے اس پر آج تک عمل نہیں ہوا کہ اسمبلیوں اور حکومتوں میں نسل در نسل پہنچنے والے بھی زمیندار اور جاگیردار ہیں۔
لیکن یہاں میرا مقصد حیدر بخش جتوئی کی شاعری سے ہے۔ حیدر بخش جتوئی نے شاہکار نظم 'جیے سندھ' لکھی جو بعد میں نہ فقط سندھ کے حقوق کی آواز اور قوم پرست تحریک بن گئی بلکہ ایک نعرے کی صورت میں سندھ کی خلق کے زبان زد عام بن گئی۔ حیدر بخش جتوئی کی نظم یہ ہے:
جیے سندھ جیے سندھ
جام محبت پیے سندھ
جیے ہاری اور مزدور
جیے ہاریانی* پُرنور
محنت اندر صبح و شام
جیے سندھ جیے سندھ
*ہاری عورت کو سندھی زبان میں ہاریانی کہا جاتا ہے
ایک اور شاہکار نظم حیدر بخش جتوئی کی دریائے سندھ کو سندھ میں خوش آمدید ہے جو تبت سے بہہ کر آخرکار سندھ ساگر یا بحیرہ عرب میں آ کر گرتا ہے۔ حیدر بخش جتوئی نے دریائے سندھ کے اس تمام سفر کا نقشہ بہت ہی خوبصورت، نفیس اور لطیف خیالات سے کھینچا ہے؛
جی آیا جو آیا تو دریا شاھ
یہاں پاک گنگا کا آغاز ہو
اور جمنا کا بھی ناز و انداز ہو
ہو بنگال برہما سے دمساز ہو
یہاں کشف اللہ کا راز ہو
زمیں آسمان سے
عرب گلستان سے
یہاں سب ملیں اور
خود اک دوجے کا
مخالف بھی سمجھیں
نہیں یہاں کوئی فرق مغرب و مشرق
جی آیا تو آیا دریافت شاہ
راوی آئے تیرے دیدار پر
ستلج اور جہلم نمسکار پر
ہو جائیں بس مست تیری للکار پر
گر جائیں تیرے قدموں کی رفتار پر
ہوں تجھ پر قرباں
دیں اپنی جاں
جی آیا تو آیا دریا شاہ
جب ملک میں ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کیا تو حیدر بخش جتوئی نے لکھا؛
مارشل لاء ملک کا دستور ہوا
اک سپاہی گھر کا مالک بن گیا
سب زبانیں بند ہوں اعلان ہوا
آدمی انسان سے حیوان ہوا
جب ملک میں سیاسی جبر اور حکمران طبقات کی ریشہ دوانیاں بڑھنے لگیں تو حیدر بخش جتوئی نے اپنی مشہور نظم 'قومی ترانے' لکھی؛
بھرو تم قید خانوں کو
کاٹو ساری زبانوں کو
بجھاؤ شمع دانوں کو
کچل دو نقطہ دانوں کو
پڑھو قومی ترانوں کو
کہ پاکستان زندہ آباد
لاؤ رشوت ستانوں کو
جو بنگلے اور محل جوڑیں
شرمائیں آسمانوں کو
پڑھو قومی ترانوں کو
کہ پاکستان زندہ آباد
یہ 1950 کی دہائی تھی اور ہر طرف دنیا کے کئی ممالک کے نوجوانوں کی اور طلبہ تحریکیں عروج پر تھیں۔ اس پر اسی نظم میں حیدر بخش جتوئی سندھ کے طلبہ کو مخاطب ہو کر کہتے ہیں؛
اے شاگردو دیکھو دنیا کے شاگردوں جوانوں کو
بڑھو اک امتحاں خاطر چھوڑو سب امتحانوں کو
پڑھو قومی ترانوں کو کہ پاکستان زندہ آباد
ان دنوں جب چین کے اس وقت کے وزیر اعظم چو این لائی کوٹری بیراج (سرکاری نام غلام محمد بیراج) کا افتتاح کرنے آئے تھے تو انہوں نے حیدر بخش جتوئی سے ملاقات کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ حیدر بخش جتوئی نے ان سے ملاقات کی تھی۔
حیدر بخش جتوئی سندھ کے وہ نادر روزگار سیاسی رہنما تھے لسانی تعصب جن کے قریب سے بھی نہیں گزرا تھا۔ نہ فقط ان کی رشتہ داریاں اردو بولنے والے خانوادوں میں تھیں بلکہ انہوں نے اپنی ایک نظم میں سندھیوں اور مہاجروں کو سندھ کی یکساں اولاد قرار دیا ہے۔ یہ نظم سندھی میں اور اس نظم کا آخری بند اردو میں ہے؛
هر مُهاجر لهي ٿو ساڳيو ساءُ؛
ٿو محبت منجهان ڪڍي پڙلاءُ:
”هم تمهارے هيں تو هماري سندهه!
لیکن جو انہوں نے شکوہ انسان کا خدا سے لکھا ہے، وہ نظم اپنی مثال آپ ہے۔ چند اشعار حیدر بخش جتوئی کے شکوہ کے؛
نام مشہور جہاں میں ہے انساں میرا
ساری قدرت پر چلتا ہے فرمان میرا
یہ جہاں ہے فقط ساز و سامان میرا
یا اللہ تجھے یاد بھی ہے احساں میرا
سیر ہر جا کا کرایا تجھے میں نے دلبر
عرش کا تجھ کو دیا ادب سے میں نے منظر
کوئی زمانہ تھا جب تیرا کوئی جہاں بھی نہ تھا
نام تیرا بھی نہ تھا اور نشاں بھی نہ تھا
تیری تسبیح بھی نہ تھی تیرا بیاں بھی نہ تھا
کوئی ستارہ نہ تھا کوئی حیواں بھی نہ تھا
تب حکمت نہ تھی تجھ میں جہالت نہ تھی
کس پہ قادر نہ تھا کہیں تری قدرت بھی نہ تھی
تجھ میں جذبہ نہ تھا جنبش نہ تھی حرکت بھی نہ تھی
قہر اور رحم نہ تھا ان کی ضرورت بھی نہ تھی
تیرا تنا عشق عدم سے کوئی معشوق نہ تھا
تو خالق نہ تھا تب کوئی مخلوق نہ تھا
تیرا انجام نہیں تیرا آغاز نہیں
تیرا گھر بار نہیں ساز نہیں ناز نہیں
تیرا کوئی خویش نہیں کوئی دمساز نہیں
تیرا کچھ رنگ نہیں تیری کچھ آواز نہیں
تو نے تو ازل سے عدم سے رفاقت پائی
ایسی صفات سے تو نے زینت پائی
حبیب جالب جیسے عوامی شاعر نے آج تک اگر کسی کو اپنا سیاسی رہنما مانا تھا تو صرف اور صرف حیدر بخش جتوئی تھا۔ جب کراچی میں ماں باپ کا گھر چھوڑ کر نکلا اور ایوب کھوڑو کی حکومت نے اسے تنگ کیا تو وہ حیدر آباد سندھ حیدر بخش جتوئی کی قیام گاہ اور 'ہاری مرکز' ہاری محفل آ گئے تھے۔ ان کے ساتھ ہاری تحریک میں بھی کام کیا۔ انہوں نے حیدر بخش جتوئی پر ایک نظم بھی لکھی:
ہاری کا غم کھانے والا
حیدر بخش جتوئی رے بھیا
حیدر بخش جتوئی آخری بار اس وقت گرفتار ہوئے تھے جب وہ 1969 میں کراچی میں جی ایم سید کی طرف سے ان دنوں مغربی پاکستان کا دورہ کرنے والے شیخ مجیب الرحمان کے اعزاز میں دیے جانے والے استقبالیہ میں شرکت کے بعد وہاں سے باہر نکلے تھے۔ تب شیخ مجیب الرحمان نے کہا تھا اگر ان کی پارٹی برسراقتدار آئی تو وہ حیدر بخش جتوئی کو گرفتار کرنے والے پولیس والوں کے خلاف کارروائی کریں گے۔
حیدر بخش جتوئی 21 مئی 1970 کو یہ سیارہ زمین چھوڑ گئے۔ یحییٰ خان نے 1970 کی شروعات میں یکم جولائی بطور ون یونٹ توڑنے کی تاریخ اعلان کیا تھا جو اعلان حیدر بخش جتوئی نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں سن لیا تھا۔ جس ون یونٹ کے خاتمے کیلئے انہوں نے بہت بڑی جدوجہد کی تھی۔
انہیں سندھ کے شریف حکمران اور حیدر آباد شہر کے معمار میاں غلام شاہ کلہوڑو کے مزار کے احاطے میں دفن کیا گیا۔ مجھے یاد ہے جب حبیب جالب 1976 میں حیدر آباد سینٹرل جیل میں سے حیدر آباد سازش کیس میں ضمانت پر رہا ہو کر آئے تھے تو وہ سیدھا حیدر بخش جتوئی کے مزار پر حاضری دینے آئے تھے۔ اس قافلے میں کہیں راقم الحروف بھی پچھلی صفوں میں موجود تھا۔
حیدر آباد شہر میں حیدر بخش جتوئی کی 'ہاری منزل' کے سامنے والا چوک 'حیدر چوک' کہلاتا ہے۔