ایک انڈین اور ایک پاکستانی امریکی بار میں

ایک انڈین اور ایک پاکستانی امریکی بار میں

(ندیم فاروق پراچہ)


 

(عزیز قارئین، یہ ایک طنزیہ تحریر ہے، اور اسے اسی انداز سے دیکھا جانا چاہیے )


امریکہ میں مقیم ایک پاکستانی اور ایک بھارتی شہری نیویارک شہرکے ایک بار میں گئے۔ دونوں افراد کامیاب سرجن تھے ۔ وہ اپنی اپنی نشست پر بیٹھے اور بیئر کا آرڈر دیا ۔بار میں لگی ٹی وی سکرینز میں سے ایک پراس سال اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہونے والی تقاریر کے کچھ حصے دکھائے جارہے تھے ۔


جب وہ دونوں سرجن آرام سے بیٹھ کر بیئر سے لطف اندوز ہورہے تھے تو اُن کے سامنے والی سکرین پر بھارتی وزیرِ خارجہ کی تقریر کی جھلکیاں نمودار ہوئیں۔ وزیر نے کہا...’’ انڈیا نے دانشور، ڈاکٹر، انجینئر پیدا کیے ہیں۔ پاکستان نے کیا پیدا کیا ہے ؟ دھشت گرد؟‘‘


پاکستانی سرجن نے تیوری چڑھاتے ہوئے پوچھا...’’تو کیا اُن کے کہنے کا یہ مطلب ہے کہ میں ایک بھارتی ہوں؟‘‘


انڈین سرجن نے اپنے کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا ، ’’نہیں، بطور ایک پاکستانی سرجن، آپ کو انفرادیت حاصل ہے۔‘‘


’واقعی؟‘پاکستانی نے پوچھا، ’کیا کھانے کے لیے کچھ منگوائیں؟‘‘


’یقینا‘، بھارتی سرجن نے جواب دیا۔


ویٹریس آئی اور پوچھا، ’کچھ کھانے کے لیے چاہیے؟‘


’ہاں‘، پاکستانی نے جواب دیا، ’میں کلاسیکل ڈبل پیٹی بیف برگر لوں گا‘۔


اس پر بھارتی نے تیوری چڑھائی اور پوچھا،’بیف برگر؟‘ میرا تو خیال تھا کہ آپ بیف سے گریز کرتے ہیں؟‘


پاکستانی کا طنزیہ جواب تھا ، ’آج میں انفرادیت کا مظاہرہ کررہا ہوں۔‘




Source: https://zainyjee.wordpress.com/category/india-pakistan/


’ٹھیک ہے‘، بھارتی سرجن ویٹریس کی طرف مخاطب ہوا اور کہا ، ’ مجھے سور کا گوشت لادو۔‘‘


’سور کا گوشت؟‘ پاکستانی نے کہا۔ ’میرا تو خیال تھا کہ تم سور کو غلیظ جانور سمجھتے ہو۔‘


’آج میں اپنے ایک منفرد پاکستانی دوست کے لیے انفرادیت کا مظاہرہ کررہا ہوں‘، بھارتی نے جواب دیا۔


پاکستانی نے اپنا سرہلایا سرسری لہجے میں کہا، ’تم جانتے ہوکہ گزشتہ برس آپ کی وزیرِ خارجہ مجھ سے ملنے آئی تھیں‘‘


’کیا واقعی ؟‘


’ہاں۔ وہ نیویارک میں تھیں، بیماری کی رخصت پر۔ اُن کے سیکرٹری نے اُنہیں شہر کے بہترین سرجن سے وقت لے دیا ۔ گویا مجھ سے۔‘ پاکستانی مسکرایا۔ ’یہ جان کر بہت خوشی ہوئی‘، بھارتی کا جواب تھا۔


’لیکن جب وہ آئیں تو میرا نام تک نہیں جانتی تھیں‘، پاکستانی نے جواب دیا۔ ’بہرحال اُنھوں نے مجھے بتایا کہ وہ ایک بہت اچھے بھارتی ڈاکٹر کو امریکہ میں دیکھ کر بہت خوش ہوئی ہیں۔ جب میں نے اُنہیں بتایا کہ میں دراصل پاکستانی ہوں تو اُن کا چہرہ لٹک گیا۔ ‘


’کیوں؟‘ بھارتی سرجن نے پوچھا۔


’اُنھوں نے کسی بھارتی ڈاکٹر سے ملنے پراصرار کیا ۔اُنھوں نے کہا کہ وہ کسی پاکستانی ڈاکٹر پر اعتماد نہیں کرسکتیں، اور اس کی وجہ اُن کی بیماری کی نوعیت تھی ۔‘ پاکستانی نے وضاحت کی ۔


’اُنہیں کیا بیماری تھی؟‘ بھارتی نے پوچھا۔


’بواسیر‘، پاکستانی نے جواب دیا۔


’اوہ‘، بھارتی نے کہا، ’اُن کے سیکرٹری نے غلطی کی۔ کسی بھارتی ڈاکٹر سے وقت لینا چاہیے تھا۔ تم سمجھ سکتے ہو کہ وہ کسی پاکستانی سے بواسیر کا معائنہ کرانے میں توہین محسوس کرتیں‘۔


پاکستانی سرجن نے تھوڑا سا توقف کیا اور کہا، ’میرا خیال ہے کہ تم ٹھیک کہتے ہو۔ اگر کسی پاکستانی کو ایسی بیماری ہوتی تو وہ کسی بھارتی سے اس کی تشخیص کرانے میں توہین محسوس کرتا۔ ‘


بھارتی مسکرایا اور کہا، ’ تم بہت سمجھدارہو، اگرچہ پاکستانی ہو۔ انفرادیت کا ایک اور مظاہرہ۔‘


اس تبصرے نے پاکستانی کو قدرے تاؤ دلادیا، ’تم پاکستانیوں کے ساتھ گائے کے گوشت کا ساسلوک کیوں روا رکھتے ہو؟‘‘


’گائے کے گوشت کا سا سلوک؟‘‘بھارتی نے پوچھا، ’تم بھارتیوں کے ساتھ سور کے گوشت کا سا سلوک کیوں کرتے ہو؟‘


’سور کے گوشت کا ساسلوک؟‘ پاکستانی نے جواب دیا، ’کیا احمقانہ بات کی ہے ؟ میرا تو خیال تھا کہ بھارتی زبان کے معاملے میں ہم سے بہتر ہیں۔‘


’ہم ہیں‘، بھارتی نے جواب دیا۔




A cartoon by Beena Sarwar & Kunda Dixit for Himal Magazine (1998)

’یقینا‘ پاکستانی نے کہا، اور پھر اپنے سر کو بائیں سے دائیں ہلاتے ہوئے کہا، ’ تم اس کی طرح کے ہو۔ کیا ایسا نہیں ہے ؟‘


’یہ نسل پرستانہ تبصرہ ہے‘، بھارتی نے احتجاج کیا ۔


پاکستانی نے ٹی وی سکرین کی طرف اشارہ کیا جہاں اقوامِ متحدہ کا نمائندہ بھارت میں مسلمانوں اور دلت آبادی کوتشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات بیان کررہا تھا۔ اُس نے ایک نوجوان کشمیری لڑکی کی تصویر لہرائی ۔ اُس کا چہرہ پیلٹ گن کے چھّروں سے زخمی تھا۔ پاکستانی نے بھارتی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’اگر میں نے نسل پرستی کا مظاہرہ کیا ہے تو یہ کیا ہے ؟ مجسم رواداری اور برداشت؟‘


بھارتی نے سکرین کو غور سے دیکھا اور کہا، ’ایک منٹ ٹھہرو۔ میںیہ تصویر دیکھ چکا ہوں۔ یہ کشمیری لڑکی نہیں ہے ۔ یہ ایک فلسطینی عورت ہے!‘


’ٹھیک ہے ‘، پاکستانی نے کہا۔ اُس کے لہجے میں شرمندگی کا تاثر ابھرا ۔ ’وہ ایک لڑکی ہے ۔ ویسے کیا تم یقین سے کہہ سکتے ہو کہ وہ ایک فلسطینی عورت ہے ؟‘


’بالکل۔ مجھے یقین ہے ۔ میں نے چند ماہ پہلے یہ تصویر برطانیہ کے اخبار میں دیکھی تھی ۔ کیا تم لوگ کبھی درست بات بھی کرتے ہو؟‘ بھارتی کا لہجہ طنزیہ تھا۔


’لیکن اس سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی کہ آپ لوگ مسلمانوں اور دلتوں پر تشدد کرتے ہو اور کشمیریوں پر پیلٹ گنز سے چھّرے برساتے ہو۔ ‘ پاکستانی نے آگے سے جواب دیا۔


’واقعی؟‘ بھارتی نے جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا ، ’ تم لوگ اپنے وطن میں مسیحیوں، ہندووں اور احمدیوں کے ساتھ کیا کرتے ہو؟‘


’اوہ، تو یہ وجہ ہے کہ تم نے مسلمانوں اور دلتوں کا جینا حرام کررکھا ہے ۔‘ پاکستانی کا جواب تھا۔ ’ تو دنیا کی عظیم ترین جمہوریہ جو دنیا کو دانشور، ڈاکٹر اور انجینئرز دیتی ہے ، اب پاکستان جیسا بننا چاہتی ہے ؟‘


’ ہم صرف اُن کی ٹھکائی کرتے ہیں جو ہمارے مذہبی یا قومی جذبات مجروع کرتے ہیں۔‘ بھارتی کا جواب تھا۔


’ہاہا، کیا اتفاق ہے ،‘ پاکستانی نے کہا ، ’ ہم بھی بالکل یہی کچھ کرتے ہیں۔ اے دنیا کے لیے عظیم بھارتی تحفے، اس کلب میں خوش آمدید۔‘


’تم لوگ دھشت گرد پیدا کرتے ہو۔ ‘ بھارتی چنگاڑا۔


’اور تم آبروزی ریزی کرنے والے، گوشت خور اور متشدد جنونی پیدا کرتے ہو‘، پاکستانی چیخا۔


’ آبروریز ی کرنے والو!‘


’ دھشت گرد جنونیو!‘




A cartoon from Japan Times website

جب وہ ایک دوسرے پر چیخ، چلاّ رہے تھے تو ایک افریقہ نژاد امریکی نے مداخلت کی ، ’معافی چاہتاہوں جناب، بار کی نشستیں بھر چکی ہوں۔ آپ کی میز پر ایک کرسی خالی ہے ۔ کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں تاوقتیکہ مجھے کوئی اور کرسی نہیں مل جاتی؟‘پاکستانی اور بھارتی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اورپھر بھارتی نے کہا، ’معافی چاہتاہوں، جناب، لیکن ہم کسی کی آمد کے منتظر ہیں۔


’اوہ‘ ، سیاہ فام امریکی نے کہا، ’ٹھیک ہے ، زحمت دینے کی معافی چاہتاہوں‘‘ اور وہ چلا گیا۔


’یہ کاہل لوگ، مفت خورے‘ بھارتی نے کہا ۔


’درست کہتے ہو‘ ، پاکستانی نے اتفاق کرتے ہوئے کہا۔ ’ کیا پتہ وہ ہماری جیبیں صاف کرجاتا۔‘


’یقینا۔ میرا خیال ہے کہ فطری طورپر ان کی نسل ہی خراب ہے۔‘ بھارتی نے بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا۔


جب وہ سیاہ فام امریکی پر تبادلۂ خیال کررہے تھے تو ایک جسیم سفید فام نمودار ہوا ، ’کیا یہ کرسی خالی ہے ؟‘


’جی ہاں۔ پلیز تشریف رکھیں۔‘بھارتی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔


’جی ، جی ، ضرور، بیٹھیں‘، پاکستانی نے کہا۔


’بہت شکریہ‘ ، سفید فام نے بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’کیا آپ یہاں سیاحت پر آئے ہیں؟‘ اُس نے پوچھا۔


’نہیں، ہم دونوں امریکی ہیں۔ ڈاکٹر۔‘ بھارتی نے جواب دیا۔


سفید فام شخص نے دونوں کو تیز نظروں سے گھورتے ہوئے پوچھا، ’میکسیکن؟‘


’نہیں‘، بھارتی نے جواب دیا، ’میں بھارتی ہوں اور یہ دھشت گرد ہے، ہا ہا ہا۔۔۔‘


‘درحقیقت‘، پاکستانی نے کہا، ’میں ایک پاکستانی ہوں اور یہ ایک تشدد پسند ہے ۔‘


سفید فام اس تعارف پر بالکل محظوظ نہ ہوا۔ اُس کے چہرے پر سنجیدگی طاری تھی: ’تم لوگ یہاں کیوں آئے ہو؟‘


’اس بار میں؟‘ بھارتی نے پوچھا۔


’امریکہ میں‘، سفید فام نے جواب دیا۔


’انسانیت کی خدمت کرنے،‘ بھارتی نے جواب دیا۔ ’میں ایک ڈاکٹر ہوں، تم جانتے ہو، اور ۔۔۔‘


’انڈیا میں انسانیت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ‘، پاکستانی نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔


’بالکل درست، ‘ بھارتی نے جواب دیا۔ پھر اُس نے سفید فام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ، ’ حتیٰ کہ وہ بھی جانتا ہے کہ پاکستانی کتنے مہذب ہیں۔ دھشت گرد، سب کے سب۔ ‘


سفید فام نے پاکستانی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، ’تم کیا کہتے ہو؟‘


’میں ایمانداری سے بات کروں گا، ‘ پاکستانی نے جواب دیا۔ ’میں یہاں اس لیے آیا تھا کہ اُس سے زیادہ دولت کما سکوں جتنی میں پاکستان میں کما سکتا تھا۔‘


’تمہارے کہنے کامطلب ہے کہ ہماری دولت۔ امریکیوں کی دولت۔‘ سفید فام نے جواب دیا۔ اس کا چہرہ ابھی تک سنجیدہ تھا۔ ’یہاں تم جیسے بہت ہیں۔‘


’ارے ہاں‘، بھارتی نے جواب دیا۔ ’مجھے یقین ہے کہ ریڈانڈینز نے یہی بات تمہارے بارے میں بھی کہی تھی جب تم لوگ یہاں آئے تھے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ ‘


’وہ وحشی تھے!‘ سفید فام نے کہا، اور اس کا لہجہ پرجوش تھا۔ ’خدا چاہتا تھا کہ ہم اس عظیم سرزمین پر آئیں اور تہذیب اور کلچر کی ترویج کریں۔ بہرحال میرے آباد و اجداد کا تعلق پولینڈ سے تھا۔ وہ اُس فرانسیسی لڑکے ، کولمبس کے کافی دیر بعد یہاں آئے تھے ۔ ‘


’کولمبس سپینی تھا،‘ پاکستانی نے سفید فام کی تصیح کی ۔


’سپینی، فرانسیسی، اطالوی۔۔۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا،‘ امریکی نے وضاحت کی۔ ’اصل بات یہ ہے کہ وہ سفید فام تھا۔ ‘




Via Stanford.edu

’دراصل‘ ، بھارتی نے کہا ، ’ہزاروں سال پہلے ہم لوگ سفید فام آریہ نسل کے تھے ۔ ہم نے ہوائی جہاز، کاریں، انجن اور حتیٰ کہ اُڑن طشتریاں تک بناڈالیں، لیکن پھر وحشی مسلمان ہم پر حملہ آور ہوگئے ۔ ہم تہذیب کا سفر اور اپنی سفید رنگت کھو بیٹھے ۔ ‘


’واقعی؟‘، اب پاکستانی کی باری تھی۔ ’ یہ ہم تھے جنہوں نے تمہیں تہذیب سکھائی۔ ہم ذہن قوم تھے ۔ حتیٰ آج بھی ہمارے سائنس دان جنات سے بجلی کشید کررہے ہیں اور آسمان کی گردش کی رفتار ماپ رہے ہیں۔ سنو، ہم سوئی کے سوراخ سے اونٹ بھی گزار سکتے ہیں۔‘


’تم دونوں کی بات ختم ہوگئی؟‘ سفید فام نے پوچھا۔ ’تم دونوں ڈاکٹر ہو۔‘


’ہاں ، ہم ہیں، ‘ پاکستانی نے جواب دیا۔


’ٹھیک ہے، مجھے طبی مشورے کے لیے تم سے وقت لینا ہے ۔‘ سفید فام نے کہا۔


’اپنے ساتھی امریکی کی خدمت کرنا ہمارے لیے عزت افزائی کا باعث ہوگا ، ‘ پاکستانی نے جواب دیا۔


’یقینا،‘ بھارتی نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا، ’ہم بھی سیاہ فاموں سے نفرت کرتے ہیں۔‘


’اور یہودیوں سے بھی ‘، پاکستانی نے بات اضافہ کیا۔


’اور ہم جنس پرستوں سے بھی‘ بھارتی نے لقمہ دیا۔


’اور میں نے تو مسٹر ٹرمپ کو ووٹ دیا تھا،‘ پاکستانی نے اعلان کیا۔ ’ویسے تم نے کس لیے وقت لینا ہےْ ‘


’ایک امریکی ہونے کے ناتے میں ، اور خاص طور پر جو میری بیماری کی نوعیت ہے ، میں چاہتا تھا کہ کوئی بھارتی ڈاکٹر میرا معائنہ کرے ۔ ‘


’اوہ‘، پاکستان نے مایوسی سے کہا۔ ’ویسے بیماری کی نوعیت کیا ہے ؟‘


’بواسیر‘۔




A cartoon from Subversify