ہم اپنے بچوں کو کیسے بچا سکتے ہیں؟

ہم اپنے بچوں کو کیسے بچا سکتے ہیں؟

پاکستان کے شہر، قصور میں حال ہی میں ایک بچی زینب کے ساتھ جنسی درندگی کا واقعہ پیش آیا جس کے بعد اسے قتل کر دیا گیا. زینب کا واقعہ تنہا نہیں تھا. قصور میں ایسے ١٠ اور واقعات ہو چکے تھے اور کچھ سال پہلے بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات بھی سامنے اے.مگر یہ واقعہ صرف قصور یا مردان یا کراچی کا نہیں. ایسے کئی واقعات ہوتے رہتے ہیں اور اخبارات میں چھپتے ہیں، ٹیلی ویژن سکرین پر تواتر کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں۔ انہیں دیکھ اور پرھ کر والدین لزر اٹھتے ہیں. ان سے بچنے کے لئے ہم کیا کر سکتے ہیں؟


سب سے پہلے تو ضروری ہے کہ ہماری حکومت پولیس اور قانون کو مضبوط کرے. قانون نافذ کرنے والی ایجنسیز کو چاہیے کہ اس طرح کے مجرمان پہ کڑی نظر رکھیں اور انکو سزا دلوائیں۔ .


مگر دوسری اور سب سے بڑی ذمہ داری ہماری بحیثیت ماں باپ کی ہے. بچے کم عمر اور کم عقل ہوں تو ان پہ نظر رکھنا، انکے آنے جانے پہ نظر رکھنا، ان سے کون مل رہا ہے، کس طرح مل رہا ہے اور ان کے آس پاس ہونے والے تمام واقعات پہ نظر رکھنا ہماری اولین ذمہ داری ہے.


کاش ہمارا معاشرہ ایسا ہوتا کہ ہمیں ان باتوں کی فکر نہ کرنی پڑتی، مگر حالات اور ماہرین کے مطابق 18 سال سے کم عمر کے لوگ اپنے فیصلے کرنے میں نہ صرف ناقص ہوتے ہیں بلکہ سائنس کے مطابق اس عمر تک آپ کا دماغ پوری طرح بالغ نہیں ہوا ہوتا. لہٰذا اپنے بچوں کی ذمہ داری اتھانا ہمارا ہی کام ہے.


سب سے پہلی بات. اجنبیوں سے ملاقات .





Source: Sao Star


 

کوشش کریں کہ جب بھی آپ کے بچے کسی اجنبی سے ملیں تو انکو صرف ہاتھ ملانے کی اجازت ہو. ہمارے یہاں کبھی کبھی لوگ بہت زیادہ پیار محبت دکھانے کے چکر میں بچوں سے زیادہ ہی لاڈ پیار دکھاتے ہیں. گو کہ بچوں سے پیار کرنا اچھی بات ہے لیکن اپنے اور اجنبی میں فرق جاننا بچوں کے لئے بہت ضروری ہے. بچوں کو یہ سکھانا بہت ضروری ہے کہ کون آپ کے کتنا قریب آ سکتا ہے. آپ کے جسم کو ہاتھ نہیں لگا سکتا ہے. اور یہ باتیں آپنے بچوں کو آپ ہی بتائیں کہ اگر کوئی انھیں غلط طریقے سے ہاتھ لگاتا ہے تو انکو فوراً چیخنا چاہئے اور مدد کے لئے بلانا چاہیے. غلط طریقے سے ہاتھ لگانا کیا ہوتا ہے یہ انھیں بتائیں۔





Source: Sao Star


 

دوسری بات، آپ کے بچے کہیں بھی جائیں، انکے ساتھ کسی قابل ِ اعتماد انسان کا ہونا ضروری ہے. اجنبیوں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا. اسی طرح بچوں کو اکیلے دکان بھیجنا، کہ جاؤ بیٹا دہی لے آؤ، دودھ لے آؤ، ٹافی لے آؤ - اس کی ممناعت ہونی چاہیے. کیونکہ بچوں کو اسی طرح ورغلایا جا سکتا ہے اور بچے معصوم ہوتے ہیں اور فوراً باتوں میں آ جاتے ہیں۔.


تیسری اور آخری بات: اسکول اور مدرسہ. آپ کے بچے کہیں بھی پڑھنے جاتے ہوں، آپ گزارش کریں کہ ہر وقت آپ کو آگاہ رکھا جاۓ کہ اسکول میں کیا ہو رہا ہے اور آپ خود بھی آگاہ ہوں کہ بچہ کیا کر کے آتا ہے. نیز یہ بھی کوشش کریں کے اسکول ہو یا مدرسہ، وہاں سی سی ٹی وی کی موجودگی ضرور ہو. کلاسوں کے اندر کیا ہو رہا ہے اور اساتذہ کسی بچے کے ساتھ اگر کسی کمرے میں اکیلے بیٹھے ہوں تب یقینی طور پہ انکو مانیٹر کیا جانا چاہئے۔ .


ہمارے بچے ہمارا اثاثہ ہیں. ہمارا مستقبل ہیں. ان سے بڑھ کے کچھ نہیں. اور اپنے بچوں کی حفاظت کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔