اس تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق چار دسمبر کو 'پاکستان آکسیجن' نامی کمپنی نے تین ہزار 700 کیوبک میٹر آکسیجن فراہم کی جبکہ ہسپتال کے ٹینک میں سات ہزار کیوبک میٹر تک کی آکسیجن ذخیرہ ہو سکتی ہے۔
اس حوالے سے انڈیپندںٹ اردو نے ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی ہے جس میں کمپنی کے جنرل مینیجر ایڈمنسٹریشن مظہر علی نے انڈپینڈنٹ اردو کوانٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسی ہسپتال کو اکتوبر میں 30 ہزار کیوبک میٹر آکسیجن کی ضرورت تھی جو انہوں نے سپلائی کی جبکہ نومبر میں ہسپتال نے زیادہ سپلائی مانگی تو انہوں نے تقریباً 60 ہزار کیوبک میٹر دی جو روزانہ کی بنیاد پر تقریباً دو ہزار کیوبک میٹر بنتی ہے۔
مظہر علی نے کہا کہ ’ہم نے ہسپتال کو نومبر کی اوسط سپلائی کو مد نظر رکھتے ہوئے چار دسمبر کو ضرورت سے زیادہ آکسیجن فراہم کی جو روزانہ اوسطاً تین ہزار 700 کیوبک میٹر تھی، جو اس مہینے تقریباً 90 ہزار کیوبک میٹر سے تجاوز کر جائے گی۔ ہسپتال نے ہمیں سپلائی زیادہ کرنے کا کبھی نہیں بتایا، جو ہسپتال انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ معاہدے میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ہسپتال انتظامیہ دوبارہ آرڈر کی ذمہ دار ہو گی۔‘
مظہر کے مطابق اگر ہسپتال کو زیادہ آکسیجن کی ضرورت تھی تو وہ بتا دیتے اور ہم اسی حساب سے آکسیجن سپلائی کر دیتے۔
معاہدے کی مدت ختم ہونے کے بارے میں انہوں نے بتایا: ’ہم نے ہسپتال کے ساتھ 2015 میں معاہدہ کیا تھا جو 2017 میں ختم ہو گیا۔ اس کے بعد ہسپتال انتظامیہ نے بغیر ٹینڈر کے یہ معاہدہ جون 2020 تک بڑھایا، جس کے بعد ہسپتال کے ساتھ کمپنی کا کسی قسم کا معاہدہ نہیں۔‘
حقیقت یہ ہے کہ جب سپلائی ختم ہوئی تب ہستپال نے کال کی اور ہم نے ان کو گاڑی بھیج دی، جسے ہسپتال کے ریکارڈ سے چیک کیا جا سکتا ہے۔‘
مظہر کے مطابق بیک اپ نظام کے حوالے سے انہوں نے ہسپتال انتظامیہ کو بارہا بتایا تھا کہ اس کا انفراسٹرکچر مکمل کیا جائے لیکن وہ نہیں ہو سکا۔ ’معاہدے کے تحت ہسپتال میں موجود پلانٹ کی مانیٹرنگ، مینٹیننس اور باقی معاملات کی ذمہ داری ہسپتال انتظامیہ کی ہے اور کمپنی کا کوئی نمائندہ یا ملازم ہسپتال میں کام نہیں کرتا۔‘
اس واقعے پر بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ وزیراعلیٰ کو بھجوا دی ہے، جس کی روشنی میں ہسپتال کے انتظامی امور کے ڈائریکٹر سمیت سات ملازمین کو معطل کیا کر دیا گیا۔
تحقیقاتی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ہسپتال میں آکسیجن کی سپلائی کی بندش سے کرونا وارڈ میں 7 افراد ہلاک ہوئے اور دیگر یونٹس میں اگر ہلاکتیں ہوئی ہیں تو ان کو تفصیلی رپورٹ کا حصہ بنایا جائے گا۔