ماحول کے تحفظ کے لئے مختص 100 ارب ڈالر کے عالمی فنڈ میں سے پاکستان کو ایک روپیہ نہ ملا

ماحول کے تحفظ کے لئے مختص 100 ارب ڈالر کے عالمی فنڈ میں سے پاکستان کو ایک روپیہ نہ ملا
وزیر اعظم عمران خان کو بخوبی علم ہے کہ دنیا کی سیاست میں کون سے مسائل برانڈنگ سمبلز کے طور پر موضوع سیاست ہوں تو کسی رہنما کو عالمی سطح پر پذیرائی ملتی ہے اور داخلی سطح پر اسی پذیرائی کی رسید کے رعب تلے اس کی دکان دن دوگنی اور رات چو گنی چل سکتی ہے۔ ان علامات میں کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے کی سیاست نمبر ایک ہے جب کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف کوشاں ہونا بھی اہم ترین ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ عمران خان ان مسائل پر اپنے خیالات اس قدر شدت سے دہراتے ہیں کہ کئی بار کچھ گڑبڑ ہونے کا شک بھی گزرتا ہے۔ 2011 میں وزیر اعظم عمران خان نے جب سے سیاست میں نیا جنم لیا تب سے ہی وہ کرپشن کے خلاف تبدیلی سونامی یا پھر بلین ٹری سونامی کی بات کرتے نظر آئے ہیں جسے بڑھا کر اب 10 بلین ٹری سونامی کر دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کا متحرک ہونا ایک طرف، ان کی اس معاملے میں کرپشن کی باتیں بھی عام ہیں۔ اس حوالے سے گذشتہ ماہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے وزیر اعظم کی تعریف کر کے ان کے کئی مقاصد پورے کیے اور لگا یوں ہی کہ شاید وزیر اعظم کی کوششیں رنگ لے آئیں۔ مگر اب معلوم پڑا ہے کہ عالمی تنظیموں جیسے یو این ڈی پی، یو این ایف سی سی سی، یونیسیف، ڈبلیو ڈبلیو ایف، او ای سی ڈی اور اے ڈی بی وغیرہ کی جانب سے گلوبل وارمنگ کے اثرات کو کم کرنے کی ان گنت کوششوں کے اعترافکے باوجود، پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی کے سدباب کے لئے مختص 100 ارب ڈالر کے عالمی فنڈز سے ایک پیسہ بھی نہیں ملا جو کا کہ پیرس معاہدے کے تحت ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے وعدہ کیا گیا تھا۔

وزیر موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم کا کہنا ہے کہ پاکستان آئندہ COP-26 کانفرنس میں یہ مسئلہ اٹھائے گا۔ "موسمیاتی تبدیلیوں سے بچاؤ کے لئے سرمایہ داری کے اعلانات بہت بڑے ہیں لیکن زمین پر معاملہ صفر بٹا صفر ہے۔ پاکستان اپنی کوئی غلطی نہ ہونے کے باوجود موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہوا ہے اور اپنے بجٹ سے آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات کو کم کر رہا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دنیا کو ترقی پذیر ممالک کی ضروریات کے مطابق معتبر اور شفاف طریقے سے موسمیاتی فنڈ کی فراہمی کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر، آب و ہوا کی تبدیلی کے لئے مذاکرات ختم ہو جائیں گے اور ان میں کون سے فیصلے ہوئے، ان کے پاس یہ بتانے کو بھی نہیں ہوگا کیونکہ اس محاذ پر مسلسل خاموشی ہے۔

یاد رہے کہ پیرس معاہدہ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ایک بین الاقوامی قانونی معاہدہ ہے۔ اسے 12 دسمبر 2015 کو پیرس میں COP 21 میں 196 دستخط کنندگان نے اپنایا اور 4 نومبر 2016 کو نافذ کیا گیا۔ تجزیہ کاروں کے نزدیک پیرس معاہدے پر عمل درآمد کے لئے ایسی معاشی اور سماجی تبدیلیوں کی بھی ضرورت ہے جن کا دارومدار سائنسی عقل و دانش پر ہو۔ پیرس معاہدہ 5 سالہ منصوبوں کی صورت میں کام کرتا ہے اور اس کا ایجنڈا انتہائی تیزی سے اس سمت میں آگے بڑھنے کا ہے۔

پاکستان نے ایک ارب درختوں کی سونامی کے منصوبے کو تکمیل کی تاریخ سے پہلے ہی مکمل کر لیا ہے۔ اس نے قدرتی ماحول کو بچانے کے لئے متعدد حکمتِ عملیاں اپنائی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی وزارت میں کام کرنے والی آب و ہوا کی ماہر سیدہ حدیقہ جمشید کا کہنا ہے کہ پاکستان ان فنڈز کا سب سے زیادہ مستحق ہے اور اسے ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے 100 بلین ڈالر کے موسمیاتی فنانس کے تحت فنڈ دیا جانا چاہیے۔

یو این ایف سی سی سی کی جانب سے آب و ہوا میں پاکستان کی پرعزم شراکت کے بارے میں ایک رپورٹ کے مطابق، اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج کی 22 ویں کانفرنس سے قبل پاکستان کی توثیق کو بھی زیرِ غور لایا گیا تھا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کے لئے پاکستان کے خطرات موجود اور وسیع پیمانے پر تسلیم شدہ ہیں۔

آب و ہوا کی فنڈنگ سے متعلق ایک اور گروپ نے ایک تحقیق میں کہا ہے کہ 2021 ایک نازک سال ہوگا جس میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان اعتماد کو برقرار رکھنے کے لئے COP26 کی رفتار برقرار رکھنا، اور ضروری آب و ہوا کی کارروائی اور عزائم کے بارے میں ایک نیا اتفاق رائے قائم کرنا وسط صدی تک عالمی کاربن غیر جانبداری حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ 2021 کا عزم 2021 کے ساتھ ہی ختم نہ ہو جائے۔

حکومت کے مطابق پاکستان اب پیرس میں ہونے والی آئندہ COP-26 کانفرنس کے لئے مکمل طور پر تیار ہے اور امید کرتا ہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کو ترقی یافتہ ممالک نوٹ کریں گے اور وعدہ پورا کیا جائے گا۔

پاکستان کے حوالے سے یہ پیش رفت کہ یہاں اربوں درختوں کا بقول شخصے سونامی آیا ہو ہے جب کہ اسے عالمی فنڈ دستیاب نہیں، اپنے آپ میں ایک المیہ ہے۔ یہ المیہ اس بات کا غماز ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت کی عالمی ساکھ نہ ہونے کے برابر ہے یا پھر عالمی سیاست کی پیچیدگیاں اس حکومت کی سمجھ اور دسترس سے باہر ہیں۔