'امریکہ اور اتحادی ممالک کا اقتصادی راہداری منصوبہ سی پیک کے توڑ کے طور پرلانچ کیا جائے گا'

ایشیا، مڈل ایسٹ اینڈ  یورپین اکنامک کوریڈور کے ذریعے سمندری روٹ کی بجائے خشکی کا روٹ ملے گا جس سے تجارتی سامان کے متعلقہ ملک تک پہنچنے کے سفری وقت میں قریب قریب 40 فیصد کمی بھی ہو گی۔ مستقبل میں اس منصوبے میں اسرائیل بھی شامل ہو جائے گا۔ یو اے ای اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات کی بحالی تو ہو چکی ہے جب کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات بھی جلد بحال ہونے کے امکانات ہیں۔

05:47 PM, 11 Sep, 2023

نیا دور
Read more!

جی-20 اجلاس کے سائیڈ لائنز پر امریکا، سعودی عرب، بھارت اور یورپی یونین کے مابین مفاہمتی یادداشت پر  دستخط  ہوئے ہیں جس کے تحت ایشیا بالخصوص بھارت اور یورپ کا  براستہ مڈل ایسٹ ایک اکنامک کوریڈور کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ وائٹ ہاوس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اس منصوبے کو  ایشیا، مڈل ایسٹ اینڈ  یورپین اکنامک کوریڈور کا نام دیا گیا ہے۔ 

سینئر صحافی کامران یوسف نے اپنے وی-لاگ میں بتایا ہے کہ اس اقتصادی راہداری کے ذریعے ناصرف بھارت، مڈل ایسٹ اور یورپ کے درمیان تجارت ہو گی بلکہ جو توانائی کے منصوبے ہیں وہ بھی عمل میں لائے جائیں گے اور  انٹرنیٹ کنکٹویٹی میں بہتری کے لیے زیر سمندر تاریں بچھائی جائیں گی۔ 

یہ معاہدہ بھارت کی جانب سے انیشیٹ کیا گیا تاہم اس میں امریکا بھی سٹیک ہولڈر ہے۔کہا جارہا ہے کہ یہ ایک گیم چینجر منصوبہ ہے جو امریکا اور اس کے اتحادی ممالک نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی فلیگ شپ میں جاری سی پیک منصوبے کے توڑ کے طور پرلانچ کیا جائے گا۔ چونکہ یہ منصوبہ ابھی پہلی سٹیج پر ہے۔ اس پر کتنی لاگت آئے گی، اس کا ٹائم فریم کیا ہے اور یہ کتنا  فیزایبل ہے، اس حوالے سے تاحال کوئی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق رواں سال مئی میں بھارت کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اجیت کمار دوول نے امریکا کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جیک سلیوان  کے درمیان اس اقتصادی کوریڈور پر بات ہوئی۔ بھارتی میڈیا کو دعویٰ ہے کہ یہ معاہدہ بھارت کی جانب سے انیشیٹ کیا گیا۔ بعد ازاں باقی ممالک بھی اس میں شامل ہو گئے۔

یہ معاہدہ ناصرف اکنامک اہمیت بلکہ جیوسٹریٹیجک اہمیت کابھی حامل ہے۔ یہ منصوبہ ہے کیا؟ مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک کے مابین ریل نیٹ ورک بنانا تاکہ ساز و سامان کی ترسیل آسان ہو سکے۔ کیونکہ ان ممالک کے مابین اشیا کی ترسیل شاہراہوں کے ذریعے کی جاتی ہے جو کہ زیادہ فیزایبل نہیں ہے۔ یہ ریل نیٹ ورک سمندری پورٹس کے ساتھ کنیکٹ ہوں گی۔ جو کہ بھارت کے ساتھ لنک ہوں گی۔ انہی سمندری پورٹس کا ریل کے ذریعے یورپ سے رابطہ ہو گا۔ بھارت کا یورپ اور دیگر ممالک سے تجارت کا وقت 40 فیصد تک کم ہو جائے گا۔

ابھی بھارت یورپ سے تجارت کے لیے 'سویز کینال' کا روٹ استعمال کرتے ہوئے بحیرہ روم سے ہو کر یورپ تک رسائی حاصل کرتا ہے۔  اور 'سویز کینال'  کا ہی استعمال کرتے ہوئے بحراوقیانوس سے امریکا اور کینیڈا تک تجارت کرتا ہے۔ 'سویز کینال'  کے روٹ پر کوریڈور بہت تنگ ہے اور کچھ عرصہ قبل کوریڈور کشادہ نہ ہونے کی وجہ سےوہاں ایک بحری جہاز پھنس گیا تھا اور بذریعہ سمندر تجارت بہت متاثر ہوئی تھی۔منصوبے کا مقصد ہے کہ جو ممالک 'سویز کینال'  کے روٹ پر انحصار کرتے ہیں انہیں اس سمندری روٹ کی بجائے متبادل روٹ فراہم کرنا ہے جس سے کم وقت میں سامان کی ترسیل ممکن ہو سکے۔ 

اس حوالے سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مستقبل میں اس منصوبے میں اسرائیل بھی شامل ہو جائے گا۔ یو اے ای اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات کی بحالی تو ہو چکی ہے جب کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات بھی جلد بحال ہونے کے امکانات ہیں۔

اس منصوبے کا روٹ کچھ یوں ہو گا: تجارتی سامان جہاز کے ذریعےممبئی سے دبئی بھیجا جائے گا۔  دبئی سے ریل نیٹ ورک کے ذریعے اسرائیل کی ہائفہ سمندری پورٹ پر پہنچے گا اور وہاں سے یورپ اور امریکا کے لیے بھیجا جائے گا۔ اس طرح بھارت کو 'سویز کینال'  روٹ کا متبادل راستہ مل جائے گا اور اسی روٹ کا استعمال کرتے ہوئے یورپ بھارت میں تجارتی سامان بھیج سکے گا۔

وائٹ ہاوس نے بیان جاری کیا کہ اس سے مڈل ایسٹ میں خوشحالی آئے گی، لو-انکم اور مڈل انکم ممالک کو فائدہ ہو گا۔ روزگار کے نئے مواقع فراہم ہوں گے۔ علاوہ ازیں، جو تجارتی سامان کے متعلقہ ملک تک پہنچنے کے سفری وقت میں قریب قریب 40 فیصد کمی بھی ہو گی۔

چین کی جانب سے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا آغاز کیا گیا جس میں روڈ، ریل اور  سمندری پورٹس کے زریعے لگ بھگ 65 افریقی، ایشیائی اور یورپی ممالک شامل ہیں۔ ٹریلین آف ڈالرز کی اکنامی ہے اور اس کے تحت ایک چین-پاکستان اکنامک کوریڈور ہے۔ امریکا اور مغربی ممالک کا سوچنا ہے کہ بی آر آئی کے تحت سی پیک منصوبہ ایک نیا گلوبل آرڈر نافذ کرنے کی کوشش ہے۔ اور یہ انصاف پر مبنی نہیں ہے۔ جو بھی ممالک اس میں شامل ہوں گے وہ چین کے مقروض ہو جائیں گے۔ جبکہ امریکا کا فنانشل گلوبل آرڈر انصاف پر مبنی ہے۔ اور تمام ممالک کو مواقع میسر آتے ہیں۔

جب سے چین کی جانب سے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو آیا تھا امریکا پر تنقید ہو رہی تھی کہ امریکا کے پاس ا س کا کوئی توڑ نہیں ہے۔  بی آر آئی اور اس کی فلیگ شپ میں جاری سی پیک منصوبے کے توڑ کے طور پرلانچ کیا جائے گا۔

اس حوالے سے  چین کے گلوبل ٹائمز اخبار، جو کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کا ہے،  کی جانب سے کہا گیا ہے کہ بی آر آئی کا آغاز تو 2008 سے ہوچکا تھا اور متعدد ممالک میں اس پر کام جاری ہے۔ جبکہ اس نئے اکنامک کوریڈور کا آغاز 2023 میں کیا جارہا ہے تو کسی بھی اعتبار سے بی آر آئی کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔

امریکی صدر جو بائیڈن کے انتخاب کے بعد سے ملک کے سعودی عرب کے ساتھ سفارتی تعلقات کافی خراب تھے کیونکہ جو بائیڈن نے  ترکی میں جمال کشوگی کے قتل پر بہت سخت موقف اختیار کیا تھا۔ یمن میں خانہ جنگی ہو یا سعودی عرب کی سب سے بڑی آئل کمپنی Aramco پر حوثی باغیوں نے حملے کیے تو سعودی عرب کو امید تھی کہ امریکا ان کی مدد کے لیے آئے گا لیکن امریکا کی جانب سے مدد نہ ملنے کی صورت میں سعودی عرب کو احساس ہوا  کہ اب امریکا پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے سعودی عرب نے چین کے ساتھ تعلقات کی بہتری پر کام شروع کر دیا۔ سعودی عرب میں بہت سے منصوبوں بالخصوص  جو ایک نیا شہر بنایا جارہا ہے اس پر قریب قریب ایک ٹریلین ڈالرز کی لاگت آئے گی ، ان میں چینی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔  چین کا اثرورسوخ اتنا بڑھ گیا کہ سعودی عرف اور ایران کے درمیان مفاہمت بھی کروا دی جس کے نتیجے میں 2016 سے منقطع سفارتی تعلقات بھی بحال ہو گئے۔ سفارتخانے کھول دیئے گئے۔ چین کے لیے تیل کی وجہ سے سعودی عرب اور ایران دونوں ہی اہمیت کے حامل ہیں اور چین کا فائدہ ان کی مفاہمت سے مشروط تھا۔ عرب ممالک کا جھکاو چین کی جانب ہونے سے امریکا کو عدم تحفظ کا احساس ہوا۔ اگر سعودی ممالک چین کے بلاک میں مکمل طور پر چلے جائیں گے تو پورے مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدل جائے گا اور امریکا کا انفلوئنس کم ہو جائے گا۔ امریکا کی جانب سے سعودی عرب پورا پیکج آفر کیا جارہا ہے جس میں دفاعی ڈیل بھی ہو گی لیکن اس کے بدلے سعودی عرب کو اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے ہوں گے اور چین سے دوری اختیار کرنی ہو گی۔

جی-20 اجلاس کے سائیڈ لائنز امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات میں بہتری بھی دیکھنے میں آئی۔ بعد ازاں سعودی عرب کی آفیشل نیوز ایجنسی کی جانب سے بیان جاری کیا گیا جس میں انہوں نے اس نئے معاہدے میں سہولتکاری کے لیے امریکا کا شکریہ بھی ادا کیا۔ جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ امریکا سعودی عرب کو پوری طرح 'چینی بلاک' میں جانے سے روکنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔

مزیدخبریں