میں بھی نواز شریف ہوں، اگر!

میں بھی نواز شریف ہوں، اگر!
اپوزیشن کی تحریک کا وقت درست نہیں ہے۔نوازشریف کے جذباتی خطاب پر سب نے جذبات میں آکر تحریک شروع کردی ہے۔تحریک کو آگے بڑھانے کےلئے کئی مشکلات اور رکاوٹیں ہیں۔ پچھلے مضامین پر کچھ احباب نے سوال اٹھائے کہ نوازشریف پر تنقید اور مخالفت جائز نہیں ہے۔ماضی کی بجائے آج کے حالات اور آج کے نوازشریف کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ حقیقی جمہوریت کا سنگ بنیاد ثابت ہوگی۔
احباب سے مکمل اتفاق کیا کہ معروض یہ تقاضہ کرتا ہے کہ ہم سب نوازشریف کے ساتھ کھڑے ہوں۔ یہی احباب مشورہ دیا کرتے تھے کہ حالات کو سمجھیں اور عمران خان کی حمایت میں لکھیں۔ حالات کا تقاضا ہے۔احباب سے تب بھی مکمل اتفاق کیا تھا تاہم تبدیلی کے نعرے کو انقلاب قرار دینے کی ہر مذموم حرکت کی مخالفت ضرور کی تھی۔
احباب کی معصومیت سے پیار ہے۔ مگر احباب سے عمران خان کی حمایت میں لکھنے کے مشورے پر بھی اور آج نوازشریف کے ساتھ کھڑے ہونے کی ہدایات ملنے پر بھی کچھ سوالات سامنے رکھنے کی جسارت کی ہے کہ مین سٹریم کے سیاسی رہنماوں سمیت  وزراء حضرات اور حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے سیاستدان سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔عوام کی مشکلات اور تکالیف کسی کا مسئلہ نہیں ہے۔
عوام کے ساتھ کوئی کھڑا نظر نہیں آتا ہے۔بیان تک جاری نہیں کیا جاتا ہے۔ نواز شریف ،مریم نواز ،بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل رحمٰن سمیت پی ڈی ایم کی مرکزی قیادت کا نکتہ نگاہ محض اقتدار نظر آتا ہے۔
سیاستدانوں کی سیاست، تقرریں، خطابات، پریس کانفرنسیں اور جلسہ جاتی سرگرمیاں یہ چغلی کھاتی ہیں کہ اقتدار کی منزل کےلئے عوامی راستہ محض دکھاوا ہے۔گل وچ کوئی ہور اے۔
بصورت دیگر تقریروں کے عنوان کچھ اس طرح کے ہوتے کہ گلگت بلتستان میں باباجان کی رہائی کےلئے احتجاجی تحریک حق بجانب ہے اور پی ڈی ایم مکمل حمایت کرتی ہے۔ کم ازکم مریم نواز یا بلاول باباجان کی لمبی قید پر بات ضرورکرتے۔ آزادی اظہار رائے کےخلاف قوانین کے خاتمے کی بات کی جاتی۔ ووٹ کو عزت دو کے نعرے کو حقیقی ثابت کرنے کےلئے پارلیمان میں ووٹ دیتے وقت اس کا مکمل اظہار کیا جاتا اور جو ووٹ کی عزت کے موقع پارلیمان سے غیرحاضر رہےاور ووٹ کو عزت نہیں دی۔ ان کا محاسبہ کیا جاتا۔ غیرآئینی ترمیم پر ووٹ نہ دیا جاتا ۔عوام تو ووٹ کو عزت دیتے ہیں مگر پارلیمان  والے بھول جاتے ہیں۔
ٹھیک ہے ماضی میں نہیں جاتے ہیں۔ آج کی بات کرتے ہیں۔ چارسدہ میں دوسال کی بچی کو ریپ کرکے قتل کردیا گیا۔ احمدی پروفیسر قتل ہوگیا۔ مذمتی بیان آیا اور نہ ہی کسی نے جرات کی کہ چارسدہ  جاتے اور متاثرہ خاندانوں کے ساتھ کھڑے ہوکر انصاف کا مطالبہ کرتے۔ سیاستدانوں کی جانب سے یہی مجرمانہ خاموشی نئے سانحات کو جنم دے رہی ہے۔ سانحہ موٹر وے  اور سانحہ چارسدہ پر خصوصی طور پر مریم نواز کو بولنے کی ضرورت تھی۔ مگر افسوس عورتوں کے ساتھ ظلم ،گھریلو تشدد ،عورتوں کے حقوق پر مریم نواز نے لب نہیں کھولے ہیں۔ کسی مظلوم عورت کے ساتھ کبھی کھڑی نظر نہیں آئیں۔ یہ رویہ نوازشریف کا آج بھی ہے اور کل بھی تھا۔
عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ دے کر دھوکا دیا ہے۔ نواز شریف ووٹ کو عزت دو کے نعرے پر بقاکی جنگ لڑنے پر آمادہ ہیں۔ عوام کیا اعتبار کریں۔ کل ووٹ کس غیرآئینی اور غیرجمہوری ترمیم پر بیچا جا سکتا ہے۔ کیا ضمانت ہے کہ اب ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ یہ پہلی بار تو نہیں ہے۔ کئی بار آزمایا گیا ہے۔
احباب! اگر نواز شریف اور بی بی مریم عوامی حقوق کی تحریکوں  سے ربط بڑھاتے ہیں۔ اقلیتوں کے حقوق،معذور،خواجہ سراوں کے حقوق سمیت سماج کی نچلی پرتوں اور مظلوم و محروم طبقات کی آوازوں سے آواز ملاتے ہیں تو پھر میں بھی نواز شریف ہوں۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔