امریکہ ایران میں اسلامی حکومت کو ختم کرنے پہ کیوں اڑا ہوا ہے

امریکہ ایران میں اسلامی حکومت کو ختم کرنے پہ کیوں اڑا ہوا ہے
یہ 19 اگست 1953 کی رات تھی جب امریکہ نے ایران کی پہلی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ 1951 میں ایران میں ڈاکٹر مصدق کی منتخب حکومت قائم ہوئی تھی جس سے یہ امیدیں وابستہ ہو گئی تھیں کہ اب ایران میں معاشی اور سیاسی بہتری آئے گی مگر جب ڈاکٹر مصدق کی حکومت نے معاشی حالات کو بہتر کرنے کے لیے ایران کی آئل کمپنیوں کو قومی تحویل میں لینا شروع کیا تو امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے نے ڈاکٹر مصدق کی منتخب حکومت پر شب خون مار کر اس کو گرا دیا اور ان کی جگہ اپنی مرضی کے کٹھ پتلی حکمران محمد رضا شاہ پہلوی کو جمہوریت کے چیمپیئن نے شہنشاہیت کا تاج پہنا کر تخت پر بٹھا دیا۔

تب سے امریکہ اور ایران کے درمیان باقاعدہ غلط فہمیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ایرانی عوام کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی کہ امریکہ ایران میں اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ امریکہ کی جارج واشنٹگن یونیورسٹی نے ایران میں امریکی سفارت خانے کی خفیہ دستاویزات شائع کی ہیں جن سے یہ ثابت ہوا ہے کہ کس طرح ایران میں امریکی سفارت خانہ سی آئی اے کی کارروائیوں کا مرکز بنا رہا۔ خفیہ دستاویزات سے یہ بھی پتہ چلا کہ اس سازش میں سی آئی اے کے ساتھ برطانیہ کی خفیہ ایجنسی ایم آئی 6 بھی شامل تھی کیونکہ وزیراعظم مصدق کی حکومت نے امریکی آئل کمپنیوں کے ساتھ ساتھ برطانیہ کی آئل کمپنی 'اینگلو ایرانین آئل کمپنی' کو بھی نیشنلائز کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ نے مل کر باہمی مفادات کی خاطر ایران کی منتخب جمہوری حکومت کو گرانے کی سازش کی اور یہ سلسلہ جنوری 1953 سے شروع ہو کر اگست 1953 میں مکمل ہوا۔



اگست 1953 سے جنوری 1979 تک امریکہ اور دیگر مغربی طاقتیں ایران میں شاہ کی حکومت کے ذریعے سے اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کو پورا کرتی رہیں۔ محمد رضا شاہ پہلوی کو مغربی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں امن اور خوشحالی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ خطے میں شاہ کو امریکہ کے مفادات کا 'پولیس مین' کہا جاتا تھا۔ شاہ کو اس کی مغرب نواز پالیسیوں کی وجہ سے مغرب بالخصوص امریکہ میں بے پناہ پذیرائی حاصل تھی۔ شاہ کو ترقی پسند اور جدید ایران کے بانی کے طور پر متعارف کروایا گیا جبکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔

ایران کی زیادہ تر آبادی دیہات میں رہتی تھی اور معاشی پسماندگی کا شکار تھی۔ ایران کے سارے وسائل پر اشرافیہ قابض تھی۔ یہ اشرافیہ شاہ کی وفادار تھی اور عام آدمی کے حقوق کا استحصال کر رہی تھی۔ اعلیٰ طبقے کی اس خوش حالی کو امریکی میڈیا پورے ایران کی ترقی اور خوش حالی کا روپ دے کر دنیا کے سامنے پیش کرتا رہا۔ اسی اثنا میں امریکہ ایران کے تیل کے ذخائر کو مسلسل اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا رہا۔ اس دور میں ایران میں سب کچھ امریکہ کا بکتا تھا۔ سیاسی نظام بھی امریکہ کا تھا، لیڈر بھی امریکہ کا تھا اورعوام پر حکومت کرنے والی اشرافیہ بھی امریکہ نواز تھی۔ یہ وہی اشرافیہ تھی جو انقلاب ایران کے بعد احتساب سے بچنے کے لیے ملک سے فرار ہو کر امریکہ اور مغرب میں جا بسی تھی۔ ایران کے عوام امریکی غلامی سے اکتا چکے تھے اور ایسے انقلاب کے متلاشی تھے جو ان کو حق خود ارادیت اور آزادی واپس دلا سکے۔

ایران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے عوام کے اندر قوم پرستی کا عنصر بہت غالب ہے۔ ایرانی نژاد امریکی مصنف ولی نصر لکھتے ہیں کہ ایرانی قوم کے اندر دو وصف کوٹ کوٹ کے بھرے ہوئے ہیں: پہلا شہنشاہ سائرس کے ساتھ قومیت کا رشتہ اور دوسرا حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ساتویں صدی میں کربلا میں ہونے والے دھوکے کا احساس۔ یہ دو وصف مل کر ایران کی آنے والی تاریخ لکھنے والے تھے۔ 1960 کی دہائی میں ایران کے اسلامی سوشلسٹ مفکر ڈاکٹر علی شریعتی نے ایران کی قومیت اور جذبہ حسینیت کو ملا کر ایران کی نوجوان نسل کو عالمی طاغوتی، نو آبادیاتی اور استعماری طاقتوں کے خلاف برسر پیکار ہونے کی ترغیب دی۔ اس کے ساتھ آیت اللہ سید روح اللہ خمینی کی کرشماتی لیڈرشپ نے ایرانی عوام کو امریکی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا حوصلہ دیا۔ بالآخر جنوری 1979 کو شاہ ایران اپنے اہل و عیال سمیت مصر فرار ہو گئے۔ فروری 1979 میں امام خمینی کی آمد کے بعد ایران میں اسلامی حکومت قائم ہوئی جس سے ایران میں ہمیشہ کے لیے امریکی بالا دستی کا خاتمہ ہو گیا مگر ایران میں امریکی دخل اندازی کا سلسلہ ختم نہ ہو سکا۔

امریکہ نے انقلاب ایران کو پہلے دن سے تسلیم نہیں کیا۔ اسلامی جمہوری ایران خطے میں امریکی مفادات کا دشمن سمجھا جانے لگا۔ امریکہ اور اس کے سکیورٹی اداروں نے انقلاب کو ختم کرنے کی ٹھان لی۔ انقلاب کے آغاز ہی میں عراق کے ڈکٹیٹر صدام حسین کے ذریعے سے ایران پر حملہ کروا دیا۔ ایران اور عراق کے مابین خطے کی خطرناک ترین جنگ دس سال تک چلتی رہی۔ اس جنگ میں عراق کو مغربی ممالک خصوصاً امریکہ کی فوجی حمایت حاصل رہی۔ صدام حسین نے ایران میں اسلامی حکومت کے خاتمے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا حتی کہ ایران کے خلاف کیمیکل اور حیاتیاتی ہتھیار بھی استعمال کیے۔ ایران میں آج سکارف کو لازم قرار دینے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دینے والے امریکہ کو تب انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر کوئی تشویش نہیں ہوئی۔ جیسا کہ امریکہ کے بارے میں ایک عام تاثر پایا جاتا ہے کہ امریکہ انسانی حقوق کو صرف اپنے ایجنڈے کی ترویج کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ایران عراق جنگ میں ایران کا بے پناہ جانی ومالی نقصان ہوا۔ کم وبیش 10 لاکھ ایرانیوں کی جان گئی۔ ایران کے سابق وزیر خارجہ ڈاکٹر جواد ظریف نے ایرانی جوہری پروگرام کا دفاع کرتے ہوئے امریکی صحافی کو بتایا تھا کہ ایران عراق جنگ کے دوران ایران نے دنیا کے کئی ممالک سے التجا کی کہ صدام حسین کی جارحیت سے نمٹنے کے لیے امداد کے طور پر چند میزائل دے دیں مگر امریکی دباؤ کی وجہ سے کوئی ملک ایران کی مدد کو راضی نہ ہوا۔ بہرحال اسلامی جمہوری ایران امریکہ کی استعماری خواہشات کے باوجود کٹھن ترین دور سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا بلکہ پہلے سے بھی مضبوط اور طاقت ور بن کر ابھرا۔ لیکن امریکہ نے ایران میں اسلامی حکومت کو ختم کرنے کی پالیسی پھر بھی نہیں بدلی۔

ایران عراق جنگ میں ایران کے خلاف استعمال کیے گئے جوہری ہتھیاروں کے اثرات


ایران عراق جنگ میں مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرنے کے بعد امریکہ نے پالیسی وہی رکھی مگر اس بار انداز بدل ڈالا۔ امریکی تھنک ٹینک نے ایران کو اندر سے نقصان پہنچانے کے منصوبے پر کام شروع کیا جس کو امریکی سکیورٹی اسٹیبلشمینٹ 'اندر سے تبدیلی' کا نام دیتی ہے۔ اس پراجیکٹ کے تحت ایران پر پہلا وار 2009 میں کیا گیا۔ ایران میں 2009 کے عام انتخابات کے بعد ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تو امریکہ نے اپنی خفیہ امداد کے ذریعے سے 'اندر سے تبدیلی' کے دیرینہ خواب کو پورا کرنے کے لیے احتجاج کو 'انقلاب' کا رنگ دینے کی کوشش کی۔ ایران کی تاریخ میں اس کوشش کو 'سبز انقلاب' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسلامی حکومت نے اس کوشش کو 'عظیم فتنہ' قرار دیا کیونکہ اس کے ذریعے اسلامی حکومت کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش اور سازش کی گئی تھی۔ ایران کی پاسداران انقلاب فوج کے سابق سربراہ محمد علی جعفری کے مطابق ایران کی اسلامی حکومت کی تاریخ میں اسے ختم کرنے کی 2009 کی کوشش سب سے بھرپور اور خطرناک تھی۔ ایران اس سازش سے نمٹنے میں بھی کامیاب رہا۔ اب کی بار انقلاب کے خاتمے کے لیے کون سا طریقہ استعمال ہو گا؟



اب کی بار امریکہ نے ایران کے جوہری پروگرام کو آڑ بنا کر ایران کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا ہے۔ 2010 میں امریکہ نے ایران کے خلاف سخت ترین اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔ ایران کے بین الاقوامی اثاثوں کو منجمد کر دیا۔ بین الاقوامی بینکوں پر ایران سے کسی بھی قسم کے کاروباری لین دین پر پابندی عائد کر دی۔ ایران کے تیل کی عالمی منڈی میں رسائی پر پابندی لگا دی۔ ان پابندیوں سے ایران شدید معاشی مشکلات میں پھنس گیا۔ امریکہ کا خیال تھا کہ شدید معاشی بدحالی کی وجہ سے ایران کے عوام انقلاب کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور اسلامی حکومت کا تختہ الٹ دیں گے۔ امریکہ کو اس بار بھی پہلے کی طرح مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ 2013 میں امریکہ اور پانچ دیگر بڑے ملکوں؛ جرمنی، فرانس، برطانیہ، روس اور چین نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے لیے مذاکرات شروع کیے۔ 2015 میں ایران اور ان طاقتوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا جس کے ذریعے سے ایران اپنی یورینیم کی افزودگی کو 'عالمی ادارہ برائے جوہری توانائی' کے اصولوں کے مطابق کم کر دے گا۔ اس کے بدلے میں ایران کے منجمد اثاثے بحال ہوں گے اور اس پر سے عالمی اقتصادی پابندیاں اٹھا لی جائیں گی۔

امریکہ نے عالمی برادری کو اس وقت حیران کر دیا جب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے 2015 کے معاہدے سے یکطرفہ علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ امریکہ ڈپلومیسی کی آڑ میں ایران پر پابندیوں کو طول دیتا رہا مگر جب اس کو یہ احساس ہوا کہ معاہدے سے ایران کو معاشی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے تو امریکہ نے معاہدے سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کے بعد خدشات اور بڑھ گئے کہ امریکہ ہر حالت میں ایران میں اسلامی حکومت کا خاتمہ دیکھنا چاہتا ہے۔ اسی پالیسی کے تناظر میں اب ایک بار پھر تاریخ کو دہرایا جا رہا ہے۔

16 ستمبر 2022 کو ایران کی اخلاقی قانون کی پاسدار پولیس فورس کے ہاتھوں دورانِ حراست ایک نوجوان لڑکی مہسا امینی کی ہلاکت کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا ہے۔ ہلاک ہونے والی لڑکی کی عمر 22 سال تھی۔ مہسا امینی کی موت ایک بڑا سانحہ ہے جس کی ہر سطح پر مذمت کرنی چاہئیے۔ اس کی موت کے بعد ایران میں ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ اس بار بھی یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ نے ایک دفعہ پھر سے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مہسا امینی کی موت کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کو امریکی اور مغربی میڈیا ایک بڑے 'قومی انقلاب' کی شکل میں پیش کر رہا ہے۔ اس بار امریکہ کے ساتھ وہ ایران بدر اشرافیہ بھی شامل ہے جو رضا شاہ پہلوی کے دور میں اپنے مفادات کے بچاؤ کی خاطر مغرب میں بس گئی تھی۔ اس بار ایران میں تبدیلی کے لیے انسانی حقوق اور عورتوں کے حقوق کو استعمال کیا جا رہا ہے مگر امریکہ کی جانب سے 'انسانی حقوق' کی آڑ میں دوسرے ملکوں پر دباؤ ڈالنا اور ان سے جنگ کرنا اقوام عالم کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔

مہسا امینی کی موت کے بعد ایران میں مظاہرے شروع ہو گئے


امریکہ نے انسانی حقوق کی آڑ میں 1947 سے لیکر 1989 تک تقریباً 75 ملکوں کی غیر قانونی طور پر حکومتوں کا تختہ الٹا ہے جس کی بدولت ان ملکوں میں بے پناہ انسانی حقوق کی پامالی ہوئی ہے۔ افغانستان، عراق، لیبیا اور ویت نام میں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ ایران میں حجاب اور انسانی حقوق کے نام پر امریکہ ایک دفعہ پھر سے نظام کی تبدیلی کے مذموم ارادے کی تکمیل چاہتا ہے مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر امریکہ ایران میں تبدیلی کے لیے اتنا بضد کیوں ہے؟

تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ ایران نے اسلامی انقلاب کے آغاز سے لیکر اب تک مغربی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ روز بروز خطے میں ایران کی بڑھتی ہوئی فوجی، سیاسی اور جغرافیائی طاقت امریکہ کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ امریکہ عرصہ دراز سے مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر پر قابض ہے۔ اس تیل کی امریکہ کو فراہمی خلیج فارس کے راستے سے ہوتی ہے۔ خلیج فارس میں ایران کا کنٹرول پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گیا ہے اور ایران کئی دفعہ تیل کی ترسیل کے اہم راستوں کو بند کرنے کی دھمکی دے چکا ہے۔ امریکہ کے مشرق وسطیٰ میں اتحادی جو کہ عرصہ دراز سے امریکہ کی پشت پناہی کی وجہ سے بادشاہت کے نظام کو چلا رہے ہیں وہ عراق، شام، بحرین، لبنان اور یمن ہیں۔ ان ملکوں میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے امریکہ کے لیے خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں اسرائیل امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی ہے۔ اسرائیل اب شام، لبنان اور فلسطین میں ایران کی 'پراکسی فورسز' کے نرغے میں آنے کی وجہ سے شدید گھبراہٹ کا شکار ہے۔ انقلاب کے بعد قائم ہونے والی اسلامی حکومت نے شروع ہی سے اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔ آیت اللہ روح اللہ خمینی نے عالم اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ "وہ طاغوتی طاقت جس نے یروشلم پر قبضہ کر رکھا ہے اس کو دنیا کے نقشے سے مٹ جانا چاہئیے"۔ ایران کے موجودہ سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای کا بھی کہنا ہے کہ "یہ ایران کے اسلامی انقلاب کا مشن ہے کہ اسرائیل کو خطے کے نقشے سے مٹا دیا جائے"۔ ایران آج بھی اسرائیل مخالف ایجنڈے پر قائم ہے اور مسلسل اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ خطے میں ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت امریکہ اور اس کے سکیورٹی اداروں کے لیے شدید تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے لہٰذا امریکہ کو یہ لگتا ہے کہ جب تک ایران میں اسلامی حکومت کا وجود ہے، ایران کے خطرے سے چھٹکارا نہیں مل سکتا۔ اسی وجہ سے امریکہ اپنی ساری توانائی ایران میں نظام کی تبدیلی پر صرف کر رہا ہے اور کئی دہائیوں سے اس ایجنڈے کی تکمیل پر اڑا ہوا ہے۔

عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔