داستانِ سقوطِ مس لیڈ انٹرنیشنل!

داستانِ سقوطِ مس لیڈ انٹرنیشنل!
قلندر کے مرید کئی روز سے داستان سقوط  مشرقی پاکستان کی فرمائش کر رہے تھے۔ مطالبہ زور پکڑگیا تو قلندربولا: ’اس سےبھی  بڑی داستانیں ہیں دنیا میں۔‘

’آپ کی مراد کہیں سقوط سوویت یونین تو نہیں؟' مرید مخلص خبیث بولا۔

’ابے گدھے اس سے بھی بڑا سقوط پچھواڑے میں ہو چکا ہے ۔ خبر ہے تجھے ؟ ‘ قلندر بولا۔

’کہیں حضور فال آف رومن ایمپائر کی طرف تو اشارہ نہیں فرما رہے؟' خبیث تُکا لگاتے بولا۔  'ابے خالص گدھے، کیا روم پچھواڑے میں ہے؟‘ خبطی سمجھ گیا کہ اس کی بے عزتی کی پہلی قسط شروع ہو چکی ہے۔ فوراً قلندر کے پیروں میں جا پڑا یہ کہتے کہ وہ تو پیدائشی جاہل ٹہرا۔ حضور ہی کچھ عطافرمائیں۔

قلندر شروع ہوا۔ ’ایک بہت بڑے ملک میں کئی چھوٹی موٹی ریاستیں تھیں۔ ہر ملک کی طرح اس کے بھی پڑوسی تھے جن کا دن رات ایک ہی کام تھا— اس ملک کے خلاف سازشیں گھڑنا! اس ملک کا نظریہ اسکے حجم سے بھی بڑا تھا اور دن بہ دن کرونا وائرس کی طرح پھل پھول رہا تھا جس کے اثرات سے نمٹنےکے لیے دیگر ممالک نےخطیر سرمایہ کاری سے یہ  چھوٹی موٹی ریاستیں قائم کیں۔‘

’حضور جب اس بڑے ملک کو علم تھا کہ کائنات میں اس کا کوئی سجن نہیں تو کیوں اس نے ان نام نہاد ریاستوں کو اپنی دھرتی پہ پنپنے دیا؟‘ قلندر کی مریدنی ریشماں  نے پوچھا۔

’یوں کہ اس کا سارے کا سارا پیسہ بڑے نظریے کی جغرافیائی اورغیر جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت میں صرف ہو جاتا۔ انتہائی اہم امور مثلاً ہم جنس پرستوں کی شادی خانہ آبادی، میرا جسم میری مرضی اور سیکچول ہراسمنٹ سے نمٹنے کیلئے اس کے پاس چونی یا اٹھنی بھی نہ بچتی ۔ یہ ریاستیں کم از کم ان اہم مسائل کو تو احسن طریقے سے حل کر ہی دیتیں۔ اسکے علاوہ چند غیر اہم مسائل  پر بھی غورو فکرکرنے کی کوشش کرتیں مثلاً صحت، تعلیم، پانی، آبادی، انسانی وسائل ، ماحولیاتی تبدیلیاں، انسانی حقوق، بچوں کی بہبود وغیرہ وغیرہ۔   لیکن بڑا ملک ان سب کو اپنا اور اسلام کا دشمن ہی ٹہراتا ۔ ان ریاستوں میں سب سے بڑی اور مشہور 'مس لیڈ انٹرنیشنل (Mislead International)  تھی جسے یار لوگ Miss LEAD Internationalبھی کہتے تھے۔ اس کا سلوگن تھا فیوڈل شپ فار پرسنل گروتھ اینڈ ڈیویلپمنٹ (FPGD)۔ آج کی کہانی اسی کے سقوط کے بارے میں ہے۔‘

’سرکار بندہ Mislead کےسب سے اول جتھے کا فیلو ہے۔ 'خبطی فخر سے بولا۔  'تب ہی تیرے کو اس کے سقوط کا علم تک نہ ہوا۔ سب سے پہلا جتھہ بڑا ہی نامراد تھا۔ ہر لمحے نپولین کی جڑیں کاٹنے میں مصروف رہتا۔‘

’سرکار میں اس کے آخری جتھے کا ایسوسی ایٹ ہوں۔ ‘حاجی کذاب بولا۔

’کیوں بے تو فیلو کیوں نہیں بنا؟‘

’پتہ نہیں سرکار۔ شاید سقوط کی وجہ سے۔ آخری جتھے میں کوئی بھی فیلو نہ ہوا۔‘

’ فیلو بن کر بھی کیا تیر مار لینا تھا۔ ویسے آخری جتھہ سب سے بہترین تھا۔ دنیا بھر کےلائق خوشامدی اور ابن الوقت اسی جتھےسے تھے!‘

’سرکار کیا یہ فرانس والا نپولین—اپنا  بوناپارٹ تھا؟‘

’نہیں بے چائنا والا تھا۔ جثے ، کوالٹی ، کیریکڑ  اور صفات میں نپولین کا بھی باپ ۔بونا پارٹ صرف قد وقامت میں ہی نپولین  شیخ کی برابری کر سکتا تھا۔ ‘

’حضور  نپولین کیسے شیخ ہو سکتا ہے؟‘  قلندر کا منہ چڑھا چوہدری چول بولا۔

’ابے اگر تو چوہدری ،  حاجی کذاب اور اپنا اوبامہ حسین ہو سکتا ہے تو کیا نپولین شیخ نہیں ہو سکتا!اب بیچ میں مت ٹوکیو۔    نپولین انتہائی محنتی، ہوشیار، پھرتیلا، تیزی سے سوچنے اور دماغ سے فیصلہ کرنے والا نایاب لیڈر تھا۔  اس کی ریاست کی ابتدا ایک چٹیل میدان کے خیمے سے شروع ہوئی اور پلک چھپکتے سکندر اعظم کی سلطنت کی طرح پھیل گئی، اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ ‘

’لوڈ شیڈنگ ہو گئی ہو گی!‘ چوہدری چول بولا۔

’ابے بک بک بند کر ۔ اور نہیں کر سکتا تو فوراً دفعان ہو جا۔گھر جا اور  رپورٹ کر کہ تیری جورو اس وقت سموسے پکوڑے کس یارکے لئے تل رہی ہے!‘

قلندر کے جلالی تیور دیکھ کر چول چپکا ہو لیا۔ اسے قلندر کی کرامات کا علم تھا۔ لمحے بھر میں آستانے کی سکرین پر اس کے گھر کا کچہ چھٹہ کھول سکتا تھا۔

’نپولین محنتی لوگوں کی بے حد قدر کرتا تھا بشرطیکہ وہ  کم گو ہوں ۔  گونگے ہو تو کیا ہی بات!اس پر دشمن ریاستیں اسے تنقید کا نشانہ بناتیں۔ نادان یہ نہ سمجھ پاتیں کہ بولنے سے صوتی آلودگی  (noise pollution) پروان چڑھتی ہے۔ لیکن اس کی ریاست میں بھونکنے کی مکمل آزادی تھی مگر دشمنوں کے خلاف ۔  ریاست کے خلاف بھونکنے والے امراء کو نپولین انتہائی عزت و احترام سےبذریعہ ای میل معزول کردیتایہ ڈھنڈورہ کر کے کہ انہیں اپنی کسی دور دراز  کالونی میں وائسرائے مقرر کر رہا ہے۔ وہ وائسرائے کا چارج تو سنبھال لیتے لیکن انکی وقعت کسی پھٹیچر این جی او کے unpaid  کنسلٹنٹ سے زیادہ نہ ہوتی۔ فاقوں مر جاتے۔‘

’یہ جمہوریت تو نہ ہوئی!' قلندر کی دوسری مریدنی پری بیگم بولی۔  یس ڈارلنگ لیکن اس پراپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے کہ وہ امورِ سلطنت آمرانہ انداز میں چلاتا ہے، نپولین نے سیزر کی طرزپر ایک سینٹ بنائی ہوتی تھی جس کا نام‘ لوڈ آف چول نر تھا!

’یہ کیسی سینٹ کے سب کے سب چول نر! کوئی جینڈر بیلینس نہیں؟ ‘ یہ قلندر کی مریدنی تباہ فل مٹک تھی۔ ڈینجر اور جینڈر دونوں کی ماہر۔

’یار تم لوگ پوری بات سنتے نہیں اور اپنی مرضی کے نتائج اخذ کر لیتے ہو۔ عورت کا تو بہت بڑا رول تھا اس سلطنت میں۔سنو تو سہی!‘

’اچھا سنائیں ۔‘

’سناتا ہوں لیکن اب کے بیچ میں نہیں ٹوکنا۔    تو LoC، یہ لائن آف کنٹرول نہیں لوڈ آف چول نر ہے، میں نپولین اپنی مرضی کے chosen beings رکھتاتا کہ ریاست کے معاملات بنا چو چراں روانی سے چلتے  رہیں۔ سب کے سب اپنے دور کی مصروف ترین ہستیاں ہوتیں جنہیں کان کھجانے کی فرصت تک نہ میسر ہوتی۔ لہذا نپولین کیا کر رہا ہے، اس بات کو سمجھنے کے لئے ان کے پاس وقت ہر گز نہ ہوتا۔ جہاں نپولین کہتا انگوٹھا لگا دیتے۔‘

’ایسا کیوں کرتے تھے وہ؟‘  قلندر کی ایک اور مریدنی نگینہ بائی بولی۔

’ ایسا کیوں نہ کرتے!  نپولین کی وفاداری اور خلوص شک سے بالاتر تھے۔ ‘  قلندر نے جواب دیااور چرس کا ایک زوردار سوٹا لگا کر دوبارہ شروع ہوا۔

’نپولین بہت رحمدل اور شفیق تھا۔  امراء اور درباریوں سے معاہدہ تو چوبیس گھنٹے کام کا کرتا مگر چھٹی انہیں صرف سولہ گھنٹے کی مشقت کے بعد ہی دے دیتا۔ کہتا باقی کے آٹھ گھنٹے خواب میں ریاست کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچنا ، چوبیس گھنٹے کی ٹائم شیٹ میں سپنے میں ہی  منظور کر دونگا۔ ‘

’دن کے پہلے آٹھ گھنٹے نپولین کا رویہ اپنے درباریوں کے ساتھ گسٹاپو جیسا ہوتا مگر اس کے بعد انتہائی دوستانہ۔ نپولین کا فلسفہ تھا کہ شام حسین ہونی چاہیے۔ سو اسکا اصلی چہرہ صرف پانچ بجے کے بعد ہی طلوع ہوتا۔ اس کے دور میں میرٹ کا ایسا بول بالا ہوا کہ تاریخ میں اس سے پہلے اور مستقبل میں اس کے بعد اسکی نظیر نہیں ملتی ۔ مثلاً ایک بتے بھر کی لونڈیا نے ریاست کو بطور جونئیر کنیز جوائن کیا۔ محنت و مشقت میں سب کی اماں نکلی ۔ چند ہی ماہ  ہی میں فل کنیز ہو گئی۔ کچھ ہفتوں میں سینئر کنیز، اسکے ایک ماہ بعد سینئر ترین کنیز، سال بعد کنیز خاص پھر چند گھنٹوں بعد شاہی ای میل فرمان کی صورت نازل ہوئی کہ اب انہیں کنیز خاص الخاص کا قلمدان سونپ دیا گیا ہے۔  اسکی دیکھا دیکھی دیگر کنیزیں بھی کام میں دلچسپی لینے لگیں لیکن سینئر کنیز سے اوپر نہ جا سکیں۔ اور کچھ تو کر نہ سکیں، بس حسد کی آگ میں جلنے لگیں۔ اب انہیں کون سمجھاتا کہ حسد کی آگ میں جل کر راکھ ہونے کے بجائے اگر تم پتھر پہ پس جاتیں تو شاید  محنت رنگ بھی لے آتی۔ نری ریاضت کافی نہیں ۔ اپنی ریشماں کو دیکھ لو۔ بیس گھنٹے ریاض کرتی ہے کتھک کا۔ لیکن میری ایک ہی اٹھان پر بے تال ہو جاتی ہے۔ ارے ہر کوئی ناہید صدیقی نہیں بن سکتا۔ فن سے عشق نہ ہو تو کام میں روح داری نہیں آتی۔  ناہید نے تو دو استادوں کی سیوا کی ۔ پہلے اپنے مہاراج کتھک کی (جنہیں آتا جاتا کچھ نہ تھا)۔ پھر ہندوستان گئی اور برجو مہاراج کی شاگردہ ہوئی، تب جا کے صدیق سے صدیقی ہوئی۔‘

’درست فرمایا آپ نے! پھر کیا ہوا ؟‘ ریشماں بولی۔

’کچھ عرصے بعد وہ لونڈیا  ریاست کی مینیجر ، پھر سینئر مینیجر،  پھر جنرل مینیجر بن گئی۔  اس کی دن دگنی رات چگنی ترقی اسے ریاست کی ڈپٹی ملکہ عالیہ کے مقام تک لے گئی۔ اب ریاست میں اس کی مرضی کے بغیر کچھ نہ ہو تا ۔  ریاست کا سپہ سالار نپولین کا سب سے پرانا اور عظیم نمکخوار،  باکمال صلاحیتوں کا مالک ، اعلی حسب نسب والا، جس کے جد امجد کا سلسلہ چنگیز خان سے شروع ہوتا ، دشمنوں کو ہر لمحے نتھ ڈالنے والا اس بات سے ملول ہوا۔ شیر اور بکری کہاں ایک ہو سکتے ہیں۔  دشمن ریاست نے اسے ہاتھوں ہاتھ تا حیات چیف آف آرمی سٹاف لیا۔ ‘

’حضورمجھےتو یہ  بونا پارٹ کی معشوقہ جوزفین کی کہانی لگ رہی ہے۔‘ حاجی کذاب بولا۔

’ابے یہ جوزفین کی نہیں تیری اماں کی کہانی ہے جو تیرے ابے کو چھوڑ کر چوہدری چول کے پیو کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔  اور سنے گا؟‘ قلندر بولا اور حاجی کذاب بھی کونے میں دبک  گیا۔

’نپولین کی بڑھتی ہوئی فتوحات نے اسے اپنے ہیڈکوارٹرسے دور کر دیا۔ اب چنگیز خان ایسا دلیر  جرنیل جو طالبان کو بھی چھٹی کا دودھ یاد دلا دے اس کی فوج میں نہ تھا۔ ڈپٹی ملکہ عالیہ کے کہنے پرنپولین نے ایک نکمے حوالدار کو اپنا دارالخلافہ سونپ دیا۔ میں نےبتہرا سمجھایا کہ یہ ایک نمبر کاخوشامدی ٹٹو ہے۔ مگر نپولین نے ایک نہ سنی۔ الٹا کہنے لگا کہ جسے تم خوشامدی ٹٹو کہہ رہے ہو وہ سید زادہ ہے۔ حق کا ساتھ دے گا۔ میں نے کہا کہ یہاں ہر چُوڑا ، مراثی ، بھنگی سید ہے۔ اصلی سید پر آگ اثر نہیں کرتی۔ کہو اس سے آگ میں ہاتھ ڈالے

’خوشامدی ٹٹو  چمچہ تھا ایک عمر رسیدہ  گھاگ بڑھیا سیاستدان کا –جو گھاٹ گھاٹ کا پانی ڈکوس چکی تھی اور  سفلی علم میں ملکہ رکھتی تھی ۔ خوشامدی ٹٹو نے پہلے ڈپٹی ملکہ عالیہ کو شیشے میں اتارا۔ اسے یقین دلایا کہ وہ ریاست سے زیادہ اس کا وفادار رہے گا۔  پھر اسی بڑھیا کو نپولین کی سینٹ میں نشست دلوائی۔ عمر رسیدہ بڑھیا نے ایک اور ڈھلتی عمر کی بڑھیا کوسینٹ کا چیرمین بنوا یا۔ اور لمحہ بھر میں نپولین  اور ڈپٹی ملکہ کی بساط لپیٹ دی۔ اب بولو کیا نہ کمال اور ڈالی نہ دھمال عورتوں نے؟ ‘  قلندر  تباہ فل مٹک کی طرف دیکھتے بولا ۔

’آی ایم سوری۔ واقعی زبردست جینڈر بیلنس تھا ریاست میں۔ آئندہ جلد بازی نہیں کرونگی۔ اب ریاست کا کیا حال ہے؟‘ تباہ فل نے دریافت کیا۔

’نپولین کے بغیر ریاست نہیں چل سکتی تھی۔ یہ نپولین ہی تھا جس نے تیس برس ریاست چلائی۔ ہر سازش کا مقابلہ کیا۔ دوستوں کی مدد کی اور ان ہی دوستوں نے اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔ریاست کااب  وہی حال ہے جو نواب صادق کے محل کا ہے۔ جس کے ہاتھ جو چیز لگی لوٹ کر لے گیا۔ قیمتی ہیرے جواہرات خوشامدی ٹٹو نے پہلے ہی اپنے قبضے میں کر لئے تھےاور دونوں بڑھیاؤں کو بھی چونا لگا دیا یہ کہہ کر کے کہ نپولین اور ڈپٹی ملکہ عالیہ تو پہلے ہی خزانہ خالی کرچکےتھے ۔‘

’نپولین کہاں ہے؟‘ ریشماں نے پوچھا۔

’نپولین کا حوصلہ بلند ہے۔ وہ پھر سے ایک چٹیل میدان میں خیمہ زن ہے۔ غلام عباس کا افسانہ 'آنندی' پڑھ رہا ہے ۔ پھر سے نئی ریاست کی داغ بیل ڈالے گا مگر وہی غلطیاں دہرائے گا۔ ‘

’اور ڈپٹی ملکہ عالیہ؟‘

’وہ بہادر شاہ ظفر کا دیوان پڑھ رہی ہیں!‘

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔