تاہم، یہ ایمرجنسی لگانے کی ضرورت کیوں پیش آئی، اس حوالے سے مین سٹریم میڈیا میں بہت ہی کم بات کی گئی ہے۔ معاملہ 9 مارچ 2007 سے شروع ہوتا ہے جب جنرل پرویز مشرف نے فوج کے چند سینیئر افسران کی موجودگی میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو ایوانِ صدر طلب کیا اور ان کو عہدے سے علیحدہ ہو جانے کا حکم دیا۔ اس سے قبل اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز افتخار چودھری کے خلاف ایک ریفرنس صدر مشرف کو بھجوا چکے تھے۔ افتخار چودھری کو مشورہ دیا گیا کہ ان کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوایا جا سکتا ہے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ وہ عہدے سے علیحدہ ہو جائیں۔ لیکن افتخار چودھری نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔
اس وقت کے صدر سپریم کورٹ بار اسوسی ایشن منیر اے ملک نے حکومت کے اس فیصلے کے خلاف وکلا تحریک چلانے کا اعلان کیا اور 13 مارچ 2007 کو افتخار محمد چودھری کی سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے پہلی پیشی پر وکلا کی ایک بڑی تعداد سپریم کورٹ کے باہر جمع ہوئی اور چیف جسٹس کے حق میں اور جنرل مشرف کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔
اس وکلا تحریک میں اپوزیشن کی جماعتیں اور سول سوسائٹی بھی شامل ہوتی گئیں اور آن کی آن میں تحریک ملک بھر میں پھیل گئی۔ 5 مئی 2007 کو لاہور ہائی کورٹ بار اسوسی ایشن کی دعوت پر افتخار چودھری لاہور آئے تو عوام کی بڑی تعداد نے ان کا استقبال کیا۔ 12 مئی 2007 کو سندھ ہائی کورٹ بار اسوسی ایشن کی دعوت پر کراچی پہنچے تو کشت و خون کا بازار گرم ہو گیا۔ اس تحریک نے حکومت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا اور 20 جولائی 2007 کو افتخار محمد چودھری دوبارہ اپنے عہدے پر بحال ہو گئے۔
ان کے بحال ہوتے ہی انہوں نے قریب پانچ سال سے جیل میں بغاوت کے مقدمے میں قید مسلم لیگ نواز کے رہنما اور پارٹی صدر مخدوم جاوہد ہاشمی کو رہا کر دیا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف جو اس وقت جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے، انہوں نے بھی پاکستان واپس آنے کی اجازت سپریم کورٹ ہی سے طلب کی۔ سپریم کورٹ نے ان کے بھی حق میں فیصلہ کیا۔ 10 ستمبر 2007 کو نواز شریف اسلام آباد واپس پہنچے تو انہیں انتظامیہ نے ایئر پورٹ سے باہر نکلنے نہ دیا اور ایک اور جہاز پر سوار کروا کے سعودی عرب بھیج دیا۔
اس اقدام کے خلاف بھی سپریم کورٹ میں درخواست جمع کروائی گئی اور عدالت نے اسے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔
اس دوران محترمہ بینظیر بھٹو اور پرویز مشرف کے درمیان مذاکرات جاری تھے اور بالآخر ان کے درمیان معاہدہ طے پا گیا کہ بینظیر بھٹو کو پاکستان آنے کی اجازت دے دی جائے گی اور ان کے خلاف مقدمات کو ختم کرنے کے لئے این آر او جاری کیا جائے گا۔ بدلے میں پیپلز پارٹی جنرل مشرف کے باوردی صدر منتخب ہونے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔
5 اکتوبر کو یہ این آر او یعنی National Reconciliation Ordinance جاری کیا گیا اور 6 اکتوبر کو جب دیگر تمام اپوزیشن جماعتیں پارلیمنٹ سے استعفے دے کر جنرل مشرف کے صدارتی الیکشن کو متنازع بنانے کی آخری کوشش کر رہی تھیں تو پیپلز پارٹی نے استعفے دینے کے بجائے پارلیمنٹ میں رہتے ہوئے انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور یوں جنرل مشرف کو باوردی انتخاب کے لئے جو اخلاقی اور قانونی جواز چاہیے تھا، وہ مل گیا۔
یہ این آر او ہی تھا جس نے 18 اکتوبر 2007 کو بینظیر بھٹو اور پھر 25 نومبر 2007 کو نواز شریف کی وطن واپسی کی راہ ہموار کی۔
تاہم، یہ دونوں اقدامات، یعنی این آر او اور جنرل مشرف کا باوردی صدارتی انتخاب، سپریم کورٹ میں چیلنج ہوئے۔ اور سپریم کورٹ کے ججز کے ریمارکس سے واضح تھا کہ ان کا موڈ دونوں ہی اقدامات کو آئینی طور پر ناجائز قرار دینے کا تھا۔
واضح رہے کہ بینظیر بھٹو اور جنرل مشرف کے درمیان مذاکرات کا ضامن کوئی اور نہیں بلکہ امریکی حکومت تھی۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ پر اس وقت تک واضح ہو چکا تھا کہ جنرل مشرف میں یہ capacity نہیں کہ وہ طالبان کے خلاف امریکی اہداف حاصل کر سکیں۔ 2006 سے 2008 کے درمیان امریکہ کی جانب سے صدر مشرف پر مختلف طریقوں سے افغانستان میں double game کھیلنے کا الزام بھی لگایا جا چکا تھا۔ لہٰذا امریکہ اس وقت جنرل مشرف سے جان چھڑانا چاہتا تھا اور اسی لئے ایک مکمل exit strategy تیار کی گئی تھی جس کے تحت بینظیر بھٹو کی اقتدار میں واپسی کی راہ ہموار کی جا رہی تھی۔
https://www.youtube.com/watch?v=paPCf4u0w5s
معاہدہ یہ تھا کہ پیپلز پارٹی الیکشن جیتنے کے بعد صدر مشرف کو بطور صدر برقرار رکھے گی اور جنرل مشرف آرمی چیف کا عہدہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے حوالے کر دیں گے مگر خود صدارت اپنے پاس رکھیں گے۔ البتہ بینظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کی صورت میں ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا تھا اور بالآخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ جنرل مشرف نے 28 نومبر 2007 کو آرمی چیف کے عہدے سے علیحدگی تو اختیار کر لی، اور 15 دسمبر 2007 کو ایمرجنسی بھی ختم کر دی گئی لیکن 27 دسمبر 2007 کو بینظیر بھٹو راولپنڈی میں ایک دہشتگردی کے واقعے میں قتل ہو گئیں۔ الیکشن جو 8 جنوری 2008 کو منعقد ہونا تھے، 40 دن آگے کر دیے گئے اور 18 فروری 2008 کو پیپلز پارٹی ملک کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔ دوسرے نمبر پر مسلم لیگ نواز رہی جب کہ مشرف کی مسلم لیگ ق تیسرے نمبر پر رہی۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے اے این پی اور دیگر چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملا کر اتحادی حکومت قائم کر لی لیکن ججز کی بحالی کا وعدہ پورا نہ ہونے پر مسلم لیگ نواز نے کابینہ سے علیحدگی اختیار کر لی۔ تاہم، دونوں جماعتوں نے اگست 2008 میں ایک بار پھر اکٹھے ہو کر جنرل مشرف کے مواخذے کا فیصلہ کیا اور 18 اگست 2008 کو جنرل مشرف نے صدارت سے استعفا دے دیا۔
https://www.youtube.com/watch?v=6CL-7CiYAWY
1999 میں ہونے والے کو کی تو سترہویں آئینی ترمیم کے ذریعے توثیق ہو گئی تھی لیکن 2007 میں آئین کو معطل کرنے کے فیصلے کی جنرل مشرف پارلیمنٹ سے توثیق کرانے کی پوزیشن میں نہ رہے۔ ان کے لگائے پی سی او ججز نے تو دونوں اقدامات کو درست قرار دے دیا تھا لیکن پارلیمنٹ ان کی توثیق پر کسی صورت راضی نہ ہوئی اور بار بار اس مقدمے کی کارروائی رکوانے کی کوششوں کے باوجود بالآخر سابق آمر آج اسی مقدمے میں غدار اور سزائے موت کے حقدار ٹھہرے۔