کیا حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے؟

کیا حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے؟
جب آپ کی اپنی کارکردگی صفر ہو اور آپ کے پاس دنیا کو دکھانے کے لئے کچھ نہ ہو تو آپ دوسروں کی برائیاں کر کے اپنی برائیوں اور ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی مثال ہمارے سلیکٹڈ وزیراعظم عمران خان کی ہے۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ نو ماہ گزر جانے کے باوجود عمران خان ذہنی طور پر خود کو وزیراعظم ماننے کو تیار نہیں۔ عمران خان کو یقین کیوں نہیں آتا کہ اب وہ اپوزیشن میں نہیں بلکہ اس ملک کے وزیراعظم ہیں، تو کیا ہوا اگر سلیکٹڈ ہیں، وزیراعظم وزیراعظم ہوتا ہے منتخب ہو یا سلیکٹڈ۔

عمران خان کو سمجھ آ گئی ہوگی کہ حکومت پر تنقید کرنا بہت آسان ہوتا ہے جو ماضی میں وہ کرتے رہے ہیں مگر حکومت میں رہ کر کام کرنا اتنا آسان نہیں۔ اردو کا محاورہ ہے، پہلے تولو پھر بولو۔ اگر عمران خان نے اس محاورے پر عمل کیا ہوتا تو آج وہ تنقید کی زد میں ضرور ہوتے مگر انہیں شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ سچ تو یہ ہے کہ عمران خان اور ان کی حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور اس بات کا اندازہ بلاول کے افطار ڈنر کے بعد پیش آنے والی صورتحال سے لگایا جا سکتا ہے۔

پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپوزیشن جماعتوں کے اعزاز میں افطار پارٹی کا اہتمام کیا تو حکومتی وزرا کی چیخیں نکل گئیں۔ چیخیں بنی گالا، لال حویلی اور دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں بھی سنی گئیں۔ ایک افطار پارٹی سے اتنی پریشانی؟ اتنی گھبراہٹ؟



عمران خان اور ان کی کابینہ کے اراکین کی اپوزیشن جماعتوں کی افطار پارٹی پر تنقید دراصل ان کی اپنی بوکھلاہٹ ہے کیونکہ عمران خان جانتے ہیں کہ بڑھتی مہنگائی، مسلسل گرتی ہوئی معیشت اور تیزی سے بڑھتی گیس، بجلی اور پیٹرول کی قیمتیں ان کی مقبولیت میں کمی کا باعث بن رہی ہے۔ جو لوگ ناچ ناچ کر تبدیلی آئی رے کا نعرہ لگا رہے تھے وہ بیچارے اب کہہ رہے ہیں کہ تبدیلی اپنے ساتھ مہنگائی کا سونامی لے آئی۔

عمران خان کی مقبولیت میں واضح کمی آئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نو ماہ میں عمران خان ایک بھی ایسا کام نہیں کر سکے جس سے عوام کو ریلیف ملا ہو۔ پچاس لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں کے کھوکھلے وعدے کرنے والے عمران خان اگر انتخابات سے قبل بلند و بانگ دعوے کرنے سے پہلے حقائق پر نظر ڈالتے تو آج یہ نوبت نہ آتی۔ ایک کروڑ نوکریوں کا خواب دکھا کر لوگوں سے روزگار چھیننے والی تبدیلی سرکار نے عوام کا جینا مشکل کر دیا ہے۔



اپوزیشن جماعتیں عید کے بعد حکومت مخالف تحریک چلانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ عمران خان کی کابینہ میں ایک بھی ایسا وزیر نہیں جو عمران خان یا غریب عوام سے مخلص ہو اور ملک کی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ بیٹھ کر ملک کو درپیش چیلنجز اور معاشی بحران سے نکالنے کی کوشش کرے، سب شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بنے ہوئے ہیں اور اپوزیشن پر تنقید کر رہے ہیں جبکہ تنقید کا حق اپوزیشن کا ہے۔ حکومتی وزرا کا کام تنقید کرنا نہیں بلکہ تنقید برداشت کرنا اور کارکردگی پیش کرنا ہے۔

عمران خان کو چاہیے کہ وہ ملک کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے کے لئے اپوزیشن جماعتوں سے تعاون کی اپیل کریں تاکہ حکومت اور اپوزیشن مل کر ملک کو معاشی بحران سے نکال سکے۔ اگر عمران خان اپنی ذاتی انا کی تسکین کے لئے اپوزیشن جماعتوں کی طرف ہاتھ نہیں بڑھائیں گے تو پہلے سے پریشان عوام کو مہنگائی کا مزید بوجھ برداشت کرنا پڑے گا کیونکہ ملک کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے کی صلاحیت بوکھلاہٹ کا شکار موجودہ حکومت میں نہیں ہے۔

مصنف صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ٹوئٹر پر @UmairSolangiPK کے نام سے لکھتے ہیں۔