پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ ان کی واپسی پر بہت ابہام تھا۔ آئیں گے کہ نہیں آئیں گے۔ دوسر ابہام یہ تھا کہ کہیں انہیں واپس بلا کر اسٹیبلشمنٹ ان سے بھی ہاتھ تو نہیں کر دے گی۔ مجھے لگتا ہے کہ نواز شریف کی واپسی سے دونوں ابہام دور ہو گئے ہیں۔
اب جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ کرنے کی بات ہے، واپسی پر نواز شریف کو جیسا پروٹوکول ملا ہے، اس نے وہ تمام ابہام دور کر دیا ہے۔ بالخصوص اسلام آباد ایئر پورٹ پر دیا جانے والا پروٹوکول سب ابہام ختم کرنے کے لئے کافی ہے۔
نواز شریف ہفتہ کی صبح جب پاکستان روانگی کے لئے دبئی ایئر پورٹ پہنچے تو وہ بہت خوش تھے۔ خوشی ان کے چہرے پر نمایاں تھی۔ جو لوگ لندن میں نواز شریف سے ملتے رہے ہیں انہیں ان کے چہرے پر خوشی نمایاں نظر آ رہی تھی۔ یہ خوشی لندن میں ان کے چہرے پر نظر نہیں آتی تھی۔ اس لئے دبئی ایئر پورٹ نواز شریف کی باڈی لینگوئج اور ان کے چہرے کی خوشی ساری کہانی سمجھنے کے لئے کافی تھے۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ وہ سمجھ رہے ہیں کہ کھیل ان کے ہاتھ میں آ چکا ہے۔
دبئی ایئر پورٹ پر نواز شریف کو بھی خصوصی پروٹوکول حاصل تھا۔ وہ مسافرو ں کے معمول کے راستے سے نہیں آئے بلکہ ان کی گاڑی رن وے راستے بالخصوص لاؤنج تک انہیں لے کر آئی۔
دبئی ایئرپورٹ پر انہوں نے صحافیوں سے بات کی۔ وہ صحافیوں سے گفتگو میں بھی خوشگوار موڈ میں تھے۔ ہر سوال کا جواب دے رہے تھے۔ سب سے دلچسپ جواب 9 مئی کے حوالے سے تھا جب انہوں نے کہا کہ ہم 9 مئی والے نہیں، 28 مئی والے ہیں۔ ہم نے کبھی دفاعی اداروں پر حملہ نہیں کیا بلکہ دفاعی اداروں کو مضبوط کیا ہے۔ یہ پالیسی بیان سارا کھیل سمجھنے کے لئے کافی تھا۔
دبئی ایئرپورٹ پر سینیٹر عرفان صدیقی ان کے ساتھ موجود تھے۔ انہوں نے بھی کہا کہ نواز شریف نے ہمیشہ ملک کو متحد کرنے کی بات کی ہے۔ جس سے صاف ظاہر تھا کہ لڑائی کی کوئی بات نہیں۔ یہ سوال ضرور دبئی ایئر پورٹ پر موجود تھا کہ لاہور مینار پاکستان پر کتنے لوگ ہوں گے۔
دبئی سے پاکستان روانگی معمول کے مطابق تھی۔ صرف صحافیوں سے بات چیت اور پھر صحافی اس بات چیت کو رپورٹ کرنے میں لگ گئے تو جہاز کی روانگی میں آدھ گھنٹے کی تاخیر ہوئی۔ ورنہ باقی سب کچھ سکرپٹ کے مطابق ہی چل رہا تھا۔ جہاز میں نواز شریف کے اوورسیز کارکن موجود تھے، پاکستان سے بہت کم لوگ تھے۔ لندن سے لوگ آئے تھے۔ دبئی سے لوگ تھے۔ یورپ اور دیگر ممالک سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لوگ موجود تھے۔
جہاز کا مکمل ماحول سیاسی تھا۔ نعرے بازی عروج پر تھی۔ ماحول سیاسی بھی تھا اور گرم بھی۔ جوش و خروش بھی قابل دید تھا۔ اسلام آباد ایئر پورٹ پر نواز شریف کو ملنے والے پروٹوکول نے کہانی میں سب ابہام دور کر دیے۔ جس طرح بائیو میٹرک ہوا سب کو سمجھ آ گئی کہ راستے صاف ہیں۔
بہر حال اسلام آباد ایئر پورٹ سے روانگی دو گھنٹے تاخیر کا شکار ہو گئی کیونکہ دو مسافر ناصر جنجوعہ اور جاپان مسلم لیگ ن کے صدر نور ملک جہاز سے اتر گئے۔ لیکن اسلام آباد اترنے کے لئے انہوں نے جہاز کے عملے اور ایئرلائن کو نہیں بتایا۔ بس اب ان کے سامان کی تلاش شروع ہوئی۔ ایک ایک مسافر کا سامان چیک کیا گیا۔ بتایا گیا اس کے بغیر جہاز چل نہیں سکتا تھا۔ ابتدائی پروگارم کے تحت لاہور پہنچنے کے بعد نواز شریف نے پہلے جاتی امرا بیگم کلثوم نواز کی قبر پر جانا تھا۔ وہاں فاتحہ خوانی کے بعد جلسہ گاہ میں جانا تھا۔ لیکن اسلام آباد ایئر پورٹ پر تاخیر کی وجہ سے لاہور لینڈنگ کے بعد وہ سیدھے جلسہ گاہ کی طرف گئے۔
لاہور ایئر پورٹ پر میاں شہباز شریف نے ان کا استقبال کیا۔ جہاں جہاز لینڈ ہوا پاس ہی ہیلی کاپٹر موجود تھا۔ ایئر پورٹ پر پروٹوکول بھی تھا۔ وہ جہاز سے اترے اور ہیلی کاپٹر میں بیٹھ گئے۔
نواز شریف کی امیگریشن اسلام آباد میں ہو چکی تھی۔ کیونکہ بائیو میٹرک امیگریشن کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ باقی سب مسافروں کی امیگریشن لاہور میں ہوئی۔ وہاں پر سب کو جلسہ گاہ لے جانے کے لئے بسیں موجود تھیں۔ لیکن سڑکیں بند تھیں۔ اس لئے سب مسافر جلسہ گاہ نہیں پہنچ سکے۔