پی ڈی ایم کا انجام ’کاٹھ کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹی‘

پی ڈی ایم کا انجام ’کاٹھ کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹی‘
پی ڈی ایم میں شامل دو بڑی اور اہم ترین سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں ان دونوں جماعتوں کے غیر فطری اتحاد کی کاٹھ کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹ چکی ہے۔ ان دو سیاسی جماعتوں کا اتحاد ایک غیر فطری عمل تھا جو ہو کر رہنا تھا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی سیاسی چپکلش کی چالیس سالہ پرانی تاریخ ہے اور آپس میں میثاق جمہوریت کرنے کے باوجود ان دو جماعتوں کے باہمی اختلافات نمایاں تھے۔

ہئیت اور سیاسی فلسفے میں دونوں جماعتیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ان نکات پر غور کرنے کے لیے پاکستانی سیاست کی تاریخ کے پچھلے چالیس سالوں کے اوراق کا مطالعہ کرنا بہت ضروری ہے کہ دونوں سیاسی جماعتوں کی تشکیل کیسے ہوئی اور کیسے ایک دوسرے کے مدمقابل رہیں۔

جنرل ایوب خان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو ان سے اختلاف کے باعث مستعفی ہو چکے تھے اور ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر ایک سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھ چکے تھے اب ہیت مقتدرہ کا دست شفقت انکے سر سے اٹھ چکا تھا، 1970 کا الیکشن ہوا، مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کو اکثریت مل گی سقوط مشرقی پاکستان ہوا اقتدار پیپلز پارٹی کو مل گیا 1977 کے الیکشن میں کامیابی کے بعد ہیت مقتدرہ بھٹو صاحب سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی تھی نظام مصطفیٰ کی تحریک چلی بھٹو صاحب کی حکومت ختم ہوئی ان کا خون ناحق ہوا مارشل لاء کا طویل دور شروع ہوا اس دوران بے نظیر بھٹو سیاسی جہدوجہد کرتی رہیں تاہم پاکستانی ہیت مقتدرہ کے تعاون اور امریکہ کی آشیرباد سے وہ 1984 میں خود ساختہ جلا وطنی کر گئیں اس دوران 1985 کے غیر جماعتی الیکشن ہوئے اور پیپلز پارٹی نے اس الیکشن کا بائیکاٹ کیا۔

جنرل ضیاء الحق کو پنجاب میں پیپلز پارٹی کے مقابلے کے لیے سیاسی لوگوں کی ضرورت تھی ، یوں ییت مقتدر نے پنجاب میں نواز شریف، شہباز شریف ،چودھری پرویز الٰہی ،شجاعت حسین، یوسف رضا گیلانی ، شاہ محمود قریشی  اور حامد ناصر چٹھہ کو تیار کیا گیا یوں 1988 سے 1999 تک پنجاب میں اسلامی جمہوریہ اتحاد ہیت مقتدرہ کی آشیر باد سے پلیز پارٹی کے خلاف الیکشن لڑتا رہا یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے مگر شریف برادران اور چودھری برادران نے بھٹو مخالف سیاست جاری رکھی اس کے انعام میں ہیت مقتدرہ نے ان کو 1990 اور 1996 میں اقتدار بھی دیا ،پیلز پارٹی 1988 اور 1993 میں اقتدار میں آئی۔

ان 13 سالوں میں دونوں سیاسی پارٹیوں نے ایک دوسرے کے مدمقابل خوب سیاست کی نواز شریف نے بے نظیر بھٹو اور نصرتِ بھٹو کے خلاف اخلاق سے گری ہوئی سیاسی حکمت عملی اختیار کی اور ہیلی کاپٹر سے نصرتِ بھٹو کی تصاویر گرائی گئیں جس میں انہیں ایک امریکی کے ساتھ رقص کرتے دکھایا گیا اور بے نظیر بھٹو کے حوالے سے اخلاق سوز خبریں چلائی گیئں۔  اس دروان دونوں سیاسی پارٹیوں نے ایک دوسرے کے خلاف لانگ مارچ کئےاور ہیت مقتدرہ کے کہنے پر ایک دوسرے کی حکومتوں کو ختم کرنے کے لیے سب کچھ کیا۔

پروز مشرف کا مارشل لاء نافذ ہوا تو نواز شریف سزا کے بعد راتوں رات سعودی عرب کی آشیر باد سے باہر چلے گئے وہاں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان میثاقِ جمہوریت ہوا جس میں عہد کیا گیا کہ آج کے بعد ایک دوسرے کے خلاف کبھی ہیت مقتدرہ کے کہنے پر استمال نہیں ہوں گے ،مگر اس کے بعد پیپلز پارٹی نے پرویز مشرف سے این آر او لیا 2008 کا الیکشن جیت کر آصف علی زرداری ہیت مقتدرہ کی رضا مندی سے صدر پاکستان بنے اور نواز شریف نے شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے ذریعے جنرل پرویز کیانی سے نصف شب کی درجن کے قریب ملاقاتوں کے بعد 2013 کا الیکشن جیت کر تیسری دفعہ وزیراعظم بن گئے۔

اس دوران ایک دوسرے کے مدمقابل گندی زبان استمال نہ کرنے کا عہد کرنے والے زرداری کا پیٹ پھاڑ کر سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے بھی ہوئے اور بعد میں وہی شہباز شریف جنہوں نے زرداری کا پیٹ پھاڑ کر سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے کئے تھے وہ زرداری کی رائے ونڈ آمد پر ان کا استقبال کرتے نظر آئے اور نواز شریف کو مودی کا یار کہنے والے بلاول بھٹو زرداری اسی نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کے ساتھ سیاسی جلسوں کے خوش گپیوں میں نظر آئے ،اب لانگ مارچ کے حوالے سے دونوں سیاسی جماعتوں کے باہمی اختلافات کھل کر سامنے آئے ہیں۔ آصف علی زرداری نے بالکل درست کہا ہے کہ نواز شریف خود آرام سے لندن بیٹھ کر پاکستان میں انقلاب لانے کا خیال چھوڑ دے اور واپس آکر میرے ساتھ لانگ مارچ کی قیادت کرے ،جس کے بعد مریم نواز جو عمران خان کو سلیکٹڈ کہتی تھیں اب کہہ رہی ہیں کہ ہیت مقتدرہ ایک اور سلیکٹڈ تیار کر رہی ہے ، ادھر بلاول بھٹو نے کہا کہ لاھور کا سیاسی خاندان پہلا سلیکٹڈ خاندان تھا۔ یوں ایک غیر فطری اتحاد کا انجام سامنے آگیا ہے ،دونوں سیاسی جماعتوں نے عمران خان کو سلیکٹڈ کہنے کا جو عمل شروع کیا تھا وہ اب ایک دوسرے کو سلیکٹڈ کہنے پر ختم ہو گیا ہے یوں کاٹھ کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں ٹوٹ چکی ہے اور دو مختلف سیاسی فلاسفی کے حامل جماعتوں کا غیر فطری اتحاد ختم ہو گیا۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔