ارشد شریف، یہ تو ہونا ہی تھا!

ارشد شریف، یہ تو ہونا ہی تھا!
مائی ڈیئر فرینڈ ارشد شریف: امید ہے تم جنت الفردوس میں خیریت سے ہوگے۔ میں اپنی لائبریری میں ہی بیٹھا تمہیں سلیم شہزاد کے ساتھ خوش گپیوں میں محو دیکھ سکتا ہوں۔ کاش میں بھی تمہیں جوائن کر سکتا۔ ایک نہ ایک دن تو کر ہی لوں گا۔ وہ دن بھی زیادہ دور نہیں۔ لیکن تم نے بہت جلد بازی سے کام لیا۔ سلیم تو تم سے بھی زیادہ جلد باز تھا۔ تھوڑا انتظار کر لیتے تو میں رؤف کلاسرا اور خاور گھمن کو بھی اپنے ساتھ لے آتا۔ خیر جو ہوا اسے اللہ میاں کی رضا سمجھ کر قبول کر رہا ہوں۔ اس دوران تم اچھے سے جنت کی سیر لینا اور جو سب سے بہترین جگہ ہو اس کے آس پاس ہمارے لئے بھی ایک عدد بیڈ اینڈ بریک فاسٹ بک کروا لینا۔ سارا دن تو ہم لوگ باہر ہی سیر کر رہے ہوں گے۔ رات میں تو صرف سونا ہی ہوتا ہے تو کیا ضرور ت پیسے ضائع کرنے کی کسی فائیو سٹار ہوٹل پر۔ بیڈ اینڈ بریک فاسٹ یا پینشن ہی ٹھیک رہے گا۔

تم نے پوچھا کہ یہاں کیا چل رہا ہے۔ تو یہاں وہ ہی چل رہا ہے جو ہمیشہ سے چلتا آیا ہے۔ جب حامد میر کو گولیاں ماری گئیں تھیں وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھا اور تم اس وقت عمر چیمہ سے جھگڑ رہے تھے ٹی وی پر۔ تمہارا سارا زور اس بات پر تھا کہ یہ ڈرامہ ہے۔ کافی بدتمیزی سے پیش آئے تھے تم عمر سے۔ اب بھی وہی کیسٹ چل رہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ تمہاری جگہ کوئی اور کرسی پر بیٹھا یہ ثابت کرنے پر تلا ہے کہ تمہارا تعلق انا سیٹھ سے تھا اور موسیٰ کے آدمیوں نے تمہیں پرلوک سدھار دیا۔ لیکن خوشخبری یہ ہے کہ ظفر حجازی نے تمہیں معاف کر دیا ہے۔ اسے شکایت تھی کہ تم نے اس کے خلاف کئی پروگرام کیے بغیر اس کا موقف لئے۔ اس کے بیٹے ارسلان ظفر پر بھارتی ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا۔ پر حجازی تمہاری مغفرت کے لئے دعا گو ہے۔
دشمن مرے تے خوشی نہ کریے سجناں وی مر جانا

جب ابصار عالم کو گولی ماری گئی تو تم بہت غصے میں تھے اور چینلز پر ہم سب کو یہ یقین دلا رہے تھے کہ کوئی گولی نہیں ماری گئی۔ سب ڈرامہ ہے۔ اللہ کا شکر ہے تمہارے معاملے میں کسی نے ایسی چول ابھی تک تو نہیں ماری۔ آگے کوئی مار بھی سکتا ہے۔ پاگلوں اور احمقوں کی کوئی قلت ہے اس ملک میں! لیکن کوئی کچھ بھی کر لے تم نے اس بار کام پکا کیا۔ شہادت قبول کی۔ غازی نہ بنے۔ اگر غازی بن جاتے تو وہ سب جو اس وقت ٹسوے بہا رہے ہیں گلا پھاڑ پھاڑ کر کہتے کہ حامد میر، ملالہ اور ابصار عالم کی طرح ڈرامہ کر رہا ہے۔ لیکن ایک اچھی خبر یہ ہے کہ تمہیں ایک آدھ خبیث کو چھوڑ کر سب نے متفقہ طور پر ناصرف شہید بلکہ وطن کی راہ میں جان دینے والا مان لیا ہے۔

تمہارے دشمن بھی تمہیں شہید قرار دے چکے ہیں۔ مجھے خوشی ہوئی صدیق جان کو یہ کہتے ہوئے دیکھ کر کہ تم شہید ہوئے۔ یہ وہی صدیق جان ہے جس کی تم نے طاقت اور غرور کے نشے میں گوادر میں پٹائی کی تھی (کاش یہ خبر غلط ہو!) صدیق جان چلا چلا کر حکومت سے مطالبہ کر رہا ہے کہ تمہاری شہادت کی تحقیقات کروائی جائیں۔ اور وہ تمہیں پاکستان کا سب سے بڑا صحافی بھی قرار دے چکا ہے۔ اچھا بچہ ہے۔ بات کو دل میں نہیں رکھتا۔

تم نے واقعی بہت زبردست تحقیقی صحافت کی۔ لیکن جب الیکڑانک میڈیا آیا تو تم نے بھی سب سے طاقتور گروپ کو بہت فخر سے گلے لگا لیا۔ مالکان نے تمہیں کئی بار ہیلی کاپٹر کی مفت سیر کرائی (مجھے اچھی طرح یاد ہے کتنے excited تھے تم پہلی بار ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر)۔

میں نے تم سے کئی بار اس بات کا گلہ کیا اور اپنے کرب کا اظہار کیا کہ یار ارشد اس الیکڑانک میڈیا نے ہم سے ہمارا بہترین investigative جرنلسٹ چھین لیا۔ اس بات کا اظہار تمہارے استاد مرحوم ضیا الدین صاحب نے بھی مجھ سے ایک انٹرویو میں کیا۔ وہ بھی سمجھنے سے قاصر تھے کہ تمہیں ہو کیا گیا ہے۔ اگر تم رستہ تبدیل نہ کرتے تو آج بھی چڑھا ہوا سورج ہوتے۔ پر نہ جانے کیوں تم نے نیا رستہ چن لیا اور وہ بھی اس گروپ کا جو تم نے سب سے پہلے منتخب کیا تھا۔ بس یہی تمہارے کریئر کی پہلی اور آخری غلطی ثابت ہوئی۔

کاش تم تہمینہ درانی کی 'مائی فیوڈل لارڈ' پڑھ لیتے۔ لیکن تم نے میری ایک نہ سنی۔ تم بہت ضدی رہے ہمیشہ۔ اور ضد کی قیمت تو چکانی ہی پڑتی ہے۔ اچھا تھوڑے کو زیادہ سمجھو۔ تار کو خط اور اس مضمون کو ناول جانو جس کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں۔ میں جلد ہی اپنی vintage کار کریسیڈا میں تم سے ملنے آتا ہوں ہمراہ رؤف کلاسرا اور خاور گھمن کے۔ تب تک کے لئے خدا حافظ۔ اپنا بہت بہت خیال رکھنا اور اگر نہیں بھی رکھو گے تو ہمیں کیا فرق پڑتا ہے! خوش رہو سلامت رہو!

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔