ایران سے آگے پاکستان ہے: کیا ہمارے ہمسائے میں ایک ریاست کا شیرازہ بکھرنے کو ہے؟

ایران سے آگے پاکستان ہے: کیا ہمارے ہمسائے میں ایک ریاست کا شیرازہ بکھرنے کو ہے؟
خاکم بدہن لیکن لگتا یہ ہے کہ آج سے دس یا شاید پندرہ سال بعد ہمارے بچے جو کتابیں پڑھ رہے ہوں گے ان میں پاکستان کے جنوب مغرب یا آسانی کے لئے مغرب میں واقع ریاست ایران وجود نہیں رکھتی ہو گی یا اگر رکھتی بھی ہوگی تو ایسے ہی جیسے لیبیا یا شام۔

اور یہ پیش گوئی اس وقت وقوع پذیر  بین الاقوامی ، علاقائی اور بین البراعظمی سیاسی تبدیلیوں کے تناظر میں ہے۔ ان سیاسی تبدیلیوں کا پارہ دراصل معاشی تبدیلیوں نے چڑھا رکھا ہے اور اگلی دہائی تک تو کم از کم اس پارے کا نیچے اترنے کا موڈ نہیں لگتا۔

غیر اعلانیہ ہی سہی لیکن لگتا یوں ہے کہ ایک خاموش مگر ہم آہنگ طور آج برطانیہ کے چھوڑے ہوئے تنازعات کو ایک ایک کر کے سمیٹنے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر کشمیر، جسے بھارت نے اپنا حصہ بنا لیا ہے۔ اب چاہئے ہم اقوام متحدہ جائیں یا پھر ہفتے میں ایک دن کشمیر کے نام پر تقریب دھوپ سینکائی منائیں سب اندر سے جانتے ہیں کہ کشمیرکا مسئلہ اب کسی صورت مسئلہ نہیں رہا۔ کچھ عرصہ گزرے گا کہ پاکستان گلگت بلتستان کو اپنا حصہ بنا لے گا۔ اور لداخ پر بھی چین اور بھارت کے درمیان انڈر سٹینڈنگ ہوجائے گی اور یوں یہ مسئلہ اپنے آپ حل سمجھا جائے گا۔ 

دوسرا مسئلہ فلسطین کا۔ اس معاملے میں بھی یہی لگتا ہے کہ اس کے تمام سٹیک ہولڈرزیہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ اسے جلد از جلد نئی حقیقتوں کے مطابق نمٹا دیا جائے۔ نئی حقیقتیں یہی ہیں کہ عربوں کی امارت جس تیل کی مرہون منت تھی اب صرف منت پر آچکی ہے کہ انکی معیشت کے اس بنیادی محرک کی دنیا میں مانگ کم سے کم ہے۔  ماشاللہ کہ انہوں نے تیل نکالنے اور تیل بیچنے سے زیادہ کبھی سوچا ہی نہیں اس لیئے بدلتے حالات کا جواب ان کے پاس موجود نہیں۔ با ثروت بادشاہتیں حقوق مانگنے والی عوامی حسیات کو بہترین معاشی ذرائع سے بے اثر رکھتی رہی ہیں تاہم اب چونکہ یہ ہتھیار بھی بے اثر ہو رہا ہے تو انہیں اپنے اقتدار کے لڑھک جانے کا بھی خطرہ لاحق ہے۔ ان کے عالمی سر پرست  انکل سام کے تیور بھی انکےمفاد میں نہیں۔  الغرض حالات یہ بتا رہے ہیں کہ  نئی حقیقتوں کو اپنانا ہی خطے میں قائم رہنے کا نسخہ ہے جس میں فلسطین کے مسئلے کی نظریاتی بنیادوں کو بھول کر اسرائیل کو گلے لگانا ہی سکہ ضرورت الوقت ہے۔ جبکہ اسرائیل اور  چین سے بدکے ہوئے امریکا (کی جاری مگر جلد سابقہ ہونے والی ٹرمپ حکومت) کے لئے بھی اس میں فائدے پنہاں ہیں۔

تاہم اس  حقیقت پسندی کے عالمی سیاسی  برگر میں اگر کوئی ہڈی بن کر سب کو تنگ کر رہا ہے تو وہ ایران ہے۔ اور سال 2019 میں اور خاص کر 2020 میں ہونے والے اہم ترین واقعات اشارہ دے رہے ہیں کہ شاید ایران کے خاتمے کا ٹارگٹ سیٹ کر دیا گیا ہے اور اس تک پہنچنے کے لیئے انتظامی معاملات طے ہو رہے ہیں۔ سال 2020 کا پہلا دن ایرانی القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی امریکا کے ہاتھوں موت کی خبر لایا۔ پچھلے ایک ہفتے میں سعودی شہر نوم میں اسرائیلی، سعودی و امریکی کرتا دھرتاؤں کی متنازعہ مگر خفیہ ملاقات، خلیج فارس میں امریکی بحری بیڑے کی موجودگی اور پھر ایرانی ایٹمی پروگرام کے سربراہ محسن فخری زادہ کی ٹارگٹ کلنگ کے ساتھ اگر امریکی میڈیا میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران سے جنگ کے معاملے پر بریفنگ لینے کی خبروں کو ملا کر پڑھا جائے تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ جلد بدیر ایران شاید اس نقشے پر موجودہ حیثیت میں موجود نہ ہو۔ 

اس حوالے سے یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ ایران میں موجود ملائیت پر مبنی مطلق العنان اسٹیبلشمنٹ اور انہی کی آلہ کار حکومتیں اپنے غیر لچکدار روئیوں کی وجہ سے ایرانی عوام کو غربت و معاشی استحصال کی نئی گہرائیوں میں دھکیل چکی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے اگر کسی بڑی طاقت نے ایران پر حملہ کردیا تو وہ زیادہ دیر اسے جھیل نہیں پائیں گے۔ حد تو یہ ہے کہ ایرانی قیادت اب بھی خطے میں تبدیل ہوتے  سیاسی، جغرافیائی و معاشی حقائق کا ادراک نہیں کرنا چاہ رہی اگر یہی روش رہی تو ایران کا مستقبل مخدوش ہی نطر آتا ہے۔

تاہم ہم پاکستانیوں کے لیے سوال یہ ہے کہ اگر اگلے دس سے پندرہ سالوں میں ہماری سرحد کے اس پار یہ حالات بننے جا رہے ہیں تو ہم نے اس حوالے سے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ ایک ابتر معیشت، جان بوجھ کر سیاسی انتشار اور مذہبی فالٹ لائنز ایسی کہ شام میں شیعہ ملائشیا میں لڑنے والوں میں پاکستانیوں کے نام آئیں اور سعودی حکمران خاندان اور پاکستانی مقتدرہ کے رابطے  اہلحدیث مذہبی رہنما کروائیں ایسا ملک خطے میں اٹھنے والے اس وبال سے کیسے نمٹے گا؟ اور اگر ابھی تک ہمارے کرتا دھرتاؤں کو اس کا ادراک نہیں ہوا تو ان کے لیئے یہ بتانا ضروری ہے کہ ایران کے آگے پاکستان ہے۔