'عمران خان کا جانا طے، ایڈونچر کرنے کی کوشش کی تو حال اچھا نہیں ہوگا'

'عمران خان کا جانا طے، ایڈونچر کرنے کی کوشش کی تو حال اچھا نہیں ہوگا'
نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ میری اطلاعات کے مطابق عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات میں دراڑ آ چکی ہے۔ کچھ اہم فیصلے کر لئے گئے ہیں جبکہ کچھ ہونا ابھی باقی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگلے سال دو سیاسی تبدیلیوں کی امید کی جا سکتی ہے۔ ایک تو یہ کہ عمران خان کی چھٹی ہو جائے گی اور ان کے جانے کے بعد قومی حکومت کا قیام عمل میں آئے گا جس کی مدت کم سے کم 6 ماہ اور زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سال ہو سکتی ہے۔ تاہم اگر اس پر اتفاق نہیں ہوتا تو پھر شاید الیکشن کا انعقاد جلد ہو جائے۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نئی حکومت کو بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا جن میں داخلی سیکیورٹی کی صورتحال، معاشی بحران، خارجہ امور، مہنگائی اور بے روزگاری سرفہرست ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ ابھی تک ایک پیج پر ہیں اور ہم سب کو دونوں نے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہو۔ تاہم میری اطلاعات ہیں کہ عمران خان کی چھٹی ہو جائے گی۔ خان صاحب نے اگر اس کیخلاف کسی قسم کا ایڈونچر کرنے کی کوشش کی تو ان کا حال اچھا نہیں ہوگا۔ جنوری 2022ء بہت ہی اہم مہینہ ہے۔ جو کچھ ہونا یا طے پانا ہے وہ اسی مہینے میں ہی ہو جائے گا۔ پتا چل جائے گا کہ عمران خان نے رہنا ہے یا جانا ہے۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے نجم سیٹھی نے کہا کہ پہلے جب تبدیلی آتی تھی تو اسٹیبشلمنٹ اپوزیشن کیساتھ مل بیٹھ کر چیزیں طے کر لیتی تھی۔ تاہم اب اس میں فرق ہے کیونکہ مسلم لیگ ن نے اب رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔ وہ اس صورتحال میں اسٹیبلشمنٹ کیساتھ ایک صفحے پر آنے کو کسی صورت تیار نہیں ہو رہی۔ کیونکہ نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بھروسہ ٹوٹ چکا ہے۔ اگر اس وقت پیپلز پارٹی کوئی مقبول جماعت ہوتی تو کوئی ایشو ہی نہیں تھا۔ پہلے اسٹیبشلمنٹ کے پاس ہمیشہ صاف ستھرے آپشنز ہوتے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ بٹن دباتی تھی تو اپوزیشن ساتھ چل پڑتی تھی لیکن اب نواز شریف ان کے راستے کی دیوار بن گئے ہیں۔

فنانس بل پر بات کرتے ہوئے نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ اس کے تحت ٹیکس بڑھیں گے اور عوام کو دی جانے والی سبسڈیز ختم ہو جائیں گی جو کہ اچھی بات ہے۔ تاہم امپورٹڈ اشیا کے اوپر ڈیوٹیز بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔  اس سے مہنگائی پر اتنا زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ مگر بے روزگاری بڑھنے کا خدشہ ہے۔ مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کو اپنا پیٹ کاٹنا پڑے گا۔ اگلے سال معیشت کی صورتحال سخت ہی رہے گی۔

سیکیورٹی معاملات پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ  افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کا ابھی تک پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا حالانکہ ہم نے پوری کوشش کی تھی کہ ہمارے حمایتی لوگ وہاں آ جائیں گے لیکن اس سے الٹ ہوا۔ طالبان نے ہماری کوئی مدد نہیں کی۔ ٹی ٹی پی کے افراد اب بھی افغانستان کے اندر موجود ہیں۔ ان کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی۔ ان کی جانب سے پاکستانی سیکیورٹی فورسز اور چینی منصوبوں پر حملے جاری رہنے کا خدشہ ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ان کے ساتھ ایسے معاہدوں کا ہونا ممکن ہے جس کا پاکستان کو فائدہ ہو یا کوئی سہولت ملے۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی پر بات کرتے ہوئے نجم سیٹھی نے کہا کہ ہمارے انڈیا کے ساتھ تعلقات تو خراب ہیں ہی لیکن امریکا اور سعودی عرب کیساتھ بھی اچھے نہیں رہے جبکہ طالبان تسلیم نہ کئے جانے کی وجہ سے ہماری کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ اگلے سال بھی ہمیں فارن پالیسی کے میدان میں بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔