عمران خان شان دار کرکٹر تھے، سیاست میں بے کار توانائیاں ضائع کر رہے ہیں

عمران خان شان دار کرکٹر تھے، سیاست میں بے کار توانائیاں ضائع کر رہے ہیں
قدرت نے ہر انسان کو کچھ مخفی صلاحیتیں عطا کی ہوتی ہیں۔ اب یہ ہم پر منحصر ہوتا ہے کہ اپنی ان صلاحیتوں کو پہچانیں اور انہیں درست طریقے سے بروئے کار لا کر اپنے ہدف کو حاصل کریں لیکن بعض اوقات ہم اپنی ان صلاحیتوں کو نطر انداز کر دیتے ہیں اور ایسی خواہشات کے حصول میں اپنی توانائی اور قیمتی وقت برباد کر دیتے ہیں جو ہماری صلاحیت کے برخلاف ہوتی ہیں اور نتیجے میں سوائے ناکامی اور رسوائی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

اسلم پرویز ہماری فلم انڈسٹری کے مشہور فنکار گزرے ہیں۔ اسی طرح پران بھی بالی وڈ کے ایک معروف فنکار رہے ہیں۔ ان دونوں فنکاروں کا فلمی کیریئر بطور ہیرو شروع ہوا لیکن دونوں کو حقیقی کامیابی منفی کردار میں ملی۔

ماجد خان اور آصف اقبال کا شمار ہماری کرکٹ کے بڑے کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔ یہ دونوں کھلاڑی تیز رفتار باؤلر کی حیثیت سے قومی ٹیم میں شامل ہوئے لیکن انہیں شہرت بلے بازوں کی حیثیت سے حاصل ہوئی۔ ان دونوں کھلاڑیوں نے اپنی صلاحیتوں کو جلد ہی پہچان لیا اور اس کے مطابق کھیل میں تبدیلی کر لی۔

عمران خان یقیناً کرکٹ کی دنیا کے ایک بڑے کھلاڑی رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے کھیل سے ایک دنیا کو اپنا گرویدہ بنایا۔ عمران خان کو چاہئیے تھا کہ وہ ریٹائرڈ ہونے کے بعد پاکستانی کرکٹ پر توجہ دیتے اور اس کی بہتری کے لیے کام کرتے لیکن انہوں نے سیاست کا انتخاب کر لیا۔

یقیناً ہر شخص کو سیاست میں حصہ لینے کا حق ہے لیکن جیسا کہ سطور بالا میں عرض کیا ہے کہ ہر کام اگر صلاحیت کے مطابق کیا جائے تو دیر سویر کامیابی مل ہی جاتی ہے۔ خان صاحب جارحانہ شخصیت کے حامل ہیں جو کہ ان کے خطابات سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ 2013 سے 2018 تک انہوں نے حزب اختلاف کے رہنما کے طور پر کافی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ گو کہ انہوں نے اس وقت بھی قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا تھا جو بعد میں واپس بھی لے لیا لیکن اس وقت ان کے حکومت کے خلاف بیانات اور مظاہروں نے حکومت کو ان کی کئی شرائط ماننے پر مجبور کیا اور یہ ان کی ایک کامیابی ہی کہی جا سکتی ہے۔

خان صاحب کو اقتدار کیسے ملا اور کیسے ختم ہوا، اس بات کو رہنے دیتے ہیں۔ اب جب کہ ان کی جماعت حزب اختلاف میں ہے تو انہیں چاہئیے کہ وہ قومی اسمبلی کا پلیٹ فارم استعمال کریں اور وہاں حکومت پر دباؤ ڈالیں۔ چاہے قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ ہو یا کوئی اور، وہ انہیں پارلیمنٹ ہی سے حاصل ہو گا۔ خان صاحب کی طبیعت کے مطابق ان کا کردار حزب اختلاف کا ہی ہے اور اس بات کو وہ جتنی جلد سمجھ لیں گے اتنا ہی ان کے لیے بہتر ہوگا۔ بصورت دیگر وہ سیاسی میدان سے ہی باہر ہو جائیں گے کیونکہ اسمبلی سے باہر رہ کر انہیں صرف شکست ہی ملی ہے۔ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں۔

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔