پاکستان سے بھارت جا بسنے والے ہندو خاندان کی ہلاکت میں نیا موڑ: بھارت میں ایسے خاندانوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟

پاکستان سے بھارت جا بسنے والے ہندو خاندان کی ہلاکت میں نیا موڑ: بھارت میں ایسے خاندانوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟

بھارت کی ریاست راجستھان کے ضلع جودھپور میں ایک کھیت سے اتوار کے روز ایک ہی خاندان کے 11 ایسے افراد کی لاشیں ملی تھیں جو سنہ 2015 میں پاکستان سے ہجرت کر کے بھارت منتقل ہو گئے تھے۔





پاکستان سے ہجرت کر کے انڈیا آباد ہونے والے اس ہندو خاندان کا اب صرف ایک ہی فرد، 37 سالہ کیول رام، ہی زندہ بچا ہے جس سے انڈین پولیس فی الحال تفتیش کر رہی ہے۔


اب بھارتی پولیس نے کہا کہ اس خاندان نے خود کشی کی ہے۔ تاہم اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بی بی سی کے مطابق  پولیس کو جائے وقوعہ سے کیڑے مار دوا، ایک سرنج اور انجیکشن لگاتے وقت استعمال کی جانے والی روئی ملی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ بظاہر معاملہ خودکشی کا لگتا ہے کیوں کہ خاندان کی ایک خاتون تربیت یافتہ نرس کا کام کرتی تھی۔

لیکن سوال یہ ہے اگر یہ خاندان پڑھا لکھا تھا تو پھر کیسے ایسے محرکات تھے کہ انہوں نے خود کشی کی؟

پولیس کے مطابق خاندان میں اندرونی جھگڑا چل رہا تھا۔ یہ بات پولیس تک بھی پہنچی تھی اور کئی ماہ سے دونوں جانب سے پولیس کے پاس بار بار شکایتیں پہنچ رہی تھیں۔  پولیس کو اؤموقع سے ایک خط ملا ہے جس کی فرانزک تفتیش ہو رہی ہے۔ اس خط میں پاکستان سے بھارت آنے کے حالات کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ عام طور پر بھارت میں رہنے والے پاکستانی ہندو اردو میں لکھتے ہیں۔ لیکن اس خط کو ہندی میں لکھا گیا ہے۔ خیال ہے کہ خاندان کے بچے ہندی پڑھ لکھ لیتے تھے۔ پولیس اس بات کی بھی تفتیش کر رہی ہے۔

اس موقع پر ایسے واقعات سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان سے بھارت آ کر رہنے والے ہندو افراد کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ ایک مشکل زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ پریم چند بھیل نے بتایا کہ وہ سندھ میں سانگھڑ نامی علاقے میں رہتے تھے۔ انہیں اب بھارت کی شہریت مل چکی ہے لیکن ان کی اہلیہ اور بچوں کو اب تک شہریت نہیں ملی۔