پولیس نے لاہور دھماکے کے شبے میں بلوچ طلبہ کی گرفتاریاں شروع کر دیں

پولیس نے لاہور دھماکے کے شبے میں بلوچ طلبہ کی گرفتاریاں شروع کر دیں
لاہور کے علاقے انارکلی میں دھماکے کے بعد پولیس و دیگر سیکیورٹی اداروں نے لاہور میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنے والے بلوچ طلبہ کو پکڑنا شروع کر دیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق پولیس کی جانب سے لاہور انار کلی حملے کے شبہ میں بلوچستان سے لاہور پڑھنے آئے طالب علم عمران ولد شبیر احمد اور آدم ولد محمد علی کو گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے۔ بلوچستان تربت سے تعلق رکھنے والے بلوچ طلباء پنجاب کالج، لاہور میں زیر تعلیم تھے جنہیں جمعہ کی صبح تقریباً 4 بجے پولیس کی وردی میں ملبوس افراد کے ساتھ سول لباس میں ملبوس افراد نے ہاسٹل سے اٹھایا۔

https://twitter.com/Rabail26/status/1484861212869468164

عمران اور آدم تربت کے علاقے تجابان سے تعلق رکھتے ہیں اور فرسٹ ایئر کے طالب علم ہیں۔ انہیں مسلم ٹاؤن میں ان کے ہاسٹل سے اٹھایا گیا۔




دوسری جانب لاہور دھماکے کے بعد لاہور انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے پنجاب یونیورسٹی میں ہاسٹلوں کی تلاشی کی گئی ہے۔

پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ نے الزام عائد کیا ہے کہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات 12 بجے کے بعد پولیس نے صرف بلوچ اور پشتون طلبہ کے کمروں کی تلاشیاں لی ہیں۔

مذکورہ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ درجنوں طالبعلم ایک جگہ پر جمع ہیں اور ایک طالبعلم کا کہنا تھا کہ ”رات 12“ بجے کے بعد یہ لوگ یہاں آگئے ہیں اور صرف بلوچ اور پشتون طلبہ کے شناختی کارڈوں کی تصویریں بنا کر لے گئے ہیں، انہیں یہاں سے کچھ بھی نہیں ملا ہے۔

https://twitter.com/HeraldStudents/status/1484421468767277056

بلوچ سٹوڈنٹس پنجاب و وفاق نے اپنے بیان میں پنجاب میں بلوچ طلبہ کو نشانہ بنانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں تعلیمی اداروں کی قلت کہ وجہ سے بلوچ طلبہ پنجاب کا رخ کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ وہ پنجاب میں بھی محفوظ نہیں۔ جو طالب ایک روشن مستقبل کا خواب لیے پنجاب آئے اب یہاں سے گرفتاری کے بعد لاپتہ ہو رہے ہیں۔



انسانی حقوق کی کارکن رابعہ محمود نے ٹوئٹر میں لکھا کہ یہ نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے لیے پنجاب آئے تھے، لیکن اس کے بجائے ان کی نسل اور علاقے کی وجہ سے ان پر ظلم کیا جاتا ہے

خیال رہے کہ لاہور دھماکے کی ذمہ داری بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بی ایل اے نے قبول کی ہے۔