'تحریکِ عدم اعتماد آئے گی، اور کامیاب بھی ہوگی'

'تحریکِ عدم اعتماد آئے گی، اور کامیاب بھی ہوگی'
مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت اور پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت ایک صفحے پر؟ یہ کب ہوا؟ کیسے ہوا؟ کچھ سمجھ نہیں آئی۔ ابھی چند روز پہلے تک تو لگ رہا تھا کہ سب کھیل ختم ہو گیا، اپوزیشن ٹھس ہو گئی، کوئی عدم اعتماد وغیرہ ممکن نہیں ہوگی، خصوصاً جب حکومت نے سٹیٹ بینک کا بل بھی پاس کروا لیا اور اپوزیشن اس کا کچھ نہ بگاڑ سکی تو پھر اب اپوزیشن سے کیا ہونا تھا۔ نصرت جاوید سے غریدہ فاروقی تک سب نے اپوزیشن کے نکمے پن پر خوب تنقید کی۔ یہاں تک کہ ہفتے کی دوپہر کو ہونے والی اس ملاقات کو اخبارات نے بھی محض ایک کالمی یا دو کالمی خبر کے طور پر ہی جگہ دی۔

تاہم، اس ملاقات کے اندر سے آنے والی خبروں نے یکایک کھیل کا نقشہ بدل دیا ہے۔ جی ہاں یہ ملاقات تھی ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے بڑوں کی وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن جو ایک برس قبل تک ایک دوسرے سے بات کرنے کی روادار نہ رہی تھیں، جو ایک دوسرے پر سلیکٹڈ ہونے کے الزامات لگا رہی تھیں اور دھوکہ دہی کا مرتکب ٹھہراتی تھیں، آج یوں شیر و شکر تھیں کہ صحافیوں کی جانب سے پرانی باتیں یاد کروانے پر بھی بے مزہ نہ ہو رہی تھیں۔ یہی پیپلز پارٹی تھی جس نے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کی سیٹ کے لئے حکومت کے چار ممبران سے اپوزیشن میں ووٹ لے لیے تھے۔ اور یہی ن لیگ تھی جس نے انہیں پی ڈی ایم میں آ کر شو کاز نوٹس پر جوابدہی کے لئے طلب کیا تھا اور پیپلز پارٹی اتنا ناراض ہوئی تھی کہ اسی واقعے نے پی ڈی ایم کو توڑ ڈالا تھا۔ آج لیکن وہ ہوتا دکھائی دے رہا تھا جو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے بھی ہوتا ممکن نظر نہ آتا تھا۔

اطلاعات کے مطابق اس اہم ملاقات میں چند اہم ترین معاملات طے پا چکے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے یہاں پیپلز پارٹی کے سامنے ان 20 تحریکِ انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کی تفصیلات بھی رکھیں جو ان کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ اس ملاقات کے دوران سب حیرت میں اس وقت مبتلا ہو گئے جب کھانے کی میز پر سب کے اکٹھے ہوتے ہی پانچ افراد اس کھانے کی میز سے غائب ملے۔ یہ پانچ افراد کوئی اور نہیں بلکہ شریف خاندان کے تینوں اراکین شہباز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز کے ساتھ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری تھے۔ بند کمرے میں کیا بات ہوئی کوئی بتا تو نہیں سکتا، لیکن یہ بات طے ہے کہ یہاں سے تمام افراد بہت خوش ہو کر باہر آئے۔ اردو نیوز کے منجھے ہوئے رپورٹر رائے شاہنواز کے مطابق اس ملاقات سے پہلے میڈیا سے بات چیت کا بھی کوئی امکان نظر نہیں آ رہا تھا لیکن اس کے فوراً بعد اچانک میڈیا کو بھی اندر بلا کر سوال لیے گئے۔

خوشی کی وجہ غالباً یہ تھی کہ سینیئر صحافی اور اپنی صحافتی رسائی کے حوالے سے ملک کے قد آور ترین صحافیوں میں سے ایک نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات بہت ہی کامیاب رہی۔ اب اس کا یہی معنی لیا جا سکتا ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد کے حوالے سے کچھ فیصلے ہو چکے ہیں۔ کچھ شاید ابھی باقی ہوں۔ نیا دور کے پروگرام 'خبر سے آگے' میں بات کرتے ہوئے رائے شاہنواز نے بتایا کہ ابھی شاید مزید کچھ ملاقاتیں ہوں اور ممکن ہے کہ زرداری صاحب اتوار کو چودھری پرویز الٰہی سے بھی ملاقات کریں۔ اس موقع پر مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ یہ ملاقاتیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں اور یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ اس سے پہلے مولانا فضل الرحمان اور ایم کیو ایم رہنما عامر خان کے درمیان بھی تفصیلی بات چیت ہو چکی ہے۔ اس سے پہلے مسلم لیگ ن بھی ایم کیو ایم سے ملی ہے۔

پاکستان کے ایک اور ممتاز صحافی سہیل وڑائچ نے بھی خبر سے آگے میں نیا دور سے بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے یہ تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوگی لیکن یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ تحریکِ عدم اعتماد پر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں اتفاق ہو گیا ہے۔ مرتضیٰ سولنگی کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ عدم اعتماد اس لئے کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل تو ہے لیکن اس کا جھکاؤ اب بھی حکومت کی طرف ہے۔

سینیئر تجزیہ کار مزمل سہروردی البتہ اس تجزیے سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں۔ اور اگر عدم اعتماد کے نتیجے میں حکومت اپوزیشن کو ملتی ہے اور میثاق جمہوریت کے تحت مسلم لیگ ن کا وزیر اعظم آتا ہے تو لیگی قیادت کو یہ آپشن قبول ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم 16 ماہ کا عوام کو جواب دے لیں گے۔

سہروردی نے کہا کہ زرداری اور بلاول آج یہی کہنے گئے تھے کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو میثاق جمہوریت کے تحت وزیر اعظم بنانے کا اختیار ن لیگ کا ہے اور ہم اسے سپورٹ کریں گے۔ ورنہ زرداری صاحب کو ظہرانے میں جانے کی ضرورت کیا تھی۔ پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کو موقع دینے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر مسلم لیگ ق کو 16 ماہ کے لئے پنجاب کی حکومت کرنے دی جائے تو وہ وفاق میں آنے والی لیگی حکومت کی بھرپور سپورٹ کرنے کو تیار ہیں۔

مزمل سہروردی نے بتایا کہ ن لیگی ذرائع کہہ رہے ہیں کہ اس اہم اجلاس کے بعد شریف برادران کے درمیان تقریباً دو گھنٹے ٹیلی فونک گفتگو ہوئی ہے۔ اس میں طے ہوا ہے کہ پیر کے روز سنٹرل کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے۔ اس کے علاوہ شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمان سے بات کر کے پی ڈی ایم کا اجلاس بلانے کی بات کی ہے۔ چیزیں اگر طے نہ ہوئی ہوں تو ایسے رابطے نہیں ہوتے۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فائنل سکرپٹ طے ہو چکا ہے۔ تحریک عدم اعتماد ناکام نہیں ہوگی۔ زرداری صاحب کو کسی نے سمجھایا ہے کہ لیگی قیادت کے پاس جائیں کیونکہ ان کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔

پروگرام میں اس حوالے سے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لئے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی کافی عرصے سے سوچ ایک ہے۔ دونوں یہ اقدام اٹھانا چاہتی ہیں لیکن ابھی تک اتفاق نہیں ہو رہا تھا۔ یہ جماعتیں ملیں گی تب ہی یہ ممکن ہو سکے گا۔ آج کی ملاقات میں اس حوالے سے ضرور پیشرفت ہوئی ہے کہ چاہے یہ اس میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں لیکن اس کی کوشش ضرور کریں گے۔

سہیل وڑائچ نے کہا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی اپنے اختلافات ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی لیکن وہ عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے میں شاید کامیاب نہ ہو سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد ن لیگ زیادہ دیر وقفہ نہیں چاہتی۔ ان کی قیادت سمجھتی ہے کہ عمران خان کو ہٹا کر فوری انتخابات ہو جائیں کیونکہ جتنا عرصہ لمبا ہوگا، اس کا بوجھ اپوزیشن اور نگران حکومت پر ہی پڑے گا۔ اگر مہنگائی اور بجلی کی قیمتیں کنٹرول نہ ہوئیں تو وہ بھی برابر کے مجرم ٹھہریں گے۔

آنے والے چند روز اس حوالے سے بہت اہم ہیں۔ عین ممکن ہے کہ رمضان سے پہلے ہی کسی بڑے سیاسی کھیل کا اختتام ہو جائے۔