کرپشن بے نقاب کرنے والے صحافی مشکلات میں پھنس جاتے ہیں

صحافی حسنین دولتانہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے 2016 میں رپورٹنگ شروع کی تھی، اب تک ان پر 18 مقدمات درج ہو چکے ہیں اور زیادہ تر مقدمات پولیس کی جانب سے ہی درج کیے گئے۔ اپنی سمجھ کے مطابق انہوں نے ہر بار کسی مظلوم کی مدد کرنے کی کوشش کی مگر اس کے ردعمل میں ان پر مقدمات درج ہوتے گئے۔

07:02 PM, 6 Dec, 2023

مبشر مجید

صحافی جب بھی کسی کا ناجائز دھندا بے نقاب کرتا ہے تو اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی اسے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں تو کبھی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر صحافی مافیاز کے خلاف رپورٹنگ سے گریز کرتے ہیں۔

گذشتہ 7 سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ وہاڑی کے نواحی علاقہ لڈن کے صحافی حسنین خان دولتانہ بتاتے ہیں کہ ان کا علاقہ لڈن جرائم کے حوالے سے صوبہ بھر میں مشہور ہے۔ جب بھی ملتان میں نیا آر پی او تعینات ہوتا ہے تو انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس کی جانب سے اسے تھانہ لڈن کے بارے میں خاص ہدایات دی جاتی ہیں اور یہی کچھ آر پی او ملتان ضلع کے ڈی پی او کو بتاتا ہے کہ جرائم کے حوالے سے لڈن پر خاص فوکس رکھا جائے۔ اب بھی اس پولیس سٹیشن میں کرپشن کا خاتمہ ایک خواب ہے۔

حسنین دولتانہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے 2016 میں رپورٹنگ شروع کی تھی، اب تک ان پر 18 مقدمات درج ہو چکے ہیں اور زیادہ تر مقدمات پولیس کی جانب سے ہی درج کیے گئے۔ اپنی سمجھ کے مطابق انہوں نے ہر بار کسی مظلوم کی مدد کرنے کی کوشش کی مگر اس کے ردعمل میں ان پر مقدمات درج ہوتے گئے لیکن آج تک کسی بھی مقدمہ میں گنہگار قرار نہیں دیا گیا کیونکہ ان مقدمات کا حقیقت سے دور دور تک تعلق نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے تفتیش کے دوران انہیں بے گناہ قرار دے کر مقدمہ خارج کر دیا جاتا رہا۔ ان کے خلاف درج تمام مقدمات بعد از تفتیش خارج ہو گئے ہیں۔

حسنین کا کہنا ہے کہ 2017 میں جب وہ روزنامہ اوصاف کے ساتھ وابستہ تھے تو انہوں نے ایک واقعہ رپورٹ کیا جس میں ایک لڑکی سے زنا کرتے ہوئے ایک شخص کو علاقے کے لوگوں نے رنگے ہاتھوں پکڑا، علاقہ کے لوگوں نے پولیس کو اطلاع دی لیکن پولیس کی جانب سے زانی شخص کے خلاف تو کوئی کارروائی نہ کی گئی، الٹا اطلاع دینے والے یعنی مجھ پر دفعہ 376 اور 506 بی کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا۔

ان کا ماننا ہے کہ صحافی صرف خبر لگاتا ہے، پولیس کو اطلاع نہیں کرتا لیکن چھوٹے علاقوں میں صحافی عام طور پر سماجی کاموں میں بھی شامل ہوتے ہیں، اس لیے پولیس کو اطلاع کی۔ بہرحال انہوں نے علاقہ کے لوگوں کی اطلاع پر ہی موقع پر پہنچ کر پولیس کو اطلاع کی۔

یہ مقدمہ علاقہ مکین سجاد دولتانہ کی مدعیت میں درج ہوا۔ دفعہ 376 زنا بالجبر کرنے والے پر لگتی ہے جس کی سزا عمر قید ہے اور 506 بی اسلحہ کے ساتھ جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے پر لگتی ہے جس کی سزا 7 سال قید ہے۔ مقدمہ کی تفتیش ایس پی انویسٹی گیشن روبینہ عباس نے کی، جس میں ناکافی شواہد کی بنا پر مقدمہ خارج کر دیا گیا۔

اس کے بعد 2018 میں ایک ایس ایچ او کے لین دین کے حوالے سے خبریں شائع کیں تو اس نے پوری پلاننگ کر کے کوثر بی بی نامی ایک خاتون کو میرے دفتر بھیجا جس نے خود ہی اپنے کپڑے پھاڑ لیے اور مجھ پر ہراسانی کا الزام لگا دیا جس پر دفعہ 354 کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا۔ ڈی ایس پی صدر نے تفتیش کی جس کے بعد مقدمہ خارج ہوا۔

علاقہ کے ممبر صوبائی اسمبلی اعجاز سلطان بندیشہ نے ایک عورت کے ذریعے ہراسانی کا مقدمہ درج کروا دیا۔ وجہ عناد یہ تھی کہ 2021 میں جب لڈن کو بطور ٹاؤن کمیٹی منظور کر لیا گیا تو لڈن شہر سے ایک کلومیٹر فاصلہ پر واقع موضع غلام شاہ کو ٹاؤن کمیٹی سے نکلوا دیا جبکہ شہر سے 6 کلومیٹر دور آڑھا منصور کے علاقہ کو شامل کر لیا گیا۔ اہل علاقہ کے احتجاج پر جب خبر لگائی تو ممبر صوبائی اسمبلی کو غصہ آ گیا جس پر اس نے مقدمہ درج کروا دیا۔

تھانہ دانیوال وہاڑی میں یہ مقدمہ ایک خاتون سماجی رہنما کی مدعیت میں درج ہوا جس میں 365، 506 بی، 384، 509 اور 512 سمیت 7 دفعات شامل تھیں۔ اس وقت کے ڈی ایس پی صدر سرکل خالد جاوید جوئیہ نے تفتیش کی اور ملزم کو بری کر کے مقدمہ خارج کر دیا۔ حسنین دولتانہ بتاتے ہیں ایف آئی آر مقدمہ کا ابتدائی حصہ ہوتا ہے جہاں سے چھان بین یا تفتیش کا آغاز ہوتا ہے اور جس پر مقدمہ ہو وہ ملزم ہوتا ہے، اس لیے تفتیش کے بعد ہی واضح ہوتا ہے کہ ملزم قصور وار ہے یا نہیں۔ ان پر درج تمام مقدمات میں وہ بری ہوئے ہیں، اس لیے ان پر محض جھوٹے الزام لگائے گئے تھے تاکہ خوفزدہ ہو کر پولیس کے ناجائز کام عیاں نہ کر سکیں۔

حسنین کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ خبر لگانے سے قبل مؤقف لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس یا دیگر لوگ اس کے خلاف ایک بھی ہتک عزت کا دعویٰ نہیں کر سکے بلکہ خاموش کرانے کے لیے دیگر ہتھکنڈے استعمال کرتے رہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ہمارے اکثر محکمہ جات میں کرپشن، اختیارات کا ناجائز استعمال اور ڈیوٹی میں بددیانتی دیکھنے میں آتی ہے لیکن جب انہی برائیوں کے خاتمہ کے لیے ایک صحافی کوشش کرتا ہے تو ادارے ان کے خلاف ہو جاتے ہیں اور انہیں مقصد سے ہٹانے کے لیے کبھی دھمکیاں دی جاتی ہیں، کبھی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی جعلی مقدمات میں پھنسایا جاتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ علاقائی صحافی دیہاڑی باز اور بلیک میلر ہوتے ہیں اور لوگ اس بات کو بہت آسانی سے مان بھی لیتے ہیں لیکن کیا یہ بات حقیقت نہیں ہے کہ ہمارے اکثر ادارے، بیوروکریٹس، سیاستدان اپنی ذمہ داریوں کو بھول کر کرپشن کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں اور مال بنانے میں لگے ہیں۔ سب جانتے ہیں لیکن مقدمات اور دھمکیوں کے ڈر سے خاموش رہتے ہیں۔ یہ جرات صرف ایک صحافی ہی کرتا ہے۔

اسلام آباد میں مقیم ماہر تعلیم، لکھاری اور کالم نگار محمد مرتضیٰ نور کا کہنا ہے کہ تحقیقاتی رپورٹنگ میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ مسئلے کی گہرائی تک پہنچنے کے لیے بہت سے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اسی لیے اس میں محنت بھی لگتی ہے لیکن تحقیقاتی صحافت پاکستان میں ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ دوران رپورٹنگ صحافی پر بہت زیادہ سوسائٹی پریشر ہوتا ہے۔ ایک بات انتہائی اہم ہے کہ رپورٹر کو کسی صورت بھی پارٹی نہیں بننا چاہئیے، وہ نیوٹرل رپورٹنگ کرے اور اگر سٹوری میں کوئی شخصیت شامل ہے تو اس کا مؤقف لے کر سٹوری کو بیلنس کرے۔ ہمارے ہاں بعض اوقات رپورٹر کے لیے مشکلات کا آغاز تب ہوتا ہے جب وہ بطور پارٹی اپنا کردار ادا کرنے لگتا ہے۔

ابتک نیوز چینل کے رپورٹر حافظ عبدالمالک کہتے ہیں کہ انہوں میں 1992 میں صحافت کا آغاز کیا، اس دوران متعدد بار ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا جس میں کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال بارے رپورٹنگ کرنے پر انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ 2 بار سڑک پر جاتے ہوئے بائیک ہٹ کی گئی لیکن خوش قسمتی سے محفوظ رہا۔

وہ بتاتے ہیں کہ سیاسی بیٹ میں عام طور پر صحافی کو زیادہ مزاحمت کا سامنا رہتا ہے۔ 2011 میں جب انہیں وہاڑی کے بڑے سیاستدانوں کی تفصیل ملی جس میں وہ واپڈا کے لاکھوں روپے کے نادہندگان تھے، انہوںن ے خبر شائع کی تو اگلے روز کالز آنا شروع ہوئیں کہ آپ شرفا کی پگڑی اچھال رہے ہیں۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ پگڑی نہیں اچھالی بلکہ آئینہ دکھایا ہے۔ اس جواب پر انہیں کافی دھمکیاں دی گئیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ کرپشن اور بیڈ پریکٹسز بے نقاب کرنے پر ملک بھر میں صحافی مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ کبھی انہیں اغوا کر لیا جاتا ہے تو کبھی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جان سے مارنے اور بچوں کو اٹھانے کی دھمکیاں تو اکثر دی جاتی ہیں لیکن سچ کی آواز بلند کرنے کے لیے خطرات تو پیش آتے ہی ہیں۔ بطور رپورٹر میڈیا سیفٹی کے حوالے سے ہر ممکنہ اقدام اپناتے ہیں۔

خاتون صحافی سلمیٰ جہانگیر بتاتی ہیں کہ کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال بارے رپورٹنگ کرنے پر ہمیشہ صحافیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ خود بھی ان حالات سے گزر چکی ہیں۔ عام طور پر ایسی رپورٹنگ کے بعد اغوا کرنے، فیملی کو نقصان پہنچانے، ملازمت سے فارغ کرانے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ایک آرٹیکل میں وکلا کے فنانشل ایشو پر لکھا جس میں ایک سینیئر وکیل کی رائے بھی شامل کی۔ اس وقت تو انہوں نے رائے دے دی لیکن جب آرٹیکل شائع ہوا تو انہوں نے کہا کہ ان کی رائے حذف کر دی جائے، ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس حوالے سے سرکار اور قانون نافذ کرنے والے ادارے صحافیوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہیں۔ اگر ایسے واقعات کے بعد ادارے مؤثر کارروائیاں کر کے چند ایک مثالیں قائم کر دیں تو ان میں کمی آ سکتی ہے۔

قانون دان عبدالوہاب بلوچ کا کہنا ہے کہ صحافیوں کے خلاف سب سے زیادہ ہراسانی کے واقعات اور مقدمات سیاسی رہنماؤں کی جانب سے درج کرائے جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ وکلا حضرات جو ناجائز قبضوں کے معاملات میں پروفیشنل ذمہ داریوں کے بجائے پارٹی بن جاتے ہیں اور سرکاری افسران خاص طور پر ہیلتھ افسران اور ڈاکٹرز کے خلاف انصاف فراہم کرنے والے ادارے کارروائی سے گریزاں ہوتے ہیں کیونکہ کسی بھی ایشو پر ڈاکٹرز کی تنظیمیں علاج معالجہ کی ڈیوٹی چھوڑ کر ہڑتال کے لیے نکل آتی ہیں جس سے عوام الناس کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ سیاست دان اپنے ورکرز کے ذریعے صحافیوں کو ہراساں کرتے ہیں، پولیس کی جانب سے منشیات کے مقدمات درج کرائے جاتے ہیں، اگر کوئی صحافی درخواست گزارے تو ہراسانی کی درخواست لی نہیں جاتی، ٹال مٹول کی جاتی ہے۔ اگر درخواست لے لیں تو کارروائی نہیں کرتے اور تفتیشی افسران زبردستی صلح کرا دیتے ہیں۔

مزیدخبریں