ایم آر ڈی تحاریک 1983 سے 1986
یہ ایک اور سندھ تھا۔ اس سندھ سے بہت بہت مختلف جہاں پٹواری اور ہیڈ کانسٹیبل جا کر آبیانے کی عدم ادائیگی پر پورا گاؤں گرفتار کر کے تھانے لے آتے تھے۔ یہ گاؤں برگیڈیئروں سے نہتے لڑ رہے تھے۔
چانڈیو قبیلے و برادری کے لوگوں میں ان کا مثبت و منفی تصور ابھرا تھا یا اُبھار دیا گیا تھا۔ یہ محبتی اور بہادر لوگوں کا اب اپنے قبیلے کے مٹھی بھر ڈاکوؤں کے حوالے سے سٹیریو ٹائیپ تصور بنا دیا گیا تھا۔ انہی دنوں میں سندھ کے لوگوں نے سٹیریو لفظ ان ٹیپ رکاررڈروں کے بارے میں سنا تھا جو سعودی عرب اور دبئی سے منگواتے تھے۔ جن پر کلام سنے جاتے تھے۔
"دادو مورو میہڑ میں کیسے ڈھول سپوت مرے"۔ یہ مرنے والے زیادہ تر چانڈیو قبائل اور گوٹھوں کے بھی تھے۔ ایم آر ڈی تحریک میں کئی ہزاروں چانڈیو لوگوں کے حصہ لینے کی وجہ سے بے شمار چانڈیو گوٹھوں پر فوجی آپریشن ہوا۔ قبائلی دشمنیوں اور چھوٹے موٹے کیسز کی بنا پر نوجوان چاہے بوڑھے، پکی عمر والے چاہے بچے، جیلوں میں جھوٹے سچے مقدمات میں قید کر دیے گئے۔
جب ضیا نے جانا علامہ قاسمی بھی چانڈیو ہے
اس قبیلے نے بڑے بڑے سکالر، سیاسی رہنما و انسانی حقوق کے سرگرم کارکن، قوم پرست و بائیں بازو کے کارکن، شاعر و ادیب، فنکار مصور موسیقار، بیوروکریٹ و اساتذہ۔ پولیس و فوجی افسر اور سپاہی، مذہبی عالم و، دانشور پیدا کیے۔علامہ غلام مصطفیٰ قاسمی جو کہ ملک کے بہت ہی بڑے مذہبی عالم اور سندھی ادیب و دانشور گزرے ہیں، دیوبند اور جامعہ ملیہ دہلی کے فارغ التحصیل تھے۔ ان کا تعلق بھی چانڈیو قبیلے سے تھا (لیکن وہ اپنے استاد اور دیوبند کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی کی نسبت سے خود کو قاسمی کہلواتے تھے)۔ وہ سابقہ لاڑکانہ ضلع اور اب قمبر شہداد کوٹ کے گاؤں بنبھو خان چانڈیو میں سے سب سے پہلے دو میں سے ایک تعلیم یافتہ شخص تھے (دوسرے ان کے بعد ان کے قریبی عزیز سندھ کے زمانہ روزگار کہنہ مشق صحافی امان اللہ بلوچ تھے)۔ سندھ و ملک کے علمی و ادبی حلقوں میں معتبر مانے جانے والے علامہ قاسمی جنرل ضیا الحق کے دور میں مجلس شوریٰ کے رکن بھی تھے۔ ایک ملاقات میں ضیا الحق نے جب ان سے پوچھا کہ ان کا تعلق سندھ میں کس ذات و قبیلے سے ہے تو انہوں نے بتایا کہ ان کا تعلق چانڈیو قبیلے سے ہے۔ جنرل ضیاالحق یہ سن کر اپنی جگہ سے گویا جست مار کر اٹھا تھا۔
سندھ کی ایم آر ڈی تحریک جس نے ملک میں بحالی جمہوریت کی جدوجہد میں اگلے مورچے کا کردار ادا کیا تھا پر ایک بڑی مستند تحقیق شاہ لطیف یونیورسٹی کے پروفیسر امیر علی چانڈیو کی ہے جو کہ ان کی پی ایچ ڈی کی ڈیسرٹیشن ہے۔ یہ اب کتابی صورت میں موجود ہے۔
غیر اعلانیہ ' چانڈیو مارشل لا'
یہ اور بات ہے کہ ضیا کی فوجی آمریت کے سامنے احمد سلطان جیسا چانڈیو سردار بھی زیادہ دیر نہیں ڈٹ کر کھڑا ہو سکا لیکن چانڈیو قبیلے کے اکثر لوگ بینظیر اور بھٹو کے مداح اور بے جگری سے لڑتے رہے۔ جب کہ فوجی و ریاستی آپریشن کی بھی سندھ میں حد کر دی گئی۔ انہی دنوں میں ہمارے دوست اور شاعر ترنم منظور سولنگی کی نظم 'فوج پولیس چوے دھاڑیل پیا گولیوں' ( فوج پولیس کہے ہم ڈاکو ڈھونڈ رہے ہیں) ایک مقبول ترانے اور ہر سیاسی اجتماعات اور احتجاجوں کا حصہ بن گیا۔ ڈاکوؤں کی تلاش کی آڑ میں 1983 سے 86 تک سندھ کے گوٹھوں بشمول وہ چانڈیو گوٹھ جہاں سے چانڈیو ڈاکو تعلق رکھتے تھے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ بینظیر بھٹو کی جیپ پر جی ایم سید کے گاؤں سن کے قریب حملہ ہوا۔ پیشگی اطلاع کی وجہ سے بینظیر اس جیپ پر سوار نہیں تھیں۔ جی ایم سید نے بلا جھجھک اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ یہ حملہ ان کے مرید کھوسو قبیلے کے لوگوں کے مطابق کھوسو ڈاکوؤں نے ایک غیر سویلین خفیہ ایجنسی کے عملدار کی ہدایات پر کیا تھا۔
چانڈیوز کے لئے تب کہا جاتا کہ وہ یا بیلوں (جنگلات) میں یا پھر جیلوں میں رہتے ہیں۔
'سندھ کا رابن ہوڈ'
لیکن ایسے جبر اور فوجی آمریت کے دنوں میں جس ڈاکو نے رابن ہوڈ ٹائپ تصور دھار لیا وہ پرو چانڈیو تھا۔ یہ کہ پرو نہایت بہادر تو ہے لیکن کمزور اور عورتوں کا لحاظ رکھتا ہے۔ کئی غریبوں کی بیٹیوں کو جہیز دیا ہے۔ ڈاڈھوں کو لوٹ یا اغوا کر کے رقمیں غریبوں میں بانٹ دیتا ہے۔
پرو چانڈیو ایک ہاری یعنی کسان تھا جو پولیس کے ظلم سے ڈاکو بنا۔ سندھ کے دیہی علاقوں اور چھوٹے بڑے شہروں میں کئی سندھیوں کے پاس تصور ایک 'فوج مخالف' یا 'انٹی اسٹیبلشمنٹ' کا بنا۔ پرو جیل سے فرار ہوا اور جیکب آباد میں آٹھ پولیس والوں کو قتل کیا۔ پرو نے سندھ پولیس کے آئی جی بشیر صدیقی پر دادو کے پاس حملہ کیا۔
علی گوہر ڈیپرانی چانڈیو کی سرکردگی میں 1985 میں سکھر جیل پر حملہ کر کے اسے توڑ دیا گیا۔ سکھر جیل ٹوٹنے کی تحقیقاتی رپورٹ آج تک سامنے نہیں آ سکی۔ افواہیں تھیں کہ جیل ٹوٹنے کے پیچھے سندھ کے تب کے وزیر اعلیٰ غوث علی شاہ کا ہاتھ تھا۔ سکھر جیل ٹوٹنے کے بعد سندھ کا امن و امان مزید مخدوش ہو گیا۔ جس کا بہرحال لامحالہ فائدہ آمر جنرل ضیاالحق اور اس کی آمریت کو اور نقصان جمہوریت پسند سیاسی تحاریک کا ہوا۔
پرو چانڈیو کو میہڑ کے پاس شاہ پنجو ریلوے پھاٹک پر اس کے دوست لطیف چانڈیو نے دھوکے سے دعوت دی۔ کہتے ہیں کہ اس دعوت میں اسے زہر دیا گیا اور پرو کی لاش پولیس کے حوالے کر دی گئی اور پرو کو پولیس ڈی ایس پی عبدالرزاق سومرو کی سرکردگی میں 'پولیس مقابلے' میں اولیا شاہ، پنجو سلطان کی درگاہ کے قریب مارنے کا دعویٰ کیا۔ کہا گیا کہ پرو شاہ پنجو سلطان کی درگاہ پر حاضری کے لئے آیا تھا۔
سندھ کے کئی لوگوں نے پرو چانڈیو کی موت کو ایک 'ہیرو کی موت' کے طور پر لیا اور اس کی میت پر دو ہزار اجرکیں ڈالی گئی تھیں۔
پرو چانڈیو اور علی گوہر پر سندھی فلمیں بھی بنی تھیں۔ فلم پرو نے سنیماؤں پر زبردست رش لیا تھا۔
اے۔ کے بروہی
یہ بات انتہائی دلچسپ ہے کہ جس دن پرو چانڈیو ہلاک ہوا، اس دن ملک کا مشہور قانون دان اے۔ کے۔ بروہی بھی فوت ہوا۔ لیکن سندھیوں نے اس کی موت کا کوئی نوٹس نہیں لیا، سوائے اس کے خاندان اور قریبی عزیزوں اور احباب کے۔ وہ کراچی میں فوجی قبرستان میں دفن ہوا۔ وہ نہ فقط ملک میں 'نظریہ ضرورت' کا موجد بتایا جاتا ہے بلکہ کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کی ججمنٹ بھی ججوں نے نہیں اے۔ کے۔ بروہی نے لکھی تھی۔
پرو چانڈیو کے بعد کے دھاڑیل (ڈاکو)، 30 ستمبر کا قتل عام، چینیوں کا اغوا اور جام صادق علی
پرو چانڈیو کے بعد بھی چانڈیو قبیلے کے کئی ڈاکوؤں کی قطار ملتی ہے جن میں علی گوہر ڈیپرانی چانڈیو، دادن چانڈیو، حسن چانڈیو اور لائق چانڈیو جس نے 1991 میں دادو کے نزدیک چینی انجینیئر اغوا کیے تھے کے نام آتے ہیں۔ لیکن یہ اپنا تصور پرو جیسا قائم نہیں کر سکے۔ بلکہ در محمد عرف درو چانڈیو، دادن حسن اور لائق چانڈیو کا نام سندھی قوم پرست لیڈر ڈاکٹر قادر مگسی اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ 30 ستمبر 1988 کو حیدر آباد شہر میں قتل عام کے ملزمان میں بھی آتا ہے۔ 30 ستمبر کے تمام ملزمان کو بعد میں قادر مگسی سمیت سوائے آٹھ کے ہائی کورٹ نے بری کر دیا تھا۔
چینی انجینیئرز کی رہائی کے لئے جام صادق علی کو لائق چانڈیو کی سرکوبی میں اغواکاروں کے ٹولے سے باقاعدہ کیٹی جتوئی کے سرکٹ ہاؤس میں مذاکرات کرنے پڑے تھے۔ مذاکرات میں چانڈیو سردار احمد سلطان کی خدمات بھی حاصل کی گئی تھیں۔ سندھ حکومت نے چانڈیو سردار احمد کو کیٹی جتوئی پہنچنے کو ہیلی کاپٹر بھی مہیا کیا تھا۔ مذاکرات کو 'مانیٹر' کرنے دو خفیہ غیر سویلین ایجینسیوں کے عملدار بھی ریسٹ ہائوس پہنچے ہوئے تھے۔ جام صادق حکومت سے اغواکاروں نے جو مطالبات رکھے تھے ان میں بھاری تاوان کے علاوہ ان کے ایک منظور نظر نوجوان کو سندھ پولیس میں بطور اے ایس آئی کی تقرری اور قادر مگسی اور ساتھیوں کی جیل سے رہائی بھی شامل تھے۔ بعد میں جام صادق علی نے قادر مگسی کی پارٹی کے کچھ لیڈروں اور لائق چانڈیو کے رشتہ داروں سے مذاکرات کر کر لائق چانڈیو کو قادر مگسی اور ان کی پارٹی کے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ واپس لینے کو اس پر دباؤ ڈالنے کا کہا تھا۔ لائق چانڈیو نے یہ مطالبہ پھر واپس لے لیا تھا۔
چانڈیو قبیلے کے کچھ اور ڈاکوؤں نے بائیں بازو کے رہنما میر تھیبو اور جام ساقی کے بیٹے سجاد ظہیر سمیت ان کے ساتھیوں کو میہڑ کے قریب ایک شادی کی تقریب سے اغوا کر لیا تھا۔ لائق چانڈیو ان اغوا کاروں کے ساتھ مذاکرات کو ان کی جنگلات میں پناہ گاہوں پر بھی گیا تھا۔ لیکن اغوا کاروں نے سوائے سجاد ظہیر کے باقی تمام یرغمالیوں کو تاوان ادا کرنے پر رہا کیا تھا۔ میر تھیبو نے ڈاکوؤں کے نرغے میں اپنے 50 دنوں کے بارے میں مضامین کا ایک سلسلہ بھی لکھا تھا جو 1991 میں سندھی روزنامہ 'کاوش' میں قسط وار شائع ہوا تھا۔
سندھ کے ڈاکوؤں کی اس کڑی میں ایک خطرناک ڈاکو قادو سرگانی کے لئے کہا جاتا کہ کہ وہ فوج سے 'بھگوڑا' تھا۔
سندھ کے مائیکل جیکسن جلال چانڈیو کا اٹھ کر آنا
سندھ کے ایسے حالات میں چانڈیو قبیلے اور برادریوں کے بارے میں پیدا کیے گئے سٹیریو ٹائپ کے ٹوٹتے ہوئے جلال چانڈیو کی سندھ کے لوک اور جدید فنکار کے طور پر تشکیل ہوتی ہے۔ یکتارو اور چپڑی جیسا ساز جو کہ زیادہ تر سندھ کے صوفیا کے مزاروں، مئے خانوں، اور میلوں میں فقرا گایا بجایا کرتے تھے اور راگ و موسقیی میں جسے 'کھڑتال' کہتے ہیں کو جلال چانڈیو نے مشہور عالم کر دیا۔ ویسے تو کھڑتال کی پذیرائی ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں 'سندھ صدیوں سے' اور موہن جو داڑو پر 'موہن جو داڑو' سیمینار، پاکستان ٹیلی وژن کا نیا بوسٹر تھانو بولا خان کے نزدیک کھولے جانے، اور غیر ملکی دوروں پر فنکاروں کے طائفوں میں سندھی فنکاروں سمیت کھڑتال کے چپڑی اور یک تارے والے فنکاروں کی بھی پذیرائی ہو چکی تھی لیکن یہ جلال چانڈیو تھا جس نے 'کھڑتال' کو اتنا مقبول بنا دیا کہ سندھی قوم پرست نوجوانوں میں جیے سندھ سٹوڈنٹس فیڈریشن کے ایک گروپ کو کہا ہی 'کھڑتالی گروپ' جانے لگا۔
جلال چانڈیو نے سندھ میں اپنے رنگ ڈھنگ اور راگ رنگ کو گویا ثقافت اور رہن سہن کا سٹائل، رجحانات اور فیشن کے طور پر متعارف کروایا۔ لمبی قمیضیں، گھیردار شلواریں، سندھی ٹوپی اور کانوں اور کانوں کے نیچے تک لمبے بال، بڑی مونچھیں۔ سندھ کے بیلوں (جنگلات)، جیلوں، میلوں، ملاکھڑوں یہاں تک کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں تک میں 'جلال کٹ' فیشن اور سٹائل اپنائے گئے۔ آپ نے 1980 کی دہائی کی تصویروں میں اس لباس خراش میں آصف علی زرداری کو بھی دیکھا ہوگا۔ سندھ کے سماج پر گہری نظر رکھے والے دانشور استاد خالد چانڈیو کا کہنا ہے کہ جلال اپنے دور میں 'مردانہ سندھی حسن و شخصیت' کے تصور والے معیار پر پورا اترتا تھا۔
جلال چانڈیو کی سندھی موسیقی میں وہی یا اس سے بھی بہت سی باتوں میں زیادہ مقبولیت ہے جو ملک میں عطااللہ عیسیٰ خیلوی کی تھی یا ہے۔ میں اسے 1997 سے شاہ عبدالطیف کے سالانہ عرس پر محفل موسیقی میں گاتے ہوئے اور لوگوں میں اس کی مقبولیت کے حوالے سے ' سندھ کا مائیکل جیکسن' کہتا رہا ہوں۔ اگرچہ موسیقی کے سنجیدہ یا عام لیکن اکثر پڑھے لکھے یا 'بائو ٹائپ' سندھی لوگ اپنے دور کے اس مقبول ترین لوک فنکار جلال چانڈیو اور اس کے فن کو موسیقی نہیں سمجھتے لیکن جلال چانڈیو نے کھڑتال کی لوک اور صوفی موسیقی کو جدید دنیا میں مقبولیت کے آسمان پر پہنچا کر گویا عوامی موسیقی میں ایک اپنا 'مکتب فکر' پیدا کر دیا۔ جالال چانڈیو کے بعد جگر جلال، چھوٹا جلال، اس کے دنوں میں چاکر چانڈیو اور چھوٹا چاکر چانڈیو پیدا ہوئے۔
جیسے حمید آخوند نے شاہ عبداللطیف کے عرس کے موقع پر جلال چانڈیو کو شاہ لطیف ایوارڈ دیے جانے کے وقت سٹیج سے کچھ اس طرح کہا تھا: "جلال سے پہلے لوگ بسوں میں ٹرکوں ٹریکٹروں، گاڑیوں، ہوٹلوں چاہے گھروں پر مہدی حسن، نور جہاں، لتا منگیشکر سنا کرتے تھے، اب وہاں پر جلال بجنے لگا"۔ جلال چانڈیو چور چاہے سپاہیوں، قیدیوں جیلوں، جیلروں، شادیوں، یہاں تک کہ جھگڑوں کے دوران ( جلال چانڈیو کی کیسٹیں بجانے پر کبھی اور کہیں کہیں) جیلوں، تھانوں، سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور ہاسٹلوں، شاہراہوں پر چلتی بسوں اور ٹرکوں کے ڈرائیوران چاہے مسافروں، گھروں اور اوطاقوں میں ایک سا مقبول ہوا۔ بڑی بات یہ کہ وہ سندھ کی بہر اڑی (دیہات) چاہے چھوٹے شہروں میں مردوں اور عورتوں میں یکساں مقبول تھا:
اڄوڪي رات رھي پئه ته منھنجي دل ٿي چوي
صبحاڻي ڪير جيئ مري
سنگمرر جو بدن سنھڙي ڳچي ھٿڙا نرم
تُون سدا ماڻين جواني او منھنجا سھڻا صنم
تنھنجی معصوم جواني جو خدا ڪري
(آج کی رات رہ جا کہ میرا دل کہہ رہا
کل کا کیا پتہ کہ کون جیے کون مرے
سنگ مرمر کا بدن، پتلی گردن ہاتھ نرم
تو سدا مانڑے جوانی او میرے سوہنے صنم
تیری معصوم جوانی کی خدا خیر کرے)
یا اپنے گائے ہوئے سرائیکی کلام میں وہ کہتا ہے:
اکھ چھمب دے وچ نین لڑا کے سارا دل کر چا گیا
دیداں والیاں مار دونالیاں پھاڑ جگر پھتکا گیا
اس کی شخصیت کا خاکہ یوں سمجھ لیں کہ سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کے گیٹ اپ میں عنایت حسین بھٹی یا سائیں ظہور کی آوازوں کے بیچ کوئی آواز تھی۔
آگرچہ وہ کسی سکول نہیں گیا لیکن وہ کہتا تھا کہ اسے سات ہزار دوہیڑے اور سات سو کلام زبانی یاد تھے۔ وہ شاعری یا کلام وہ گاتا تھا جو چرواہے سے لے کر طالب علم تک اور ملازم پیشہ و زمیندار یا چائے خانوں پر بیٹھے احوال کاٹنے والے لوگوں یا کھیتوں میں کام کرنے اور گھروں میں محدود عورتوں کو بھی سمجھ میں آ جاتا تھا۔ وہ شادیوں کی محفلوں میں سب سے زیادہ مدعو کیے جانے والا فنکار تھا۔ سب سے زیادہ کمانے والا لیکن کبھی اپنے منہ سے نہیں کہا کہ اتنے پیسے یا کتنے پیسے لے گا۔ استاد خالد کہتے ہیں "کیونکہ اسے معلوم ہوتا تھا کہ اسے بہت سی ویل پڑ جانی ہے"
جلال چانڈیو نے سندھ میں کیسٹ کلچر والی موسیقی کو ایک صنعت میں بدل دیا۔ لیکن جلال نے اتنا کچھ بھی نہیں کمایا جتنا سندھ میں کیسٹ کمپنیوں اور محمد قاسم ماکا کی ڈبل اے کمپنی نے کمایا۔
اس عظیم عوامی فنکار جلال چانڈیو نے یک تارے، چپڑی سے سندھیوں کے سروں پر جادو کی طرح چڑھ کر گایا اور ان کے دلوں کو گرمایا اور کہیں کہیں تو ڈھولکی اور باجے کے بغیر بھی شاندار کام چلا لیتا تھا۔
جلال چانڈیو نے تین شادیاں کی تھیں۔ ان کی موت گردوں کی بیماری سے ہوئی۔ لیکن اس کو قریب سے جاننے والے جانتے ہیں کہ ان کی بیماری کی وجہ حکیموں کے پاس سے نام نہاد 'قوت باہ کے کشتے' لے کر کھانا تھی۔