نئی حلقہ بندیاں؛ جیکب آباد، کشمور اور شکار پور کے ووٹرز تذبذب کا شکار

نئی حلقہ بندیوں میں تینوں اضلاع میں صوبائی اسمبلی کی مجموعی نشستیں تو برقرار رکھی گئی ہیں، لیکن الیکشن کمیشن نے اس بار آبادی کا تناسب حقیقت پسندانہ بنانے کے لیے جیکب آباد، کشمور اور شکار پور تینوں اضلاع کو ساتھ جوڑ کر یہاں قومی اسمبلی کے چار حلقے بنا دیے ہیں۔

07:42 PM, 27 Dec, 2023

حضور بخش منگی

نئی حلقہ بندیوں نے دریا کے مغرب میں واقع صوبہ سندھ کے تین شمالی اضلاع جیکب آباد، کشمور اور شکارپور میں سیاسی طوفان برپا کر دیا ہے۔ ضلع کشمور میں جہاں پیپلز پارٹی کے مخالفین خوش نظر آ رہے ہیں، وہیں نئی حلقہ بندیوں نے ضلع شکارپور میں پی پی رہنماؤں کو ایک دوسرے کے مدمقابل لا کھڑا کیا ہے جس سے حلقے کے لاکھوں ووٹرز بھی تذبذب کے شکار ہیں۔

2018 کے انتخابات سے قبل ضلع جیکب آباد کی آبادی لگ بھگ 10 لاکھ، ضلع کشمور کی 11 لاکھ اور ضلع شکار پور کی آبادی تقریباً ساڑھے 12 لاکھ تھی۔ شکار پور کی 2 نشستوں سمیت تینوں اضلاع کو قومی اسمبلی کی 4 اور صوبائی اسمبلی کی 9 نشستیں دی گئی تھیں۔

2023 کی حالیہ مردم شماری کے مطابق ضلع جیکب آباد کی آبادی 11 لاکھ 74 ہزار 97، ضلع کشمور کی آبادی 12 لاکھ 33 ہزار 957 اور ضلع شکار پور کی آبادی 13 لاکھ 86 ہزار 303 قرار پائی ہے۔

حلقہ این اے 191 جیکب آباد ٹو کشمور میں ووٹرز کی تعداد 9 لاکھ 94 ہزار 642 جبکہ این اے 192 کشمور ٹو شکارپور میں ووٹرز کی تعداد 9 لاکھ 17 ہزار 453 ہے۔

نئی حلقہ بندیوں میں تینوں اضلاع میں صوبائی اسمبلی کی مجموعی نشستیں تو برقرار رکھی گئی ہیں، لیکن الیکشن کمیشن نے اس بار آبادی کا تناسب حقیقت پسندانہ بنانے کے لیے جیکب آباد، کشمور اور شکار پور تینوں اضلاع کو ساتھ جوڑ کر یہاں قومی اسمبلی کے چار حلقے بنا دیے ہیں۔

ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر ستار سردار نے بتایا کہ حلقہ بندیوں کو آبادی کے تناسب کے لحاظ سے ترتیب دیا جاتا ہے۔ 2017 کی پاپولیشن کے مطابق پہلے کی حلقہ بندیاں بنی ہوئی تھیں۔ حالیہ ڈیجیٹل مردم شماری سے پاپولیشن میں اضافے پر حلقوں میں تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔ ضلع کشمور میں پہلی آبادی کے مطابق این اے کا ایک حلقہ تھا۔ اس مرتبہ کی مردم شماری کے مطابق آبادی میں اضافے پر عوام کو قومی اسمبلی کی دو نشستیں ملی ہیں۔ اس سے ووٹرز کو پولنگ سٹیشنز قریب سے قریب ملے گا۔ دوسرا عوام کے مسائل بھی کم ہو سکتے ہیں۔ پہلے ایک ہی امیدوار این اے کا ہوا کرتا تھا۔ اب ایک حلقے کو دو حلقوں میں تقسیم کر کے لوگوں کو اپنے علاقے کی ترقی اور مسائل کو حل کرنے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔

حلقہ بندیاں کس قانون کے تحت کی جاتی ہیں؟

معروف قانون دان ایڈووکیٹ محسن پٹھان جنرل سیکرٹری ڈسٹرکٹ بار کندھ کوٹ نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کو اختیار ہے کہ وہ ری پریزنٹیو پیپل ایکٹ 1976 اور الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 57 کے مطابق آبادی کے اضافے پر حلقہ بندیوں کو مرتب کرتا ہے۔ اسی طرح پورے ملک میں حلقہ بندیاں کی جاتی ہیں، جس کا اختیار چیف الیکشن کمیشن کو ہوتا ہے۔

حلقہ بندیوں کی نئی تجاویز کے مطابق این اے 190 صرف ضلع جیکب آباد کے علاقوں پر مشتمل ہو گا جس سے کچھ علاقے نکال کر این اے191 میں شامل کر دیے گئے ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں سے عام لوگوں کو مزید پریشانی بھی ہو سکتی ہے۔ کچھ پولنگ سٹیشنز دور ہو سکتے ہیں اور ووٹرز جب کندھ کوٹ سے جیکب آباد اور جیکب آباد سے کندھ کوٹ ادھر سے ادھر جائیں گے تو انہیں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے، البتہ انتخابی امیدواران کے لیے قومی اسمبلی کی ایک نشست میں اضافہ ہونے سے فائدہ حاصل ہوا ہے۔

الیکشن کمشنر کے مؤقف کے مطابق ووٹرز کو آسانی پیدا ہو گی مگر لوگوں نے کہا کہ دونوں حلقوں میں تبدیلی سے عوام کو دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔

سینیئر صحافی غلام یاسین لاشاری نے کہا کہ این اے 191 کے عوام کو سب سے اہم پریشانی ووٹ ڈھونڈنے کی ہو گی۔ جب حق رائے دہی کے لیے ضلع کشمور کا ایک آدمی جیکب آباد کے نمائندے کو ووٹ تو کرے گا مگر اسے پہچان نہیں پائے گا کیونکہ ماضی میں ایسا ہی کچھ ہوا تھا کہ این اے 197 میں پی پی امیدوار سردار احسان الرحمان مزاری کو تنگوانی کے عوام نے گاڑی کا راستہ روک لیا تھا۔ لوگ اسے پہچان ہی نہیں پا رہے تھے۔ دوسرا یہ کہ ضلع کشمور کے حلقے کو مکمل طور پر ختم کر کے عوام کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔

حلقہ این اے 191 جیکب آباد کم کشمور ہے۔ اس میں جیکب آباد کے تعلقہ ٹھل کے علاقے مصری پور، مراد پور، ٹھل بھرانو ضلع کشمورسے تعلقہ کشمور کے دو علاقے گلبلو اور بھنر کے علاوہ سارا تعلقہ کشمور اور تعلقہ کندھ کوٹ سوائےغوث پور ٹاؤن اور غوث پور تپہ شامل کیا گیا ہے۔

سماجی رہنما عباس باجکانی کا کہنا ہے کہ میں این اے 191 کے حلقے کا رہائشی ہوں، مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ آخر کس بنیاد پر اس طرح کے حلقے توڑ مروڑ کر بنائے گئے ہیں، جس سے فائدہ صرف پیپلز پارٹی کے انتخابی امیدواروں کو ہی ہو رہا ہے، جبکہ عوام کا اس میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کے متوقع امیدوار شبیر علی خان بجارانی نے این اے 191 اور این اے 192 کے حلقوں کو اپنی پسند کے مطابق ترتیب دیا ہے۔ میرے خیال میں چیف الیکشن کمیشن نے ضلع کشمور کی حیثیت کو ختم کر کے انتخابی امیدواران کو راضی کیا ہے۔

این اے 192 کشمور کم شکارپور میں ضلع کشمور کی تحصیل تنگوانی سے تنگوانی ٹاؤن، دنیا پور، کرم پور ٹاؤن جبکہ کندھ کوٹ تعلقہ سے غوث پور ٹاؤن اور شکارپور میں سے خانپور، سلطان کوٹ، لالیوں، رستم ٹاؤن اور لکھی غلام شاہ کو شامل کیا گیا ہے۔

این اے 193 شکار پور ضلع کے تمام علاقوں (ماسوائے خانپور، سلطان کوٹ، لالیوں، رستم ٹاؤن اور لکھی غلام شاہ) پر مشتمل ہو گا۔ ضلع شکارپور کے آدھے عوام ووٹ ڈالنے سے محروم رہیں گے کیونکہ تصیل خانپور غلام شاہ سمیت دیگر علاقوں کے لوگ حلقہ نمبر 192 میں شامل کیے گئے ہیں۔

ضلع کشمور کے حصے بخرے ہونے سے کشمور، شکار پور اور جیکب آباد کی سیاست میں بھونچال آ گیا ہے۔ یعنی 12 لاکھ 33 ہزار 957 آبادی پر مشتمل ضلع کشمور کو دو قومی حلقوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے مگر اس کا اپنا الگ قومی حلقہ ایک بھی نہیں رہا۔ ضلع کشمور، جیکب آباد اور شکارپور کے حلقوں کو جوڑ کر حلقے بنانے سے کشمور کے عوام میں مایوسی دیکھنے کو مل رہی ہے اور ووٹرز کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

راجا گوپی چند نے بتایا کہ ہماری میگھواڑ برادری کے کافی تعداد میں ووٹ ہیں، پی ایس 5 کے لیے پی پی امیدوار میر عابد خان سندرانی کو ووٹ دیتے ہیں، جبکہ ماضی میں این اے 197 پر پی پی امیدوار سردار احسان الرحمان مزاری کو ووٹ دیا تھا، مگر افسوس کی بات ہے کہ مزاری صاحب نے کبھی ووٹرز کے مسائل کو حل کرنے کے لیے چہرا تک نہیں دکھایا۔ اب تو ضلع کشمور کو تقسیم کر کے دو نشستوں کے اضافے پر یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ دونوں این اے کے امیدوار در در ووٹرز کے پاس ضرور جائیں گے۔اس سےووٹرز کی عزت میں اضافہ بھی ہو گا اور انتخابی امیدوار ووٹرز کے مسائل بھی حل کریں گے۔

نئی حلقہ بندیوں سے پیدا ہونے والی صورت حال میں ضلع شکارپور میں پی پی مخالف سابق ایم پی ایز عابد حسین جتوئی اور آغا تیمور خان مطمئن اور متحد بھی ہیں، لیکن پی پی رہنما اختلافات کا شکار نظر آ رہے ہیں۔

سابق ایم این اے غوث بخش خان مہر، سابق صوبائی وزیر امتیاز احمد شیخ، سابق سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج خان درانی، سابق ایم پی اے میر بابل خان بھیو نے ذاتی اثر و رسوخ کی بنیاد پر اپنے حمایت یافتہ علاقوں کو اپنے حلقوں میں شامل کرانے کے لیے الیکشن کمیشن میں الگ الگ اعتراضات بھی جمع کرائے مگر ان کے اعتراضات خارج کر دیے گئے اور حلقے تبدیل نہیں ہو سکے۔

ضلع کشمور میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ہمیشہ کامیاب ہونے والے امیدوار میر شبیر علی خان بجارانی کے ایک بڑے ووٹ بینک کو ضلع شکارپور کے حلقے میں شامل کیا گیا ہے۔ وہ اس بار قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں، ان کے والد میر ہزار خان مرحوم یہاں سے ایم این اے رہ چکے ہیں۔

سابق صوبائی وزیر میر شبیر علی خان بجارانی کہتے ہیں حلقہ بندیاں بہترین انداز سے بنائی گئی ہیں، جو ہمارے ضلع کے عوام کے لیے موثر ثابت ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ حلقہ بندیوں کے اعتراضات اس لیے جمع کرائے ہیں تاکہ کچھ یوسیز اس میں شامل ہو سکیں، چونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تینوں اضلاع کو ملانے کے بعد تاریخ میں پہلی بار بہترین طرز عمل سے حلقے بنائے ہیں، جن سے میں مطمئن ہوں اور میں خود این اے 191 کی نشست سے الیکشن میں حصہ لوں گا۔

تنگوانی تعلقہ اورغوث پور ٹاؤن میں آباد بجارانی، سندرانی، ڈہانی، تیغانی، باجکانی، شیرانی، بھلکانی، ملک، گولا، کھوسہ اور دیگر برادریاں زیادہ تر میر شبیر علی خان بجارانی کی حامی ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں کا فائدہ میر شبیر علی خان بجارانی کو ہوگا تاہم مقابلہ جے یو آئی امیدوار ڈاکٹر ابراہیم جتوئی سے متوقع ہے۔

سابق ایم این اے سردار احسان الرحمان مزاری کہتے ہیں میرے ماموں سردار سلیم جان مزاری جو حکم کریں گے، اس پر عمل کروں گا۔ پارٹی کے حکم پر میں نے کاغذات این اے 191 پر جمع کروا دیے ہیں جس کا جے یو آئی امیدوار شاہ زین خان بجارانی سے مقابلا متوقع ہے۔ تاہم حالیہ الیکشن سیاسی وڈیروں کے لیے بڑا امتحان ہو گا۔

دوسری جانب شکارپور اور کشمور سے پیپلز پارٹی کے متعلقہ امیدوار حلقہ بندیوں کے حوالے سے جمع اعتراضات خارج ہونے پر مایوسی کا شکار نظر آ رہے ہیں۔

سابق ایم این اے ڈاکٹر محمد ابراہیم جتوئی جے یو آئی کے ٹکٹ پر این اے 192 سے پی پی امیدوار شبیر علی خان سے مقابلہ کریں گے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ کشمور ٹو شکارپور کے این اے 192 سے ہمایوں اور جاگن کو این اے 193 میں شامل کیا جائے کیونکہ این اے 193 ضلع شکارپور کی نشست سے ہے، جبکہ اسی ضلع کے مذکورہ علاقے این اے 192 میں شامل کر کے عوام سے زیادتی کی گئی ہے۔

دوسری جانب سابق ایم پی اے بابل خان بھیو نے کشمور ضلع کے حصے خانپور کے تپہ جو لکی تعلقہ پر مشتمل این اے 192 بنانے کی تجویز دی تھی. انہوں نے کہا کہ جاگن شہر شکارپور اور گڑھی یاسین تعلقہ اور خانپور کے بقیہ حصوں کو ملا کر این اے 193 میں شامل کرنے کی درخواست بھی دی تھی۔ اس درخواست کی وجہ یہ ہے کہ میرے ووٹرز کو اپنے ہی حلقے سے نکال کر من پسند حلقوں کو ترتیب دیا گیا ہے۔

ضلع شکارپور کے صوبائی حلقوں پر فراز امتیاز شیخ نے اعتراضات جمع کرائے تھے۔ ان کے مطابق پی ایس 9، پی ایس7 اور پی ایس 8 کو حتمی قرار دیا جائے۔ فراز امتیاز شیخ کے مطابق حلقوں کی تبدیلی سے انتخابات میں ووٹرز کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

قومی عوامی تحریک پارٹی کے رہنما ایڈووکیٹ عبدالغنی بجارانی کا کہنا ہے کہ حلقوں میں تبدیلی سے تینوں اضلاع کے لوگوں کو مشکلات کا سامنا رہے گا۔ چیف الیکشن کمیشن نے امیدواران کے اعتراضات کو خارج کر کے حلقوں کو تبدیل کیا مگر بات یہ ہے کہ عام آدمی اپنے حلقے سے متعلق اسلام آباد کے چکر تو نہیں کاٹ سکتا۔ اسی لیے عام آدمی ووٹر کی حیثیت سے مسائل سے دوچار ہو گا۔

عام انتخابات سے قبل حلقوں کی تبدیلی سے عوام میں مایوسی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ امیدواران، سیاسی و سماجی رہنماؤں نے حلقوں کی تبدیلی پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ کندھ کوٹ کو جیکب آباد اور کشمور کو شکارپور کے علاقوں کے حلقوں کو ملا کر انتشار کا المیہ دے رہے ہیں۔

مزیدخبریں