کس کس کو گرفتار کریں گے؟

کس کس کو گرفتار کریں گے؟
تحریر: (بیرسٹر اویس بابر) اگر بات صرف کسی ایک آدمی کو ہٹانے کی ہو تو اتنی مشکلات پیش نہیں آتیں۔ جیسا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو ہٹانا قدرِ آسان تھا اور بغیر کسی مزاحمت کے ان کو ہٹا بھی دیا گیا۔ جیسا کہ چُن چُن کے بہادر پولیس افسروں کو شہید کر دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ عموماً اچھے افسر کو اپنی کرسی سے دوسرے سٹیشن منتقل کر دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس افسر کے خلاف شکایات تھیں لیکن جب اس ایک شخص کو وقت مل جائے اور لوگ اس کے ساتھ شامل ہو جائیں، اس کے ساتھ کام کرنے لگیں تو وہ ایک شخص ایک نہیں رہتا بلکہ کئی ہو جاتے ہیں۔ یہ سب اس سے قطع نظر کے وہ شخص اچھا ہے یا برا۔ آپ کو تاریخ میں دونوں کی بھرپور مثالیں ملیں گی۔

یہی وجہ ہے کہ ریاستی سطح پر نواز شریف کو ہٹانے میں کوئی خاص رکاوٹ نہیں ہے پھر بھی ان کو ختم کرنا ایک پیچیدہ معاملہ بن گیا ہے۔ نواز شریف اب ایک شخص کا نام نہیں بلکہ ایک سوچ کا نام ہے۔ وہ سوچ اچھی ہے یا بری اس کا فیصلہ آپ خود کیجیئے، میرا مقصد صرف ان اسباب پہ روشنی ڈالنا ہے جن کی وجہ سے اب نواز شریف اور آصف علی زرداری کو ختم کرنا اتنا آسان نہیں کہ جتنا سمجھا جا رہا ہے۔

جیسا کہ اسامہ بن لادن کو ختم کر کے دہشت گردی ختم نہیں کی جا سکی، جیسا کہ کئی دہشت گردوں کو مختلف آپریشنز  میں ختم  کر کے دہشت گردی ختم نہیں کی جا سکی، اسی طرح اب نواز شریف اور زرداری کو ختم کر کے بھی انہیں اتنی آسانی سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ کروڑوں نہ سہی لیکن لاکھوں لوگوں کی زندگیاں ان سے وابستہ ہیں۔ لاکھوں لوگوں نے اپنی زندگیاں ان کے ساتھ گزاری ہیں۔ ان میں ان کے گھر کے نوکر، وہ تمام سیاستدان جو برسوں سے ان کی جماعتوں سے منسلک ہیں،  ان کے رشتہ دار،  رشتہ داروں کے رشتہ دار سب شامل ہیں۔ اوپر سے عوام کا ایک وسیع حصہ جو اب سے ایک سال پہلے تک ان سے سخت نالاں تھا، ان میں بھی موجودہ حکومت کی نا اہلی کے مرہونِ منت اب سابقہ سیاسی جماعتوں کے لیے نرم گوشہ پیدا ہو گیا ہے۔

آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ دہشت گرد تنظیم کا سیاسی جماعت کے ساتھ کیا موازنہ بنتا ہے۔ جماعت کوئی بھی ہو، سیاسی، غیر سیاسی یا دہشت گرد لیکن وہ مظہر ایک ہی ہے جو ان کو ایک شخص سے کئی اشخاص میں بدل دیتا ہے۔  

کئی پاکستانیوں کی طرح میں بھی موروثی سیاست کے حق میں نہیں ہوں مگر کسی بھی چیز کے صرف خلاف ہونا کافی نہیں ہوتا بلکہ گہرائی میں جا کے سمجھنا بھی چاہیے کہ کوئی بھی چیز کیوں ہے۔ تب ہی کسی عمل کو اختتام پذیر کیا جا سکتا ہے۔

تو سوال یہ ہے کہ آخر پاکستان میں موروثی سیاست کیوں اتنی مضبوط ہے؟ کیا ہم موروثی سیاست کے محض خلاف ہو کر اس کو ختم کر سکتے ہیں؟ اور ایسا کیوں ہے کہ اسے اتنی آسانی سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔

جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ ہو گا کہ آج بھی اس کی تخلیق کردہ جماعت زندہ ہو گی۔ اس وقت وہ محض ایک شخص تھا لیکن آج بھٹو ایک سوچ کا نام ہے۔ پھر سے واضح کرتا چلوں کہ یہ سوچ اچھی ہے یا بری یہ آپ خود طے کریں،  میرا محور تحقیق ہے۔ آج جو لوگ موروثی سیاست کو ختم کرنے کی کاوشوں میں لگے ہیں ان کی بنیاد رکھنے والے بھی یہی ہیں۔ اگر بھٹو کو پھانسی نہ دی جاتی تو بے نظیربھٹو بی بی نہ بنتیں، شاید ان کا رجحان سیاست کی طرف آتا ہی نہ، یا آتا بھی تو اس میں وہ شدت نہ ہوتی اور وہ اتنی کامیاب نہ ہوتیں۔ باپ کو پھانسی پہ چڑھتے دیکھنے نے ان کو موروثی سیاست دان بنا دیا۔ اور پھر ان کو وزیراعظم بھی بنایا گیا یا بننے دیا گیا، جس سے جڑیں مزید مضبوط ہو گئیں۔

شاید مریم نواز بھی اتنی اچانک سے لیڈر بن کے نہ ابھری ہوتیں، اگر نواز شریف کو اتنی تذلیل کے ساتھ نہ ہٹایا جاتا، ماں کو بسترمرگ پہ نہ دیکھا ہوتا وہ بھی کینسر کی بیماری میں۔ باپ کو جیل جاتے ہوئے دیکھنے نے مریم نواز کو بھی موروثی سیاست دان بنا دیا۔ اب اس میں ان سب لوگوں کو بھی شمار کریں جو ان سے منسلک ہیں، ان کو بھی ایک نیا عزم مل جاتا ہے۔

دباؤ ہمیشہ مزاحمت کو جنم دیتا ہے، چاہے وہ دباؤ کتنا ہی جائز کیوں نہ ہو۔ آج سے چند سال پہلے تک ہم بلاول بھٹو پہ ہنستے تھے لیکن اب پہلے کے مقابلے میں ان میں پختگی آئی ہے، مگر کیوں، کیسے؟ اس دباؤ کی وجہ سے جو ان پہ اور ان کی پارٹی پہ ہے۔

بلور خاندان جن کا شروع سے اے این پی کی جماعت سے تعلق رہا ہے، اس خاندان کے کئی سیاستدان دہشت گردی کی نذر ہوئے۔ جن میں بشیر بلور اور ان کے صاحبزادے بیرسٹر ہارون بلور نمایاں ہیں۔ بیرسٹر ہارون بلور کا 2018 کے الیکشن کی کمپین کے دوران دہشت گردی کے واقعے میں ہلاک ہونا بلور خاندان کے لئے بہت بڑا صدمہ تھا۔ بشیر بلور کی بھی کچھ سال پہلے اسی طرز کی ہلاکت کی وجہ سے بھی وہ اب بلکل ٹوٹ چکے تھے۔ ہارون بلور کا سب سے چھوٹا بیٹا کم عمری کے باعث  الیکشن نہیں لڑ سکتا تھا تاہم ان کی اہلیہ ان کی سیٹ سے کھڑی ہوئیں اور بھاری ووٹوں سے الیکشن جیتا۔ آپ خود سوچیے، موروثی سیاست کیوں کر نہ ہو۔ کیا گزری ہو گی اس عورت پر جو ابھی جوان ہے، حسین ہے، پڑھی لکھی ہے، اس وقت اس کے الیکشن پہ کھڑا ہونے نے اس پورے خاندان کو ایک نئی زندگی دی ہو گی۔

آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جہاں جہاں آپ کو موروثی سیاست نظر آئے گی وہاں اس کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہو گا۔

کس کس کو گرفتار کریں گے؟ ان کے نوکر، ورکر، صوبائی اور مرکزی رہنما، کس کس کو؟ ان سب کے جو رشتہ دار ہیں جن سب کی زندگیاں ڈگمگا جائیں گی ان کے جیل جانے سے ، ان کے ساتھ کیا کریں گے؟  ان کو بھی گرفتار کریں گے؟ ان کو ختم کرنے کے چکر میں پورا عدل و انصاف کا نظام خطرے میں پڑتا جا رہا ہے۔

بطور ایک ادنیٰ سا قانون دان مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ آخر سیاسی کیسز میں ہر کیس میں 90 دن کا ریمانڈ کیوں دیا جا رہا ہے۔  بے شک قانون میں 90 دن تک ریمانڈ دیا جا سکتا ہے۔ لیکن عموماً سخت سے سخت جرائم کے الزام میں بھی ایک مہینے سے زیادہ ریمانڈ نہیں دیا جاتا۔ ریمانڈ دیا اس لیے جاتا ہے کہ پولیس یا استغاثہ کیس کے مکمل حقائق اکٹھے کر سکے، تفتیش کی جا سکے اور جب تک اس کو ضرورت ہو اس کو جج ریمانڈ دے۔ لیکن محض ملزم کو تکلیف دینے کی غرض سے ریمانڈ مانگنا کہ جب اس کی تفتیش میں مزید ضرورت نہ ہو، یہ نا صرف غیر قانونی ہے بلکہ غیر اخلاقی بھی۔ یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ یہ سپریم کورٹ کی ہدایات ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں میں ضرورت یعنی required  کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ کہ آیا استغاثہ کو ملزم کی ضرورت ہے تفتیش کے لیے یا نہیں، اور کرپشن کے کیس میں تو ویسے بھی ملزم پولیس کی کوئی مدد نہیں کر سکتا کیونکہ نیب کے الزامات کی داستان ایک نامکمل کہانی ہوتی ہے جس کا کوئی اختتام نہیں ہوتا۔

موروثی سیاست اور دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے ان کے ابھار کی وجوہات کی تحقیق بہت ضروری ہے، تب ہی کوئی کارآمد حکمت عملی بن سکتی ہے۔

ملٹری کورٹ سے کبھی دہشت گردی ختم نہ ہو گی۔ اس سوچ کو ختم کرنا ہو گا جو ایک شخص کو دہشت گرد بناتی ہے تا کہ آنے والی نسلوں کو وہ ماحول ہی نہ ملے جس میں دہشتگردی پنپتی ہے، اس خلا کو پر کرنا ہو گا۔

اسی طرح موروثی سیاست بھی خودبخود ختم ہو جائے گی اگر آپ ان کو اپنی قدرتی موت مرنے دیں۔ آپ کا ہر قدم ان کی سیاسی زندگی میں اضافہ کر رہا ہے، آپ سے مراد وہ ہیں۔ نہ سیاست دان پیدا کریں اور نہ ان کو ختم کریں۔ ان کو خود بخود پیدا ہونے دیں۔ ذوالفقار علی بھٹو،  نواز شریف،  بے نظیر بھٹو،  اور وزیراعظم پاکستان عمران خان، ان میں سے کون ایسا ہے جو اپنے بل بوتے پہ لیڈر بنا، ان سب کو لیڈر بنایا گیا، اور جب آدمی لیڈر بنتا ہے تو اس کے پیروکار بھی بنتے ہیں۔ لیڈر بنانا بھی عجیب خطرہ ہے،  بنانا تو آسان ہے اس کو ختم کرنا اتنا ہی مشکل۔ اسی لیے جب بھی لیڈر لائیں کرایہ پہ لائیں جیسا کہ عبدالحفیظ شیخ،  شوکت عزیز، رضا باقر وغیرہ وغیرہ۔ ایسے لیڈروں کو جب چاہے لگایا بھی جا سکتا ہے اور اسی طرح ہٹایا بھی آسانی سے جا سکتا ہے۔

لیفٹینٹ جنرل( ریٹائرڈ)  امجد شعیب نے کچھ عرصہ پہلے ایک ٹی وی شو میں جس میں نسیم زہرہ بھی موجود تھیں۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو کا حوالہ دیتے ہوئے انتہائی تضحیک آمیز لہجے میں کہا کہ کیا اب ہمارے لیے یہی کچرا رہ گیا ہے؟ انہوں نے مزید کہا، "معاف کیجیئے گا میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ مریم کے ہاں اب ایک جنید بھی پیدا ہو چکا ہے"۔

امجد شعیب صاحب نے یہ بات کر کے بالواسطہ یہ تو تسلیم کر لیا کہ ایک مہم جاری ضرور ہے ان خاندانوں کو ختم کرنے کی لیکن اب یہ محض دو خاندانوں کی بات نہیں رہی۔ کس کس کو گرفتار کریں گے؟

ازراہ تفنن