باقی پاکستانیوں سے ہٹ کر بلوچ اور ہم یعنی وہ پشتون جو اپنی تاریخ کے بارے میں کچھ نہ کچھ جانتے ہیں 28 مئی کو ایک اور حوالے سے یاد کرتے ہیں۔ بلوچوں کی تو وہی پرانی فریاد ہے کہ آپ کو ایٹمی دھماکے کے تجربے کیلئے تو بلوچستان کا علاقہ چاغی معلوم ہوتا ہے لیکن پھر اس تجربے کے بعد اس کے اثرات کا ازالہ کرنے اور بلوچوں کے دوسرے مسائل کیلئے چاغی نہ یاد ہوتا ہے اور نہ معلوم۔ بلوچوں کی فریاد بجا ہے کیونکہ تیل، گیس، معدنیات، بین الاقوامی سرحد اور سمندر کے مالک ہونے کے باوجود بلوچ، سرکار کی خیرات کے منتظر ہوتے ہیں۔ پورے پاکستان میں ان کا معیار زندگی سب سے بدتر ہے۔
دوسری طرف ہم پشتون 28 مئی کو یوم تکبیر کے بجائے ٹکر کے سانحے کے طور پر یاد کرتے ہیں اور جشن کے بجائے سوگ مناتے ہیں، جس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ مئی 1930 کو موجودہ خیبر پختونخوا اور اُس وقت کے صوبہ سرحد میں خدائی خدمتگار تحریک پورے عروج پر تھی۔ خان عبدالغفار خان جو باچا خان بابا کے نام سے مشہور تھے، خدائی خدمتگار تحریک کے بانی اور سرخیل تھے۔ باچا خان بابا خدائی خدمتگار تحریک اور انڈین نیشنل کانگریس کے پلیٹ فارم سے انگریز سامراج کے خلاف عدم تشدد کے فلسفے کے بنیاد پر سیاسی اور پشتونوں کی سیاسی شعور اور تعلیم و ترقی کیلئے جدوجہد کر رہے تھے۔ باچا خان بابا نے اس دوران انگریزوں پر دباؤ ڈالنے کے لئے خدائی خدمتگاروں کو گرفتاریاں دینے کا حکم دیا تھا۔
26 مئی 1930 کو ٹکر گاؤں کے چند سرکردہ خدائی خدمت گاروں کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوئے، جو ضلع مردان کا ایک تاریخی گاؤں ہے اور اس وقت خدائی خدمتگار تحریک کا علاقائی مرکز تھا۔ اس سلسلے میں ٹکر گاؤں کے جِند خدائی خدمتگاروں نے گرفتاریاں دینی تھی، اُن میں ملک معصم خان، ملک خان بادشاہ، سالار شمروز خان، پیر شہزادہ اور ملک عبدالحمید وغیرہ شامل تھے۔ پولیس جب ان لوگوں کو گرفتار کر کے مردان شہر لے جانے لگی تو ان کے ساتھ گاؤں کے لوگ بھی ایک جلوس کے شکل میں روانہ ہوئے۔ چند میل گوجر گڑھی کے مقام پر جلوس کے ساتھ ٹکر گاؤں کی خواتین کے علاوہ مقامی خواتین بھی شامل ہوگئیں، لیکن وہاں پر پولیس نے راستہ بند کر رکھا تھا۔ پولیس نے جلوس کو مطلوبہ افراد حوالے کر کے واپس اپنے گھروں کو جانے کا حکم دیا لیکن لوگ اپنی جگہ کھڑے رہے۔ عوام کی جانب سے پولیس کا حکم نہ ماننے پر، انگریز افسران جن میں پولیس افسر مرفی اور اسسٹنٹ کمشنر بھی شامل تھا، نے سپاہیوں کو جلوس پر لاٹھی چارج کا حکم دیا۔
پولیس نے بڑی بے دردی سے لوگوں کو مارنا شروع کردیا۔ پولیس افسر مرفی نے جوش میں آکر خود بھی لاٹھی چارج میں حصہ لیا اور گھوڑے پر بیٹھ کو دور تک ہجوم میں گھس گیا۔ چونکہ گرمی کا موسم تھا اور جلوس میں شامل لوگ شدید گرمی کی وجہ سے پیاس سے نڈھال تھے اور ٹکر سے تعلق رکھنے والی خواتین پہلے جلوس میں شامل تھیں تو پانی سے مٹکے بھر بھر کر جلوس میں لوگوں کو پلا رہی تھیں۔ مرفی نے مَردوں کے ساتھ خواتین کو بھی مارنا شروع کیا۔ چونکہ پشتون معاشرے میں عورتوں کی بڑی عزت کی جاتی ہے اور جنگ میں بھی عورتوں پر ہاتھ نہیں اُٹھایا جاتا، اس لئے مرفی کو خواتین پر ہاتھ اُٹھاتا دیکھ کر سلطان پہلوان نامی شخص نے طیش میں آکر پستول نکالی اور مرفی کو گولی مار کر اُس کو زخمی کردیا۔ جب زخمی مرفی گھوڑے سے زمین پر گِر پڑا تو اس دوران سواتی ابی نامی ایک عمر رسیدہ عورت نے موقع کا فائدہ اُٹھا کر اس کے سر پر پانی سے بھرا مٹکا مار دیا اور مرفی نے موقع پر ہی دم توڑ دیا۔
یہ دیکھ کر اسسٹنٹ کمشنر نے مردان سے فوج منگوائی لیکن علاقے میں طوفان کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آرہا تھا اور انگریز فوج اُس وقت کچھ نہیں کر سکی۔ طوفان گزرنے جانے کے بعد جب روشنی ہوئی تو موقع پر فوج کے سپاہیوں اور افسران کے علاوہ اور کوئی موجود نہیں تھا۔ مذکورہ واقعہ کے تیسرے روز یعنی 28 مئی 1930 کو مرفی کی موت کا بدلہ لینے اور اپنے معمول کے ظلم اور زیادتی کو جاری رکھتے ہوئے سامراجی فوج نے ٹکر گاؤں کا محاصرہ کیا اور پولیس نے گھروں میں گُھس کر تلاشی لینا شروع کر دی۔ گھروں سے نقد رقم اور زیورات قبضے میں لینے کے بعد گھروں میں موجود گھریلو سامان یعنی کہ مٹکے وغیرہ توڑے گئے، آٹے اور غلے پر مٹی کا تیل چھڑک کر اسے بےکار کر دیا، تمام گھروں کے کپڑے، گدے، رضائیاں اور تکیے وغیرہ ایک میدان میں جمع کر کے آگ لگا دی گئی۔ ملک معظم خان اور شمروز خان کے حجروں کو بھی آگ لگا دی گئی۔ قریبی دیہات سے آئے ہوئے لوگوں نے جب گاؤں سے آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلے دیکھے تو انہوں نے فوج پر حملہ کر دیا۔
فوجیوں نے جو جدید اسلحہ سے لیس تھے، براہ راست لوگوں کو نشانہ بنا کر لاتعداد لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا۔ ایک اندازے کے مطابق واقعے میں مجموعی طور 70 افراد شہید جبکہ 150 کے قریب زخمی ہوئے تھے۔ پورے علاقے میں ظلم اور بربریت کی انتہا کردی گئی۔ گاؤں میں ایک پولیس چوکی قائم کر دی گئی اور کئی دنوں تک معصوم لوگوں کو پکڑ کر زبردستی لے جایا گیا اور لاتعداد خدائی خدمت گاروں کو جیل بھیج دیا گیا۔
2008 سے 2013 تک کی عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے ٹکر گاؤں میں ٹکر کے واقعے کے مناسبت سے ایک یادگار بھی تعمیر کیا ہے۔ چونکہ پاکستان کا نصاب سرکاری طور پر ایسے ترتیب دیا گیا ہے کہ پاکستان کی آزادی انگریز سامراج سے نہیں بلکہ ہندوؤں سے حاصل کی گئی ہے اور ساری توجہ مسلمانوں اور ہندوؤں کی تفریق اور دشمنی پر دی گئی ہے، اس لئے خدائی خدمتگار جیسے سامراج مخالف حقیقی تحریک اور عبدالغفار “باچا خان” جیسےحقیقی اور سامراج مخالف سیاستدانوں کو سرکاری نصاب میں جگہ نہیں دی جاتی اور نہ ٹکر جیسے خونریز واقعات کو جگہ دی جاتی ہے، حالانکہ ایسے سیکڑوں واقعات موجود ہیں، جہاں انگریز سرکار نے ناقابل یقین مظالم کئے ہیں۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ پشتون اور بلوچ قوم پرستوں کے مطابق پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے سے ان کو ظاہری طور پر کوئی فائدہ نہیں ہے اور ٹکر سانحے کے یاد کرنے اور اپنے سیاسی اور معاشی بحالیوں کے ذکر کرنے سے اِن قوموں کا مستقبل جُڑا ہوا ہے۔ اس لئے یوم تکبیر کے بجائے اپنے مسائل پر بات کرنی چاہیے۔ اگر چاغی میں ایٹمی تجربہ کرنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے عوام بلوچ اور پشتونوں کی حالت کے بارے میں بھی کوئی خاص اقدام اُٹھایا جاتا اور ٹکر کے سانحے جیسے واقعات بھی یوم تکبیر کے ساتھ نصاب کا حصہ ہوتے تو آج پاکستان کے تمام صوبوں کے لوگ یوم تکبیر کو جوش سے مناتے۔ لیکن افسوس۔۔۔