عمران خان کو چھ ماہ کی توسیع مل گئی

عمران خان کو چھ ماہ کی توسیع مل گئی
گذشتہ تین دن میں سپریم کورٹ میں جو کچھ ہوا ہے یہ پاکستان کی حالیہ تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ تھا۔ عدالت نے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے حوالے سے اہم ترین سوالات اٹھائے، اور تین دن کی کارروائی کے بعد جمعرات کو بالآخر سپریم کورٹ نے آرمی چیف کو چھ ماہ کی مشروط توسیع دے دی۔ شرط یہ رکھی گئی کہ ان چھ ماہ کے دوران پارلیمان کو آرمی چیف کے تقرر، ریٹائرمنٹ اور توسیع کے حوالے سے قانون سازی کرنا ہوگی۔



اس واقعے میں لیکن اگر کسی ایک شخص کا نقصان ہوا ہے تو وہ ہیں وزیر اعظم عمران خان صاحب۔ وزیر اعظم عمران خان کو نہ صرف اپنی ٹیم کی نااہلی کے باعث سبکی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ بار بار ان کی اپنی اہلیت پر سوالات بھی اٹھائے گئے۔ جس طرح انہوں نے نوٹیفکیشن پر دستخط کیے، اور پھر تبدیلی کے بعد صدر کو تجویز بھیجی، اور بعد ازاں جس طریقے سے کابینہ سے منظوری لی، یہ سب ان کے لئے خاصہ شرمندگی کا باعث بنا ہے۔ اور اس سے ان کے image کو نقصان پہنچا ہے۔

تاہم ان کی پوزیشن خاصی مضبوط ہوئی ہے کیونکہ عدالت نے جنرل باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا کام پارلیمان کو سونپا ہے جس سے ان کی توسیع اب عمران خان کے اپنے ہاتھ میں دے دی گئی ہے۔ یعنی اگلے چھ ماہ تک تو خان صاحب کہیں نہیں جاتے۔ 

اس دوران لیکن میڈیا پر لگی پابندیاں اور قدغنیں ہوا میں کچھ اس انداز میں تحلیل ہوئیں گویا کبھی تھیں ہی نہیں۔ ایک جانب میڈیا پر کھلم کھلا آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع پر بات چیت ہوتی رہی تو دوسری طرف حکومت کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ تجزیہ نگاروں اور ریٹائرڈ فوجی افسران نے توسیع کی مخالفت بھی کھل کر کی۔ وکلا کی جانب سے بھی سپریم کورٹ کے اس مسئلے کو عدالت میں لانے کا خیر مقدم کیا گیا۔ فوج میں تقرر و تبادلے یا اس کے سربراہوں کی توسیع پر کبھی عوامی سطح پر بحث نہیں ہوئی تھی۔ لیکن پچھلے تین دن میں یہ معاملہ مستقل زیرِ بحث رہا۔ ابتدا میں تو میڈیا نے اسے دبانے کی کوشش کی لیکن پھر ایک وقت آیا کہ اس موضوع پر بات نہ کرنا ناممکن ہو گیا۔



سب سے مضحکہ خیز صورتحال حزبِ اختلاف کی سامنے آئی۔ اس کا کوئی مؤقف نہیں تھا۔ کسی نے نہیں کہا کہ توسیع نہیں ملنی چاہیے۔ کسی سے یہ تک نہیں کہا گیا کہ توسیع ملنی چاہیے۔ سب خاموش رہے۔ کوئی ٹوئیٹ یا بیان گذشتہ دو دنوں میں اگر حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کی جانب سے سامنے آیا بھی تو وہ حکومت کی نااہلی پر ہلکی پھلکی تنقید کی صورت میں تھا۔ ایک اعتزاز احسن ہی بولے۔ پوزیشن انہوں نے جو بھی لی ہو، لیکن کم از کم کھل کر لی۔ عوام کو پتہ تو چلا کہ وہ اس موضوع پر کیا رائے رکھتے ہیں۔ باقی تو کوئی بیچارہ کھل کر حمایت بھی نہ کر سکا کہ کہیں حمایت کر دی اور جنرل باجوہ نہ رہے تو آنے والے آرمی چیف نہ ناراض ہو جائیں۔

سب سے زیادہ نقصان اس معاملے میں لیکن ملک کا ہوا۔ ایک طرف تو بین الاقوامی، خصوصاً بھارتی میڈیا نے اس پر پاکستان کا خوب ٹھٹھہ اڑایا۔ آج اٹارنی جنرل نے عدالتِ عظمیٰ میں اس کا ذکر بھی کیا۔ دوسری طرف ایک ایٹمی ملک کی فوج کے سربراہ کا مستقبل بالکل ہوا میں لٹکا ہوا تھا، اور وہ سربراہ صاحب خود کابینہ کی میٹنگ میں موجود تھے، صرف یہ دیکھنے کے لئے کہ ان کی توسیع کا نوٹیفکیشن اس بار غلط نہ ہو جائے۔ کیا ملک کی سرحدوں کا تحفظ چھوٹی ذمہ داری ہے جو سپہ سالار کو یہ مسائل بھی خود دیکھنے پڑ رہے ہیں؟

اور آخر میں وزیر اعظم صاحب کا ردِ عمل حیران کن تھا۔ ان کی اپنی کابینہ کے ارکان اور خود ان کی جانب سے کھڑا کیا گیا ایک مسئلہ اس ملک کا پوری دنیا کے سامنے تماشہ بنواتا رہا، اور اس پر ان کا ردِعمل یہ تھا کہ اس فیصلے سے سب سے زیادہ افسردہ ’ہماری اپنی صفوں میں موجود مافیاز‘ ہوں ے ’جنہوں نے چوری شدہ دولت بیرونِ ملک اپنے محفوظ ٹھکانوں میں چھپا رکھی ہے اور اسے بچانے کے لئے ملک میں عدم استحکام چاہتے ہیں‘۔ سوال یہ ہے کہ اگر خود ان کی غلطی سے یہ سب ہوا ہے تو پھر وہ دوسروں کو اس کا الزام کیسے دے سکتے ہیں؟ کیا یہ کھسیانی بلی، کھمبا نوچے والا معاملہ ہے؟ یا پھر عمران خان واقعی ’اپنی صفوں میں موجود‘ ان مافیاز کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو پاکستان کے تمام اداروں، بیوروکریسی، اپویشن اور خود حکومت کا بھی حصہ ہیں جس نے ان سے پے در پے غلطیاں کروائیں؟



اگر ایسا ہے تو انہیں ان کرداروں کو سامنے لے کر آنا چاہیے۔ اور قرار واقعی سزا بھی دینی چاہیے۔ یا پھر دوسری صورت میں یہی سمجھ جائے گا کہ پچھلے تین دن میں جس طرح سے انہیں بار بار اپنی نااہل ٹیم کے باعث شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس سے توجہ ہٹانے کے لئے انہوں نے اپنے ترکش میں موجود اس واحد پھل کٹے تیر کو دوبارہ چلا دیا ہے جس کو اب مخالفین تو دور، خود ان کے حامی بھی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.