’فیصلہ ہوا تھا نام نہیں لیا جائے گا‘: بلاول کا دعویٰ قطعاً معمولی نہیں

’فیصلہ ہوا تھا نام نہیں لیا جائے گا‘: بلاول کا دعویٰ قطعاً معمولی نہیں
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بی بی سی اردو کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے مسلم لیگ نواز کی اس پالیسی سے متعلق بات کی ہے جس کے مطابق پارٹی قائد نواز شریف پاکستانی فوج کے سینیئر افسران کے نام لے کر ان پر الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگا رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کو لانے کے ذمہ دار چونکہ فوجی قیادت تھی لہٰذا عمران خان حکومت کی کسی بھی قسم کی ناکامیوں کے لئے سوال بھی ان سے ہی کیا جائے گا۔ اس پالیسی پر عملدرآمد انہوں نے گوجرانوالہ میں کرنا شروع کیا تھا جہاں انہوں نے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے نام لے کر انہیں حکومت کی ناکامیوں اور غلط پالیسیوں کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا۔ اس کے بعد کوئٹہ میں بھی پی ڈی ایم کے جلسے میں انہوں نے اپنی تقریر کے دوران ان دونوں افسران پر نام لے کر کڑی تنقید کی تھی۔

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ گوجرانوالہ جلسے کے دوران نواز شریف نے جب تقریر کی تو انہیں حاضر سروس فوجی جرنیلوں کے نام سن کر دھچکا لگا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تین نسلوں سے یہ جنگ لڑ رہے ہیں اور جانتے ہیں کہ ان کی جماعت کو کس طرح اس جنگ کو لڑنا چاہیے لیکن نواز شریف کا حق ہے کہ وہ اپنے طریقے سے بات کریں۔ مجھے یقین ہے کہ انہوں نے نام لیے ہیں تو ان کے پاس ثبوت بھی ہوں گے، وہ تین مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں، بغیر ثبوتوں کے بات نہیں کریں گے۔ لیکن میں اپنی جماعت کی حکمتِ عملی یہی رکھنا چاہتا ہوں کہ ان لوگوں کے جلسوں میں نام نہ لوں۔

ان کو یاد دلایا گیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی 2018 کے انتخابات پر دھاندلی کا الزام لگایا تھا، مسلم لیگ نواز نے بھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ مسلم لیگ نواز اب نام لے رہی ہے۔ بلاول کا کہنا تھا کہ نام پیپلز پارٹی نے بھی لیے تھے 2018 انتخابات کے دوران لیکن وہ ایسے نام تھے جن کے بارے میں ان کے پاس ثبوت تھے۔ نواز شریف کے پاس بھی ٹھوس ثبوت ہوں گے تو انہوں نے یہ بات کی ہے کیونکہ ایسی بات ثبوت کے بغیر جلسوں میں نہیں کہی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ وہ کرونا وائرس کی وجہ سے نواز شریف سے روبرو بات نہیں کر سکے ہیں جو کہ بہت ہی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ آل پارٹیز کانفرنس میں جنرل باجوہ اور جنرل فیض کا نام نہیں لیا تھا لیکن وہاں یہ بات ضرور ہوئی تھی کہ کیا صرف ایک ادارے کو دھاندلی کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے یا پوری اسٹیبلشمنٹ کو، اور فیصلہ یہی تھا کہ پوری اسٹیبلمشنٹ پر بات کی جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ نام لینے کا فیصلہ وہاں نہیں ہوا تھا، اور اسی لئے جب نواز شریف نے نام لیے تو یہ میرے لئے ایک دھچکا تھا لیکن ہم ان کی زبان بندی نہیں کر سکتے، وہ جیسے چاہتے ہیں، بات کر سکتے ہیں۔

تاہم، انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ایک اتحاد ہے اور میں اس کے چارٹر کے بالکل ساتھ کھڑا ہوں۔ سلیکٹڈ کا لفظ میں نے دیا تھا، سلیکٹرز کا لفظ بھی میری ہی اختراع تھا لیکن جب پی ڈی ایم میں یہ بات اٹھی تھی تو میں نے کہا تھا کہ ہماری فوج کا پولنگ سٹیشنز کے اندر اور باہر جو طریقہ کار تھا، وہ بھی قابلِ مذمت ہے لیکن جس طرح ہمارا چیف جسٹس ڈیم مہم پر نکلا تھا، وہ اور اس کا الیکشن کے دن کا رویہ بھی قابل مذمت ہے۔ لیکن یہ جلسوں میں نہیں کہا جائے گا۔ میری کسی سے ذاتی لڑائی نہیں ہے، ثاقب نثار سے بھی کوئی ذاتی پرخاش نہیں۔ میری نسلوں سے یہ جدوجہد چل رہی ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ ہمیں سب قوتوں کو یہ سمجھانا جائے کہ سب بیٹھ کر ایسا فیصلہ کریں جو پاستان کے مفاد میں ہو اور یہ سب سے منوائیں کہ دنیا میں ملکوں کو چلانے کا طریقہ جمہوریت ہی ہے اور ہم سب کو قوم سے سچ بولتے ہوئے مفاہمت کی حکمت عملی اپنانی چاہیے۔

عمران خان کے اس الزام پر کہ نام لے کر نواز شریف فوج کی قیادت اور سپاہ میں دوریاں پیدا کرنا چاہتے ہیں، بلاول نے کہا کہ جب عمران خان کے الیکشن میں پولنگ سٹیشن کے اندر اور باہر دونوں جگہ پر فوج کھڑی ہوگی تو پھر دھاندلی ہو یا نہ ہو، وہ متنازع تو بنیں گے۔

مسلم لیگ نواز کی جانب سے اس انٹرویو پر محتاط رویہ اپنایا گیا ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز کے ترجمان محمد زبیر عمر کا کہنا ہے کہ ‏یہ بلاول کی ذاتی رائے ہوسکتی ہے،اپنے تجربات سے قوم کو آگاہ کرنا ضروری ہے، عدالت میں نہیں کھڑے کہ ثبوت پیش کریں،ہم کہانیوں کی بنیاد پربات نہیں کررہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ‏سب سے پہلے عمران خان کو سلیکٹڈ بلاول بھٹو نے کہا تھا، ہم نے نہیں۔ بلاول نے وزیراعظم کو سلیکٹڈ کہا تو سلیکٹ کس نے کیا تھا؟ مگر اس سے زیادہ کوئی بات مسلم لیگی قیادت کی جانب سے نہیں ہوئی۔

اسی طرح پیپلز پارٹی کے حامیوں کا بھی کہنا ہے کہ بلاول کے انٹرویو کو غلط معنی پہنائے جا رہے ہیں۔ تاہم، بلاول کے انٹرویو میں دو نکات انتہائی اہم ہیں۔ پہلا تو یہ کہ انہوں نے واضح طور پر یہ بات کہی ہے کہ پی ڈی ایم کے پہلے اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کیا جائے گا۔ یعنی وہ ایک طرح سے نواز شریف کو وعدہ خلافی کا مرتکب قرار دے رہے ہیں۔ دوسرا یہ ہے کہ انہوں نے کم از کم تین بار ثبوتوں کا ذکر کیا۔ پیپلز پارٹی نے بھی سلیکٹڈ اور سلیکٹر سے متعلق کوئی ثبوت پیش نہیں کیے۔ ممکن ہے وہ اسے نام نہ لینے کے جواز کے طور پر استعمال کر رہے ہوں لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ جن کے نام لیے جا رہے ہیں، انہیں پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہوں کہ میں اچھا بچہ ہوں، نام نہیں لیتا جب کہ نواز شریف گندا بچہ ہے جو کہ نام لے رہا ہے۔

اور پھر اس انٹرویو کی ٹائمنگ بہت اہم ہے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب پی ڈی ایم کے اگلے جلسے میں ایک لمبا وقفہ موجود ہے، مریم نواز گلگت بلتستان پہنچ چکی ہیں اور وہ وہاں انتخابی مہم میں مصروف ہیں، مسلم لیگ نواز میں سے فارورڈ بلاک کی باتیں جاری ہیں، جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ مسلم لیگ نواز کو چھوڑ کر جا چکے ہیں اور افواہیں یہی ہیں کہ وہ پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں، بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے یہ اختلاف عوامی سطح پر لانا کہ نواز شریف نے اے پی سی میں اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کرنے کے فیصلے کے باوجود نام لینا شروع کر دیے، قطعاً معمولی بات نہیں ہے۔ پی ڈی ایم کی جماعتوں میں اختلافات موجود ہیں، اور اب یہ سامنے بھی آ رہے ہیں۔ تاہم، یہ کہنا بھی قبل از وقت ہوگا کہ ان اختلافات کے باعث پی ڈی ایم ٹوٹ جائے گی۔ حکومت کی خراب کارکردگی اس کے لئے اب بھی ایک بڑا چیلنج ہے اور اس وقت پی ڈی ایم اتحاد کو خراب کرنے والی جماعت کے لئے عوام میں یہی تاثر جائے گا کہ وہ بھاگ کھڑی ہوئی ہے۔ اور یہ طویل مدت میں کسی بھی جماعت کے لئے اچھا شگون نہیں ہوا کرتا۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.